محمد افضل قادری
کتب احادےث مےں سے مسند حارث مےں حارث بن ابو اسامہ، زوائد ہےثمی مےں حافظ الحدےث نور الدےن ہےثمی، اور کنزالعمال مےں علامہ علاءالدےن علی متقی رواےت کرتے ہےں کہ باغےوں نے حضرت عثمان غنیؓ کا کئی اےام سے محاصرہ کےا ہوا ہے، اسی دوران خلےفہ¿ سوم اےک دن حضرت عبداللہ بن سلامؓ کو پےغام ملاقات بھےجتے ہےں، وہ پےغام ملتے ہی ملاقات کےلئے حاضر ہو جاتے ہےں، حضرت عثمانؓ ان سے کچھ اہم باتےں کرتے ہےں اور واپسی کے وقت ان سے ےوں مخاطب ہوتے ہےں:
اے عبداللہ اس کھڑکی کی طرف دیکھو! آج رات رسول اللہ نے اس میں سے کمرہ میں دیکھا ہے اور فرماےا ہے: اے عثمان! کیا ان لوگوں نے تمہارا محاصرہ کررکھا ہے؟
میں نے عرض کیا: ہاں ےا رسول اللہ! تو آپ نے ایک پانی کا ڈول میرے قریب کیا پس میں نے اس میں سے پانی پیا بےشک میں اس کی ٹھنڈک اپنے جگر میں پا رہا ہوں۔
پھر مجھے فرمایا اگر تم چاہو تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کروںکہ وہ تمہاری ان (محاصرہ کرنے والوں پر) پر مدد کرے اور اگر تم چاہو تو ہمارے پاس افطار کرو۔
حضرت عبداللہ بن سلام نے فوراً پوچھا اے امےر المو¿منےن آپ نے کس چےز کو اختیار فرمایا ہے؟
حضرت عثمانؓ نے جواب دےا: اے عبد اللہ بن سلامؓ مےں نے رسول اللہ کے پاس افطار کرنے کو ترجےح دی ہے۔
حضرت عبداللہ اپنے گھر کی طرف چلے گئے۔ پھر جب دن کا اختتامی وقت قرےب ہوا تو اپنے بیٹے کو فرمایا جاﺅ دیکھو حضرت عثمانؓ کےساتھ کیا ہوا ہے، اور مےرے خےال مےں ممکن نہیں کہ وہ اب زندہ ہوں کےونکہ وقت افطار قرےب آ چکا ہے۔ چنانچہ صاحبزادے واپس لوٹے اور خبر دی کہ امےر المو¿منےن کو شہےد کردےا گےا ہے۔ انا للہ وانا الےہ راجعون۔
ےہ حدےث ”مسند الحارث“ جز: 2، صفحہ:901، ولادت المو¿لف186ھ، وفات:282ھ، طبع مدےنہ منورہ اور ”کنز العمال“ کتاب الفضائل، فضائل ذوالنوےن عثمان بن عفانؓ صفحہ: 38، حدےث: 36291، جلد:13 و دےگر کتب مےں تفصےلا ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔
علاوہ ازےں سنن ابو داو¿د اور صحےح بخاری کی کتاب المناقب مےں ہے کہ آپ جبل احد پر تشرےف لائے حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمانؓ بھی آپکے ہمراہ تھے اسی دوران احد پہاڑ تھرتھرانے لگا تب رسول اللہ نے فرماےا: اے احد ٹھہر جا تُجھ پر اےک نبی اےک صدےق اور دو شہےد کھڑے ہےں۔
جبکہ مسند احمد اور جامع ترمذی کی کتاب المناقب، باب فی مناقب عثمانؓ مےں حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے رواےت ہے کہ رسول اللہ نے اےک فتنے کا ذکر کےا تو حضرت عثمان غنیؓ کے بارے مےں فرماےا ےہ اس فتنہ مےں ظلماً قتل کر دئےے جائےں گے جبکہ جامع ترمذی اور سنن ابن ماجہ کی احادےث مےں ہے کہ رسول اللہ نے فتنوں کا ذکر کےا اور حضرت عثمان غنیؓ کی طرف اشارہ کرکے فرماےا کہ ےہ اس وقت ہداےت پر ہوں گے۔
