محکمہ انرجی پنجاب نے ملکی کوئلے کوچھوڑ کر ملائشیا، جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا کے کوئلے پر انحصار کرنا شروع کر دیا

لاہور (ندیم بسرا) ملک میں جاری بجلی بحران ختم کرنے کے لئے کوئلے کے ذخائرکلیدی کردار کے حامل ہو سکتے ہیں مگر وفاق ، صوبائی حکومتوں اور توانائی کے محکموں کی ترجیحات اورغلامانہ ذہن سے ملک میں موجود 185بلین ٹن کوئلے کے ذخائر کی اہمیت مٹی کے برابر ہو کر رہ گئی۔ محکمہ انرجی پنجاب نے ملکی کوئلے کوچھوڑ کر ملائشیا، جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا کے کوئلے پر انحصار کرنا شروع کر دیا۔ غیر ملکی کوئلے سے پنجاب میں تقریبا 9 ہزار میگاواٹ کے پراجیکٹ پر کام شروع کر دیا گیا۔ پراجیکٹ مکمل ہونے سے صارفین کو ایک بار پھر فی یونٹ کی قیمت17سے 19 روپے ادا کرنے ہونگے ۔ محکمہ انرجی پنجاب کی کارکردگی انتہائی مایوس کن ہے۔ پی پی ڈی بی (PPDB) اور پی پی ڈی سی ایل(PPDCL) میں آئل انجئنیرز کی تعداد انتہائی کم ہے ۔ اگر حکومت پاکستان یا حکومت پنجاب ملکی کوئلے سے بجلی کے مختلف پیداواری صلاحیت کے پراجیکٹ لگانا شروع کر دیں تو 52 ہزار میگاواٹ بجلی آئندہ 30 برسوں کے لئے اسی کوئلے سے پیدا کی جا سکتی ہے ۔ 13 سو میگاواٹ کے40پراجیکٹ لگائے جاسکتے ہیں اور اس کو دیگر ملکوں میں ایکسپورٹ بھی کیا جاسکتا ہے اور پاکستانی کوئلے سے بجلی فی یونٹ 4 سے6 روپے میں دستیاب ہوگی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستانی کوئلے میں 45 فیصد پانی ہے۔ مگر اس کول واٹر فلری کے پراجیکٹ کے ذریئے جلا کر مکمل قابل استعمال بنایا جا سکتا ہے مگر حکومت میں موجود اور محکمہ توانائی کے متعدد شعبوں کے سربراہ سیاسی ہونے سے اصل صور تحال سامنے آنے نہیں دے رہے۔ 13 سو میگاواٹ کے 6 پراجیکٹ جن کی صلاحیت 78سو میگاواٹ ہے بھکی (شیخوپورہ)، بلو کی ،جھنگ، ساہیوال ،مظفرگڑھ اور رحیم یار خان میں شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ اس کے ساتھ 110 میگاواٹ کے11 پراجیکٹ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے یہ پراجیکٹ گوجرانوالہ ،سرائے عالمگےر (گجرات)، سمبڑیال (سیالکوٹ)، جلوموڑ (لاہور)، راجہ جھنگ (رائے ونڈ)، بھکی (شہخوپورہ)، چک جھمرہ (فیصل آ باد)، ملتان، وہاڑی ،خیر پور ٹامے والی بہاول پور اور بھلوال شامل ہیں۔ پنجاب واحد صوبہ ہے جس کے پاس پانی اور کوئلے سے بجلی بنانے کی صلاحیت نہیں۔
کوئلے کے ذخائر نظر انداز

ای پیپر دی نیشن