وطن پر ٹوٹتی قیامتوں میں قیام کرنے والا

آج ایک زندہ تر انسان شورش کاشمیری کی برسی ہے۔ زندہ انسان کبھی نہیں مرتے۔ زندہ تر انسان تو مرنے کے بعد اور بھی زندہ ہو جاتے ہیں۔ وہ جس کے لفظوں میں زندگیاں تڑپتی تھیں وہ کیسے مر سکتا ہے مگر امر ہونے کے لئے مرنا ضروری ہے ورنہ موت ان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑی رہتی ہے۔ کہتے ہیں موت بے دھیانے میں اچانک حملہ آور ہوتی ہے مگر معرکہ آرائی سے کارنامے کرنے والے اجازت دیتے ہیں تو موت اپنا کام کرتی ہے۔ وہ جس طرح بولتے تھے اسی طرح لکھتے تھے۔ ان کے قول و فعل میں تضاد نہ تھا۔ وہ تضاد اور مفاد کو ایک طرح سے محسوس کرتے تھے اور ایسے لوگوں سے عناد رکھتے تھے۔ انہوں نے عناد کو بھی پازیٹو بنا دیا تھا۔ کسی نیگٹو معاملے پر پازٹیو انداز میں تنقید کی جائے تو اس میں زیادہ جاہ و جلال اور شان و شکوہ پیدا ہو جاتا ہے۔
مجھے آغا مشہود شورش نے بتایا کہ وہ ہر صبح کو صبح سویرے اٹھتے۔ ان کے لئے ہر صبح نئی صبح کی طرح طلوع ہوتی اور غروب آفتاب تک ایک زوال آمادگی ایک گہری افسردگی کی طرح ہر طرف طاری ہو جاتی تھی۔ مگر شورش کے وجود میں جذبوں کے کئی لشکر وجد کرتے تھے۔ ایسی ولولہ انگیزی ان کے پاس تھی جو نئے سرے سے زندہ رہنے کی امنگ بیدار کر دیتی تھی۔
وہ ہر صبح سب سے پہلے نوائے وقت کا مطالعہ کرتے اور تمتماتے چہرے کے ساتھ ہر روز مجید نظامی کے ساتھ فون پر کچھ دیر بات کرتے اور مزید تازہ دم ہو جاتے اور دن کا آغاز اس طرح کرتے کہ وہ آغاز کا ہر راز جانتے تھے۔ صدر ایوب کے آمرانہ جبر کے سائے تلے سڑتے جلتے معاشرے میں ٹھنڈی حرارت والے دو ستارے جگمگاتے تھے۔ ”نوائے وقت“ اور ”چٹان“۔
مجید نظامی بھی ہر دوسرے تیسرے دن تشریف لے آتے اور ہمارے گھر میں سبز چائے پیتے۔ شورش حمید نظامی اور مجید نظامی سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ حمید نظامی کے ساتھ ان کی باقاعدہ مجلس رہتی تھی۔ جس شام حمید نظامی فوت ہوئے تو کچھ دیر قبل تک دونوں ایک ساتھ چہل قدمی کرتے رہے اور ملکی حالات کی سنگینی پر بات کرتے۔ وہ اس رات گھر واپس آئے ہی تھے کہ حمید نظامی کی وفات کی خبر آ گئی۔ اس سے پہلے انہوں نے لندن میں مجید نظامی کو فون کیا کہ واپس آ جاﺅ۔ شورش صاحب دل سے سمجھتے تھے کہ حمید نظامی کی امانت کو استقامت کے ساتھ کوئی لے کے چل سکتا ہے تو وہ ان کا بھائی مجید نظامی ہے۔ حمید نظامی بستر علالت پر تھے۔ انہوں نے اپنے بھائی کو دیکھا تو اتنا کہا۔ مجید تم آ گئے ہو۔ ان کے یہ الفاظ ہی اس اطمینان کی گواہی ہیں کہ مجید نظامی ہی آمریت کے اندھیروں میں میرے چراغ کو بجھنے نہ دیں گے اور مجید نظامی نے اس چراغ کی لو کو اور اونچا رکھا۔ اس چراغ سے کئی چراغ جل اٹھے۔ اب ان کی وفات کے بعد بھی یہ چراغ پوری آب و تاب کے ساتھ جل رہا ہے۔