وصف حیاءآپ کی پہچان تھا، رسول کریم نے انہےں اپنا رفیق قرار دیا، آپ کو کاتب وحی ہونے کا شرف حاصل ہوا، انہیں جامع القرآن کہا جاتا ہے، آپ قرآن پاک کے پہلے حافظ ہیں۔ آپ کو مَلِک التجار (تاجروں کے بادشاہ) اور بے لوث ایثار وقربانی کی بدولت غنی کے لقب سے مشہور ہوئے۔نہاےت صحت افزا پانی والا کنواں بےئر رومہ خرےد کر مسلمانوں کےلئے وقف کےا، تمام اہل علاقہ کو بلاتفرےق اس مےں سے پانی لےنے کی اجازت تھی۔ آپ کے دور خلافت مےں دےگر کارہائے نماےاں کے علاوہ بحری بےڑہ بناےا گےا۔ سمندروں پر مسلمانوں کا کنٹرول ہوا، بے شمار علاقے فتح ہوئے اور اسلامی رےاست کی سرحدےں سوڈان سے بحےرہ قزوےن اور افرےقہ سے چےن تک پھےل گئےں۔
بالآخر احادےث رسول کے مطابق آپ کی شہادت کا وقت قرےب آ گےا اور اس کا سبب سبائی فتنہ بنا۔ اس فتنہ کا تعارف ےوں ہے کہ ےہ فتنہ اےک ےہودی عالم عبداللہ بن سباءکی طرف منسوب ہے۔ اس کی حقےقت ےہ ہے کہ ےہودےوں نے مسلمانوں سے انتقام لےنے، ان کی شےرازہ بندی کو منتشر کرنے اور مسلمانوں مےں جنگ و جدال کا بازار گرم کرنے کےلئے اےک نہاےت خطرناک سازش تےار کی اس سازش کے تحت عبداللہ بن سباءےہودی منافقانہ طور پر مسلمان ہو گےا۔ اس بات کو معروف محقق علامہ عبدالعزےز کشی نے اپنی تصنےف رجال الکشی اور علامہ نوبختی نے فرق الشےعہ میں بےان کےا ہے کہ عبداللہ بن سباءدراصل ےہودی تھا۔ بہرحال خلاصہ ےہ ہے کہ عبداللہ بن سباءسب سے پہلے حضرت عثمان غنیؓ کے پاس پہنچا مگر آپ نے اسے نکال دےا۔ ےہاں سے نکل کر حضرت علیؓ کے حلقہ درس مےں جا بےٹھا مگر ےہاں بھی سازگار حالات مےسر نہ آ سکے، پھر عراق چلا گےا وہاں بھی کامےابی حاصل نہ ہوئی۔ بالآخر مرکز اسلام سے دور دراز مصر کا رُخ کےا اور مصرےوں کو سب سے پہلے ےہ ذہن نشےن کراےا کہ وہ حضرت علیؓ عنہ کا شاگرد خاص اور آل رسول کا محب ہے۔ پھر مسلمانوں مےں سے سادہ مسلمانوں کو گمراہ کرنے لگا۔ چنانچہ اس چالاک دشمن اسلام نے سادہ لوح مصرےوں کے دل مےں خلفاءثلاثہ اور بالخصوص حضرت عثمان غنیؓ کے بارے مےں نفرت کا بےج بونے کی مہم شروع کر دی۔ اس پر مستزاد عبداللہ بن سباءنے حضرت عثمان غنیؓ کے مقرر کردہ گورنروں کی کردار کشی کی مہم چلائی اور حضرت عثمان غنیؓ پر الزام تراشی شروع کی۔ ےہاں تک کہ 34ھ مےں باغےوں کی اےک جماعت نے مدےنہ منورہ پر حملہ کےا اور حضرت عثمان غنیؓ کے مکان کا محاصرہ کر لےا۔ جوکہ چالےس دن تک رہا اور اس دوران آپکے گھر پانی پہنچانے پر بھی پابندی لگا دی۔
اس موقع پر حضرت علیؓ، حضرت زبیرؓ، حضرت طلحہؓ سمےت اکثر جلےل القدر صحابہ کرامؓ نے حضرت عثمان غنیؓ سے ان باغےوں کے خلاف کارروائی کرنے کی اجازت مانگی تو آپؓ نے بڑی سختی کے ساتھ لڑائی سے روک دےا اور فرماےا کہ ”میں شہرِ نبی میں اپنی خاطر ایک بھی مسلمان کا خون بہانا نہیں چاہتا۔ میرا سب سے بڑا مددگار وہ ہے جو اپنے ہاتھ اور اسلحہ کو روکے رکھے۔“ چنانچہ 18ذوالحج کے روز اس عظےم شخصےت کو شہےد کر دےا گےا۔ انا للہ وانا الےہ راجعون۔
فنش،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،