بیگم نصرت بھٹو کی قبر میں بھٹو سیاست کی ہچکیاں

ضیاءکھوکھر پیپلز پارٹی کے دیرینہ کارکنوں میں شامل ہیں اور اس ناطے سے مرحوم ذوالفقار علی بھٹو، بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے پیدائش اور انتقال کے دنوں کی اپنے دوست و احباب کو اطلاع دینا انہوں نے از خود اپنے فرائض میں شامل کر رکھا ہے، اسی طرح ہر چار جولائی کو ضیاالحق کے نافذ کردہ 5 جولائی 1977ءکے مارشل لا کی یاد تازہ کرانا بھی ان کے ازخود فرائض منصبی کا حصہ ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادتیں ان دنوں کو یاد رکھیں یا نہ رکھیں ہمیں ضیاءکھوکھر کی ٹیلی فونک کال پر ان دنوں کی اطلاع ضرور مل جاتی ہے۔ ان دنوں ضیاءکھوکھر اسلام آباد میں سابق صدر آصف علی زرداری کے میڈیا سیل کو سنبھالے بیٹھے ہیں چنانچہ اس ناطے سے انہوں نے گزشتہ روز جہاں پیپلز پارٹی کی سابق چیئرپرسن بیگم نصرت بھٹو کی تیسری برسی کی اطلاع دی وہیں آصف علی زرداری کے نام سے منسوب ایک تعزیتی بیان بھی جاری کر دیا جس میں بتایا گیا کہ زرداری صاحب کو اپنی محترمہ خوشدامن مرحومہ کی تیسری برسی پر ان کی یاد بہت ستا رہی ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ محترمہ نصرت بھٹو ایک عظیم شخصیت تھیں جو بہادری کا مجسمہ تھیں اور اس ناطے سے مرحومہ نے اپنی جمہوری جدوجہد میں ذاتی برداشت کا عملی نمونہ پیش کیا۔ فطری طور پر میرے ذہن میں خیال ابھرا کہ زرداری صاحب کو اپنی ساس محترمہ کی یاد ستائی ہے تو ان کی برسی کے موقع پر لازماً پیپلز پارٹی کی جانب سے اعلیٰ سطح پر کسی تقریب کا اہتمام بھی کیا جا رہا ہو گا۔ آج 23 اکتوبر کو میں نے تقریباً تمام قومی اخبارات کھنگالے مگر سوائے زرداری صاحب کے بیان کے جو ضیاءکھوکھر کا جاری کردہ تھا اور جس کی بنیاد پر اخبارات کے بیٹ رپورٹرز نے بیگم نصرت بھٹو کی تیسری برسی کے حوالے سے خبر بھی تیار کر لی تھی، مجھے پیپلز پارٹی کے کسی بھی پلیٹ فارم پر مرحومہ نصرت بھٹو کی برسی کی کسی بھی تقریب کے اہتمام کی کوئی خبر نہ مل سکی، صرف ایک ایوننگر میں ملتان سے ایک سنگل کالم کی خبر موجود تھی جس میں ملتان کی کسی مقامی تنظیم کی جانب سے بیگم نصرت بھٹو کی برسی کی تقریب کے اہتمام کی اطلاع دی گئی۔ بیگم نصرت بھٹو کی برسی سے ایک دن قبل پیپلز پارٹی کے راندہ¿ درگاہ اکابرین ناہید خان، صفدر عباسی اور ساجدہ میر نے لاہور میں پیپلز پارٹی ورکرز کنونشن منعقد کر کے پیپلز پارٹی زرداری گروپ کے مقابل پیپلز پارٹی ورکرز کے قیام اور صفدر عباسی کے اس نوتشکیل کردہ پارٹی کے عبوری صدر منتخب ہونے کا اعلان کیا مگر اس پورے کنونشن کی کارروائی میں بیگم نصرت بھٹو کا کہیں تذکرہ تک دیکھنے، سُننے اور پڑھنے کو نہ ملا۔کنونشن میں پارٹی پالیسیوں کے حوالے سے پیپلز پارٹی کی بلاول قیادت کو کوسنے ضرور دئیے گئے اور ورکرز پیپلز پارٹی کے نومنتخب صدر صفدر عباسی کی والدہ محترمہ سابقہ ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر اشرف عباسی کی روح کو ایصال ثواب کے لئے فاتحہ خوانی بھی کر لی گئی مگر کنونشن میں شریک پیپلز پارٹی کے کسی دیرینہ جیالے کو یہ خیال تک نہ آیا کہ اگلے روز ان کی سابقہ چیئرپرسن بیگم نصرت بھٹو کی برسی بھی ہے، اگر کسی کو یہ دن یاد ہوتا تو شاید شرمو شرمی ہی کنونشن میں بیگم نصرت بھٹو کی روح کو ایصال ثواب کے لئے بھی فاتحہ پڑھ لی جاتی مگر محسوس یہی ہو رہا ہے کہ پیپلز پارٹی کی زرداری اور بلاول قیادت کے ساتھ ساتھ نوزائیدہ ورکرز پارٹی نے بھی پارٹی کے زریں اصولوں سے وابستہ اس کی قیادت کی ویسے ہی فاتحہ پڑھ لی ہوئی ہے۔ اگر بے حسی دو طرفہ ہے تو آخر گلہ کریں بھی تو کس مدعا کے ساتھ۔ جیالی ساجدہ میر کو بھی کچھ خیال نہ آیا۔