صدر جنرل ایوب نے یہ فرمان جاری کیا تھا کہ کوئی بھٹو کی حمایت نہ کرے نہ کوئی ان کے لئے جلسے جلوس کا اہتمام کرے مگر شورش کاشمیری اور مجید نظامی نے مل کر وائی ایم سی اے ہال میں جلسے کا اہتمام کیا۔ ایک بڑے ہال میں لوگ شہد کی مکھیوں کی طرح بپھرے ہوئے تھے۔ ان کے بپھرے ہوئے جذبات سے لگتا تھا کہ وہ ابھی کسی پر حملہ کر دیں گے۔ شورش اور نظامی صاحب سٹیج پر موجود تھے۔ خوش قسمتی سے میں بھی اس یادگار اور شاندار محفل میں موجود تھا۔ میں تب گورنمنٹ کالج لاہور میں بی اے کا طالب علم تھا۔ ہائی کورٹ کے دروازے لے کر ناصر باغ کے درختوں تک لوگوں کا ایک ہجوم عاشقاں تھا جو گھنے بادلوں کی طرح گرج رہا تھا۔
جب شورش کاشمیری فوت ہوئے تو انہوں نے وصیت کی کہ میری قبر پر کوئی حکمران آ کر فاتحہ خوانی نہ کرے۔ یہ بھی ان کی شخصیت کا جلال اور کمال تھا کہ انہوں نے زندگی اور موت کے فرق کو مٹا دیا۔ ایک فاتح قلوب انسان کی قبر پر مفتوح ارادوں والے آدمی کی حاضری بھی انہیں قبول نہ تھی۔ وزیراعظم ذوالفقار بھٹو گھر آئے اور آپ کی بڑی بیٹی صوفیہ شورش سے اجازت طلب کی تو اس نے کہا کہ ابا مرحوم نے حکمرانوں کے لئے قبرپر آنے سے منع کیا تھا۔ تو بھٹو صاحب بولے شورش میرا محسن تھا۔ اس نے اپنی دلیری اور دلبری کی دھاک دلوں پر بٹھا دی تھی۔ میں ان کے ایک ادنیٰ دوست کے طور پر حاضر ہونا چاہتا ہوں۔ بیٹی نے بادل نخواستہ اجازت دے دی۔
بھارت کے ساتھ 65ءکی جنگ ستمبر کے بعد بھارتی مفتوحہ علاقے کھیم کرن میں صرف دو غیرفوجی آدمیوں کو فوجی افسران اپنے ساتھ اس اعزاز کے لئے ساتھ لے گئے کہ انہیں عظیم اور بہادر اور سچے پاکستانیوں کی رفاقت نصیب ہو۔ بھارتی ٹینک پر فوجی افسران کے ساتھ شورش اور نظامی صاحب کی تصویریں نوائے وقت میں شائع ہو چکی ہیں۔ شورش کاشمیری نے 65ءکی جنگ ستمبر کے لئے سب سے زیادہ ولولہ انگیز ترانے لکھے مگر اس کے ساتھ حکومت نے شورش کو ہی زیادہ تنگ کیا۔ جیل میں بھی ڈال دیا۔
میں تو کیا میرا سارا و منال
میرا گھر بار میرے اہل و عیال
میرا سب کچھ مرے وطن کا ہے
اور ان کے یہ اشعار بھی سنیں جن کے لفظ لفظ میں وطن کی محبت پھوٹ رہی ہے:
اس قدر کر جاﺅں گا ماﺅں کی محبت کو بلند
دل کے ٹکڑوں کو شہادت کی دعا دینا پڑے
سرزمین پاک سے ایسے اٹھاﺅں گا شہید
جن کے مدفن کو زمین کربلا دینا پڑے
وہ اتنے بے مثال ادیب اور خطیب تھے کہ ان کے لئے صرف عجیب و غریب کی مثال پیش کرنا پڑتی ہے۔ میرے خیال میں مختلف ہونا ساری خوبیوں پر بھاری ہے۔ تحریر و تقریر کی قیامتوں کے درمیان قیام کو منزلوں جیسی بے قراری اور سرشاری دینے والا ایسا کردار تھا کہ اس جیسا ان میدانوں میں کوئی بھی نہیں ہے۔ میرے جیسا آدمی ان کے لئے کیا کہے۔ ایک نامور ممتاز بھارتی ادیب او استاد رشید احمد صدیقی کی بات ملاحظہ کریں۔ وہ پاکستان میں بھی اردو ادب کی تاریخ اور نصاب میں محترم سمجھے جاتے ہیں۔
”ہم اہل زبان ہیں۔ اردو ہماری زبان ہے لیکن اردو زبان پر دو پنجابیوں نے حکومت کی.... علامہ اقبال اور شورش کاشمیری۔“

ای پیپر دی نیشن