عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ دین کی اساس اور بنیاد ہے‘ لہٰذا عقیدہ ختم نبوت ہے تو ہمارا دین محفوظ ہے ، عقیدہ ختم نبوت ہے تو قرآن محفوظ ہے، عقیدہ ختم نبوت ہے تو دین کی تعلیمات محفوظ ہیں اگر یہ عقیدہ باقی نہیں رہتا تو پھر نہ دین باقی رہے گا ، نہ اس کی تعلیمات اور نہ قرآن باقی رہے گا کیونکہ بعد میں آنے والے ہر نبی کو دین میں تبدیلی، تنسیخ کا حق ہوگا۔ اس لیے اس عقیدہ پر پورے دین کی عمارت قائم ہے، اسی میں امت کی وحدت کا راز مضمر ہے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری دور میں سب سے پہلے جھوٹے مدعیان نبوت کا خاتمہ کرکے امت کے سامنے اس کام کا عملی نمونہ پیش کیا۔انیسویں صدی کے آخر میںبے شمار فتنوں کے ساتھ ایک بہت بڑا فتنہ مرزا غلام احمد قادیانی کی شکل میں ظاہرہوا۔ جس کی تمام وفاداریاں انگریزی طاغوت کے لیے وقف ہوگئیں، مرزا غلام احمد قادیانی کے کفریہ عقائد و نظریات اور ملحدانہ خیالات سامنے آئے تو علماء کرام نے اس کا تعاقب کیا اور اس کے مقابلہ مین میدان عمل میں نکلے‘ بلکہ خدا کی قدرت دیکھئے کہ اس فتنہ کی پیدائش سے قبل ہی دارالعلوم دیوبند کے مورث اعلیٰ سیّد الطائفہ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی پر اللہ تعالیٰ نے منکشف فرمادیا تھا کہ ہندوستان میں ایک فتنہ برپا ہونے والا ہے۔ چنانچہ مکہ مکرمہ میں ایک دن انہوں نے پیر مہر علی شاہ گولڑویؒ سے فرمایا: ’’ہندوستان میں عنقریب ایک فتنہ نمودار ہوگا‘ تم ضرور اپنے وطن واپس چلے جائو‘ اگر بالفرض تم ہندوستان میں خاموش بھی بیٹھے رہے تو وہ فتنہ ترقی نہ کرسکے گا اور ملک میں سکون ہوگا‘ پیر مہر علی گولڑویؒ فرماتے ہیں کہ :’’میرے نزدیک حاجی صاحبؒ کی فتنہ سے مراد فتنہ قادیانیت تھی۔‘‘حضرت علامہ سیّد انور شاہ کشمیریؒ گویا کہ اس فتنہ قادیانیت کے خاتمہ کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور تھے‘ اس فتنہ کے لئے وہ ہمیشہ بے چین و بے قرار رہتے‘ ایک اضطراب اور دل میں درد تھا جو انہیں چین نہ لینے دیتا فرمایا کرتے تھے کہ : ’’یہ فتنہ کھڑا ہوا تو چھ ماہ تک مجھے نیند نہیں آئی‘ اور یہ خطرہ لاحق ہوگیا کہ کہیں یہ فتنہ دین محمدی کے زوال کا باعث نہ بن جائے‘ مگر چھ ماہ کے بعد دل مطمئن ہوگیا کہ دین محمدی باقی رہے گا اور یہ فتنہ خود ختم ہوجائے گا۔‘‘ امام العصرحضرت مولانا انور شاہ کاشمیری ؒ نے خود بھی اس موضوع پر گرانقدر کتابین تصنیف کیں بعد میں اپنے شاگردوں کو بھی اس کام میں لگایا‘ جن میں مولانا بدر عالم میرٹھی ؒ ‘ مولانا مرتضیٰ حسن چاند پوری ؒ‘ مولانا مناظر احسن گیلانی ؒ‘ مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ ‘ مولانا محمد علی جالندھریؒ‘ مولانا محمد یوسف بنوریؒ‘ مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ‘ مولانا محمد منظور نعمانی ؒ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ جدید طبقہ تک اپنی آواز پہنچانے کے لئے مولانا ظفر علی خانؒ اور علامہ محمد اقبالؒ کو تیار و آمادہ کیا۔حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ نے اس کام کو باقاعدہ منظم کرنے کے لئے امیر شریعت حضرت مولانا سیّد عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کو امیر شریعت مقرر کیا اور انجمن خدام الدین کے ایک عظیم الشان جلسہ میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کی‘ اس اجلاس میں پانچ سو جید اور ممتاز علماء و صلحا موجود تھے‘ ان سب نے حضرت سیّد عطاء اللہ شاہ بخاری کے ہاتھ پر بیعت کی۔ حضرت امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری ، قادیانیوں کے عزائم سے باخبر تھے اس لئے 1949ء میں ملتان میںایک غیر سیاسی تبلیغی تنظیم ’’مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘ کی بنیاد رکھی۔ یوں تمام مکاتب فکر کے رہنماء ایک اسٹیج پر جمع ہوگئے اور مجلس عمل تحفظ ختم نبوت وجود میں آئی، اس کی راہنمائی میں 1953ء میں تحریک ختم نبوت چلی۔حضرت مولانا سیّد عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کو مجلس تحفظ ختم نبوت کا پہلا امیر منتخب کیا گیا۔ 12اگست1961ء کو حضرت امیر شریعتؒ کا وصال ہوا ‘ آپؒ کے وصال کے بعد حضرت قاضی احسان احمدؒ شجاع آبادی امیر دوم‘ مولانا محمد علی جالندھریؒ امیر سوم‘ مولانا لال حسین اختر ؒ امیر چہارم منتخب ہوئے۔مولانا لال حسین اختر کی وفات کے بعد مولانا محمد حیات کو عارضی طور پر یہ منصب تفویض ہوا‘ اس کے بعد 9اپریل1974ء کو محدث العصر علامہ سیّد محمد یوسف بنوریؒ کو مجلس تحفظ ختم نبوت کی مسند امارت پر بٹھایا گیا۔ آپ کے دور امارت ۴۷۹۱ء کی عظیم الشان تحریک ختم نبوت چلی جس کے نتیجہ میں قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر آئین میں ترمیم کرکے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا۔اکتوبر 1977ء میں حضرت علامہ سیّدمحمد یوسف بنوریؒ کا وصال ہوا اور قطب الاقطاب شیخ المشائخ‘ خواجہ خواجگان حضرت مولانا خواجہ خان محمد سجادہ نشین خانقاہ سراجیہ نے قیادت سنبھالی‘ 1984ئ میں آپ نے ایک بار پھر تحریک کو منظم کیا ‘ جس کے نتیجہ میں امتناع قادیانیت آرڈی نینس منظور ہوا‘ اس دوران حصرت مولانا مفتی احمد الرحمنؒ‘ حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ‘ حضرت سیّد نفیس شاہ الحسینی صاحبؒ نے نائب امیر ہونے کی حیثیت سے حضرت شیخ المشائخ کی معاونت کی۔
اسی سلسلہ میں عالمی مجلس تحفظ ختمِ نبوت کے زیرِ اہتمام 23-24 اکتوبر 2012ء بروز جمعرات، جمعۃ المبارک کو مسلم کالونی چناب نگر ضلع چنیوٹ میں33 ویں سالانہ عظیم الشان ختم نبوت کانفرنس منعقد ہورہی ہے ۔ کانفرنس سے تمام مسلم مکاتبِ فکر دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث کے قائدین، علماء ومشائخ خطاب کریں گے۔ یہ کانفرنس عظمتِ رسول اکرمؐ کا ایک مظہر اور اتحادِ امت کا ایک بڑا پلیٹ فارم ہے۔ اس لئے تمام مسلمان اس ختم نبوۃ کانفرنس میں بھرپور انداز میں شرکت کریں۔
عقیدہ ختم نبوۃ کا تحفظ دین کی بنیاد ہے
Oct 24, 2014