عہد ساز شخصیت۔۔۔۔۔شورش مرحوم کی یاد میں

Oct 24, 2014

آغا مشہود شورش
آغا شورش کاشمیری جیسی عہد ساز شخصیت مدتوں بعد پیدا ہوتی ہے ۔ان کے بارے میں پڑھتا اور سوچتا ہوں اور پھر اپنے ارد گرد میدان سیاست ، صحافت ، ادب اور خطابت پر نظر دوڑاتا ہوں تو اس سوچ میں ڈوب جاتا ہوں کہ کیا ایسے لوگ واقعی حقیقت ہیں یا افسانہ ۔آغا شورش 14 اگست 1917 ءکو امرتسر میں پیدا ہوئے۔ آغا شورش مرحوم بے پناہ خوبیوں کا مرقع تھے ، جن کے بارے میں بابائے صحافت مولانا ظفر علی خاں کہتے ہیں :شورش سے مرا رشتہ ازّلی ہے
میں وقت کا رستم ہوں تو وہ ثانیِ سہراب
ان کی سحر انگیز شخصیت کے کسی ایک پہلو کا بھی احاطہ کرنا ناممکن ہے ۔ ان کی تحریر و تقریر اس وقت بامِ عروج پر ہوتی جب اُن کا مخاطب اہل اقتدار ہوتا ، لاکھوں کا اجتماع ہوتا ۔ آغا شورش ہمیشہ سب سے آخرمیں تقریر کرتے اور ان کا خطاب ہمیشہ پوپھٹنے تک جاری رہتا۔ آج کے بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ شورش صاحب نے نہ صرف مجلس اقبال کی تشکیل کی بلکہ وہ اس کے پہلے سیکرٹری جنرل بھی تھے ۔ حضرت علامہ اقبال کو وہ اپنا فکری مرشد مانتے تھے۔  1966ءمیں یوم ِ اقبال کے موقع پر تقریب کے دوران ایک وفاقی وزیر مہمان خصوصی کے طور پر مدعو تھے، آغا شورش نے تقریر کرتے ہوئے سٹیج پر برجستہ ایسے شعر پڑھ دیئے جس پر وزیر موصوف تماشہ اور عوام تماشائی ہو گئے۔
کانپ اُٹھتا ہوں سیاسی نٹ کھٹوں کو دیکھ کر
کیسے کیسے لوگ اپنی رہبری کرتے رہے
 جنوری 1968ئ میںہفت روزہ چٹان میں آغا شورش کی ایک نظم بعنوان ”دوستو “ چھپی  جس سے ان کے میلان طبع کا اندازہ ہوتا ہے۔
میں نے ادب کا حسن بڑھایا ہے دوستو
زور قلم سے رنگ جمایا ہے دوستو
زندہ دِلوں میںذوقِ جنوں عام کردیا
مردوں کو مقبروں سے جگایا ہے دوستو
آج عالم اسلام اور بالخصوص ہمارا وطن ِ عزیز جن حالات و واقعات کی زد میں ہے اور خاص طور پر ملکی سیاست جس نہج پر چل رہی ہے اس پر آغا صاحب کی کی چالیس سال پہلے کی کچھ تحریروں اور نظموں سے اندازہ ہوتا ہے کہ آنے والے وقت کے بارے میں وہ کس قدر فکر مند تھے۔ 20دسمبر1971 ء میں ہفت روزہ چٹان میں سقوط ڈھاکہ کے حوالے سے ان کا اداریہ محب وطنوں کیلئے ہمیشہ ایک عہد کی مثال رہے گا۔ جس میں انہوں نے لکھا۔” مجھے رونے دو“
گری ہے جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو
میں کچھ نہیں کہتا میں ایک دکھی انسان ہوں اتنا دکھی کہ میرا دل ڈوب رہا ہے ، میرا دماغ شل ہو گیا ہے میں لکھنا چاہتا ہوں لکھ نہیں سکتا کیا بیت گئی ؟اس دن کے لےے زندہ تھے ہم !میں اس دن کے لےے کیوں زندہ رہا مجھے قدرت نے اس دن کے لےے زندہ رکھا تھا؟ٹھیک ہے میدان جنگ ہمارے ہاتھ سے نکل گیا ہے ، جنگ جاری ہے لیکن مجھے اس دن کے لےے زندہ نہیں رہنا چاہےے تھا میں کسی پر الزام نہیں لگاتا ، میں تاریخ کی پکار ہوں اور تاریخ کے کٹہرے میں بہت سے ملزم کھڑے ہیں ۔
قائد اعظم زندہ ہوتے تو ہم سے پوچھتے ”میں نے تمہیں ملک اس طرح دیا تھا ؟میرا ملک یہ تھا ؟ وہ سیاست دانوں سے سوال کرتے ، میری فراست سے یہی کچھ ملا تھا ۔ جنرل یحییٰ سے پوچھتے تم نے میری گدی اس لےے سنبھالی تھی ، اخبار نویسوں سے پوچھتے تمہارا سچ کہاں دفن ہو گیا ؟خطیبوں سے سوال کرتے تمہیں کس دن کے لےے لونی لگ گئی ۔ خواص سے پوچھتے تمہیں پاکستان نے اس درجہ پر اس دن کے لےے فائز کیا تھا ؟ ۔ عوام سے دریافت فرماتے تم اتنے لاغر ہوگئے تھے کہ سالہا سال تماشا بنے رہے اور خواہشوں پر زندگی بسر کرتے خود ایک خواہش ہو گئے ایسی خواہش ۔۔۔۔جو کبھی پوری نہ ہو۔
 ملک میں صحافت کی کم مائیگی کا احوال بیان کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں، ایک دو اخبار داغ ہائے دل کی نمائش کرتے ہیں ، لیکن جنگل کی رات میں جگنو کی روشنی کہاں تک روشنی دے سکتی ہے؟۔ ایک اداریے میں انہوں نے برملا اعتراف کیا کہ خدا کے عذاب کی مختلف شکلیں ہوتی ہیں ۔مشرقی پاکستان کٹ گیا ، تو اللہ تعالی نے ہمیں انتباہ کیا ، لیکن ہم نے کوئی سبق نہ لیا اب مغر بی پاکستان کا جو حال ہے وہ سب کے سامنے ہے ۔ سوچےے باتیں پاکستان کی ہو رہی ہیں یا سرحد ، بلوچستان ، سندھ اور پنجاب کی ؟ اس عذاب کو ہوا کون دے رہا ہے ؟او ر اس کی مسﺅلیت کس پر عائد ہوتی ہے؟
آغا شورش ایک صحافی ہی نہیں بہت بڑے مقرر اور ادیب بھی تھے۔برصغیر کے سب سے بڑے خطیب سید عطاءاللہ شاہ بحاری ؒ نے بمبئی کے ایک جلسہ عام میں آغا صاحب کی تقریر سن کر کہا تھا جبکہ آغاصاحب کی عمر صرف چوبیس برس تھی ”کہ آج میں نے اپنے بڑھاپے کو جو انی میں تبدیل ہوتے دیکھا ہے“۔ جس کے بارے میں امام الہند مولانا ابوالکلام آزادنے فرمایا کہ” یہ نوجوان تحریر او رتقریر میں یکتا ہے“ ۔
آغا صاحب نے اپنی ساری زندگی اسلام کی سربلندی ،کے لےے وقف کئے رکھی ۔دور ِ ایوبی ختم ہوا پھر یحییٰ خان ملک کو دو لخت کر کے رخصت ہوئے ،اس کے بعد آغا شورش بھٹو کے دور حکومت میںبھی حکمرانوں کو اسی طرح للکارتے رہے اور عقیدہ ختم نبوت کی تحریک کے دوران زندگی کی فیصلہ کن جد وجہد میں حصہ لےنے کے ایک سال بعد24 اکتوبر 1975 ءکو داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔
 

مزیدخبریں