جس بیگم نصرت بھٹو نے پیپلز پارٹی کے من و سلویٰ والے اقتدار کے بعد جنرل ضیاءکے مارشل لاءوالے سختیوں اور ملامتوںوالے دنوں میں اپنے شوہر نامدار ذوالفقار علی بھٹو کے کہنے پر ان کی پارٹی کی قیادت سنبھالی اور مارشل لاءکے خلاف ایم آر ڈی کی آٹھ سال پر محیط جدوجہد کے دوران خود لاٹھیاں کھائیں اور مخالفین کی دشنام طرازی کا سامنا کیا، انہیں پارٹی میں راندہ¿ درگاہ بنانے کا سلسلہ ان کی لاڈلی بے نظیر بھٹو کے ہاتھوں ہی شروع ہو گیا تھا، بیگم نصرت بھٹو نے اپنے پارٹی آئین کے تقاضوں کے برعکس بے نظیر بھٹو کے لئے شریک چیئرپرسن کا عہدہ نکالا مگر اس شریک چیئرپرسن نے اپنے رطب اللسان پارٹی جیالوں کے نرغے میں آ کر اپنی چیئرپرسن والدہ کو چیئرپرسن کے عہدے سے فارغ کرا کے خود تاحیات یہ عہدہ سنبھال لیا۔ یہ ”معرکہ“ 1994ءمیں الحمرا ہال لاہور میں منعقدہ پیپلز پارٹی کے تاسیسی کنونشن میں سر کیا گیا جب محترمہ بے نظیر بھٹو وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر بھی فائز تھیں، اس کنونشن میں اس وقت کے پارٹی سیکرٹری جنرل شیخ رفیق احمد نے اچانک اپنے کوٹ کی جیب میں سے ایک قرارداد کا مسودہ نکالا اور اسے پڑھنا شروع کر دیا جس میں محترمہ بے نظیر بھٹو کو پارٹی کی تاحیات چیئرپرسن بنانے کے لئے ہاﺅس کی منظوری درکار تھی۔ یہ قرارداد پڑھے جانے کے بعد بھلا کسی کی مجال ہو سکتی تھی کہ محترمہ کی موجودگی میں وہ قرارداد کے مندرجات سے کسی قسم کا اختلاف کرے چنانچہ ہاﺅ ہو کے شور شرابے میں یہ قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی گئی اور اس کے ساتھ ہی محترمہ پیپلز پارٹی کی شریک چیئرپرسن سے چیئرپرسن بن گئیں۔ بیگم نصرت بھٹو کو انہوں نے اپنے پہلے دورِ حکومت میں وفاقی کابینہ میں شامل کر کے وزیر بے محکمہ بنایا تھا مگر دوسرے دور میں انہیں وزارت تو کیا، پارٹی قیادت کے بھی قابل نہ سمجھا گیا۔ اس پر بیگم نصرت بھٹو کا کوئی احتجاج تو سامنے نہ آیا البتہ وہ پارٹی کے معاملات سے مکمل طور پر لاتعلق ہو گئیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں ہی جب میر مرتضیٰ بھٹو اپنی جلاوطنی ترک کرکے ملک واپس آئے تو فطری طور پر بیگم نصرت بھٹو اپنے اس صاحبزادے کی سیاست کا دم بھرنے لگیں جو پیپلز پارٹی کو زرداری سیاست سے خلاصی دلانے کی سیاست تھی۔ شاید اس ممکنہ صورتحال کو بھانپ کر ہی بیگم نصرت بھٹو کو پیپلز پارٹی کی سیاست سے دور کیا گیا تھا۔ میر مرتضیٰ بھٹو کی ملک واپسی کے بعد میں نے انہیں نوائے وقت فورم ”ایوان وقت“ میں مدعو کیا تو وہ بیگم نصرت بھٹو کے دستِ شفقت کی چھاﺅں میں نوائے وقت کے آفس میں آئے۔ اس وقت ان کی زرداری سیاست کی مخالفت عروج پر تھی اور اس حوالے سے وہ پیپلز پارٹی کی حکومتی پالیسیوںکو بھی چیلنج کر رہے تھے چنانچہ ایوان وقت میں بھی انہوں نے پیپلز پارٹی کی قیادت اور حکومت کے خوب لتے لئے۔ فورم کے بعد بیگم نصرت بھٹو نے اپنے چہرہ پر چھلکنے والی سرشاری کے ساتھ مجھ سے استفسار کیا کہ آپ کو مرتضیٰ کا کیا سیاسی مستقبل نظر آتا ہے۔ اس نے ان کی بے باکی کی تعریف کی تو بیگم نصرت بھٹو کی زبان سے بے ساختہ یہ فقرہ ادا ہُوا کہ میرا فرزند تو ایسا ہی ہو گا جو بھٹو کا جانشین اور سیاسی وارث بھی ہے۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ اس محاذ آرائی کے دو ماہ بعد ہی بھٹو خاندان کے بعض بڑوں اور بعض دوسرے زعما نے بیچ میں پڑ کر بہن بھائی (بے نظیر اور مرتضیٰ) میں ایک تحریری معاہدے کی شکل میں صلح کرا دی جس کے تحت سندھ پارٹی کی تنظیم اور وزارت اعلیٰ میر مرتضیٰ بھٹو کے حوالے کرنا طے ہوا مگر یہ بیل منڈھے چڑھنے سے پہلے ہی بنا بنایا کھیل بگاڑ دیا گیا اور محترمہ کے دور حکومت ہی میں 70 کلفٹن کراچی کے باہر مرتضیٰ بھٹو کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ بیگم نصرت بھٹو اس سانحہ کے بعد عملاً اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھیں کیونکہ شوہر اور ایک بیٹے کی غیر فطری موت کے صدمات وہ پہلے ہی جھیل چکی تھیں۔ وہ لمحات بھی میری آنکھوں کے سامنے گھوم رہے ہیں جب بہن بھائی میں صلح کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو برونائی اور انڈونیشیا کے سرکاری دورے پر گئیں تو بیگم نصرت بھٹو کو بھی انہوں نے اپنے ساتھ لے لیا۔ آصف زرداری بھی وزیر سرمایہ کاری کی حیثیت سے اس وفد میں شامل تھے۔ میںچونکہ ان کے ساتھ جانے والی میڈیا ٹیم میں شامل تھا اس لئے مجھے بعض معاملات کا قریب سے مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ اس پورے دورے میں بیگم نصرت بھٹو گم صم رہیں اور میں نے کبھی آصف زرداری کو اپنی ساس محترمہ کے ساتھ کسی قسم کی بات کرتے نہ دیکھا۔ اس دورے سے واپسی کے بعد ہی میر مرتضی بھٹو کے قتل کا سانحہ ہوا جس کے بعد بیگم نصرت بھٹو عملاً منظر سے غائب ہی ہو گئیں، ان کے بارے یہ اطلاعات ملتی رہیں کہ انہیں دبئی میں کسی جگہ پر ”محفوظ“ کر دیا گیا ہے۔ پھر ایک دن وہیل چیئر پر بیٹھی بیگم نصرت بھٹو کی تصویر غیر ملکی میڈیا پر آئی۔ بے نظیر بھٹو ان کے پیچھے وہیل چیئر تھامے کھڑی تھیں۔ یہ تصویر جاری کرانے کا مقصد غالباً یہ باور کرانا تھا کہ بیگم نصرت بھٹو زندہ سلامت ہیں اور بیٹی کے محفوظ ہاتھوں میں ہیں مگر یہ تصویر جاری ہونے کے دو ماہ بعد ہی 23 اکتوبر 2011ءکو دبئی میں ان کے انتقال کی خبر آ گئی۔ مجھے قطعاً معلوم نہیں کہ اس پورے عرصے کے دوران بیگم نصرت بھٹو کے نواسے بلاول اور نواسیوں بختاور اور آصفہ نے بیگم نصرت بھٹو سے ملاقات اور سیاسی تربیت حاصل کی ہو گی تاہم آج بیگم نصرت بھٹو کے حوالے سے پیپلز پارٹی کی صفوں میں نظر آنے والی بے حسی اور بے نیازی میں سے مجھے میرے استفسارات کا جواب بھی مل گیا ہے۔ بلاول قیادت خود کو بھٹو سیاست کا ورثہ گردانتی ہے مگر بلاول اور زرداری سیاست میں بھٹو سیاست کو پہلے بے نظیر بھٹو کی قبر میں ہی دفن کیا گیا اور پھر اس سیاست کی ہچکیاں بیگم نصرت بھٹو کی قبر کے حوالے کر دی گئیں۔ اب پیپلز ورکر پارٹی بھٹو سیاست کو بے نظیر بھٹو کی قبر سے نکالنے کی کوشش کر رہی ہے جب کہ اس کی ہچکیاں بدستور بیگم نصرت بھٹو کی قبر میں مدفون ہیں۔ باجی ناہید خان، ان کے شوہر صفدر عباسی اور ساجدہ میر کو یہ ہچکیاں کیوں سنائی نہیں دیں۔ اس کا وہی جواب دیں۔ بھلا میرا اس سے کیا لینا دینا ہے۔

ای پیپر دی نیشن