یہ ایک ازلی حقیقت ہے کہ کسی بھی ریاست یا مملکت کے استحکام اور خوشحالی کا سبب متعلقہ ریاست میں قانون پر حقیقی معنوں میں عملدرآمد اور بلاتفریق عدل و انصاف کی فراہمی ہے۔ قانون شکنی کو روکنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ مملکت کے مقتدر طبقہ یا عام شہریوں میں فرق نمایاں نہ کیا جائے اگر ملک کا سربراہ اور بتدریج مختلف عہدوں پر تعینات سرکاری اہلکاران قانون کی پاسداری کرینگے تو کسی کو جرأت نہیں ہو گی کہ وہ قانون شکنی کرے۔ بانی پاکستان حضرت قائداعظمؒ ہر روز شام کو ملیر کینٹ سیر کیلئے جاتے ۔ ایک رات واپسی پر ریلوے پھاٹک بند تھا میں پھاٹک والے ڈیوٹی مین کے پاس گیا، ٹرین کی آمد کا پوچھا اس نے کہا کہ چار پانچ منٹ میں ٹرین کراس کریگی۔ ابھی میں اسے پھاٹک کھولنے کیلئے کہنے والا تھا کہ قائداعظمؒ نے ڈرائیور سے کار بند کروائی۔ مجھے واپس بلوا کر کہنے لگے کہ جب ٹرین گزر جائے گی تو ہم جائینگے اور ساتھ ہی فرمانے لگے کہ بھلا یہ کیوں ضروری ہے؟ اگر میں بحیثیت گورنر جنرل قانون شکنی کروں گا تو میرے پیچھے قانون شکنوں کی لائن لگ جائیگی۔ پاکستان کے پہلے وزیر صنعت و تجارت آئی آئی چندریگر کے بیٹے نے کراچی میں امپورٹ ایکسپورٹ کا کاروبار شروع کر دیا۔ قائداعظمؒ کو خبر ہوئی آپ نے انہیں بُلا کر کہا
"MR. CHUNDRI GAR , EITHER YOU SHOULD RETAIN THEMINISTRY OR BUSINESS OF YOUR SOON, ITS YOUR CHOICE"
چندریگر مرحوم نے اپنے قائد محترم کی رفاقت کو ترک کرنا گوارا نہ کیا لیکن بیٹے کا کاروبار ترک کر دیا۔ وطن عزیز میں بدقسمتی سے گزشتہ ساٹھ سالوں میں نہ تو ہمیں قائداعظمؒ جیسا راہبر مل سکا اور ملک بتدریج قانون شکنوں کا گڑھ بن گیا ہر آنیوالے حکمران نے نہ صرف قانون شکن تھے اور قوانین کی پاسداری انکے قرب و جوار پھیرے لگانے والوں نے بھی نہ کی جس کا فطری نتیجہ یہ نکلا کہ آج پاک وطن میں ’’سڑک سے لیکر پارلیمنٹ تک اور ایک آدمی سے لیکر سربراہ مملکت حتیٰ کہ تمام اہلیان اقتدار کوئی بھی ضابطہ ماننے کیلئے آمادہ نہیں‘‘ قانون شکنی کا نتیجہ لازمی ناانصافی ہوگا۔ امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور جان و مال کا عدم تحفظ جس حد تک پہنچ چکا ہے اس کا فوری اور موثر حل صرف ایک ہی صورت میں ممکن ہے ’’ قوانین پر سختی سے بلاامتیاز حاکم و محکوم عمل کروایا جائے۔بصورت دیگر بقول حضرت علیؓ ’’کفر سے حکومت چل سکتی ہے ظلم و ناانصافی سے نہیں‘‘ ۔