قربانی اور وسیلہ

Oct 24, 2015

آغا باقر

سردیوں کی ایک ٹھٹھرتی شام میں پینٹ کوٹ میں ملبوس ایک تعلیم یافتہ شخص جِسے ہم بابو فقیر کہہ سکتے ہیںنے ایک انتہائی لاغر اور بیمار کُتے کو خالی پلاٹ کے ایک کونے میں بے بسی اور کسمپرسی کی حالت میں پڑے دیکھا- بظاہر اسکی سانسیں رواں تھیں، لیکن اِتنی بھی قدرت نہ رکھتا تھا کہ سامنے پھینکے گئے روٹی کے ٹکڑوں کو اٹھاکر پیٹ بھر لے اور اپنے جسم کو اتنی توانائی باہم پہنچا لے کہ چلنے پھرنے کے قابل ہوجائے- بابو فقیر نے اُسکی حالت کو بھانپتے ہوئے تھوڑی دیر کیلئے سوچا اور پھر آگے بڑھا اور لاغر کتے کے منہ میں چند روٹی کے نوالے اپنے دستِ شفقت سے ڈالے - پاس سے نیم گرم دودھ کا اہتمام کیا اور بے زبان خلقِ خدا کی تواضع کی- اُسکی کمر پر کپڑا ڈالا اور تھوڑی دُور جاکر کھڑا ہوگیا- بے زبان مخلوقِ خدا نے پہلے اپنے محسن کیطرف نہایت مشکور نظروں سے دیکھا اور پھر آسمان کیطرف دیکھتے ہوئے اپنے بازئوں پر منہ رکھتے ہوئے ایک نہایت سکون کی حالت میں محو ہوگیا-اُدھر بابو فقیر کو اپنی اس کاوش پر اتنی دلی مسرت ہوئی کہ اسنے آسمان کیطرف چہرہ اٹھا کر مالک کا شکر ادا کیا کہ اسنے اسے ایک ایسی بے زبان لاغر مخلوق کیلئے وسیلہ بنایا جسکی دعا اور اللہ کے درمیان کوئی رکاوٹ موجود نہ تھی- بابوفقیر کو محسوس ہوگیا کہ اُسکی ادنٰی سی کاوش بارگاہِ الہٰی میں مقبول ہوگئی ہے - جسے ایک طرف معرفت الہٰی حاصل ہوئی ہے تو دوسری طرف اُسکی قربانی خالق کی مخلوق کیلئے رحمت بن کر سامنے آئی ہے- ہم عام بول چال میں کہتے ہیں کہ فلاں شخص میرے لئے خالق کیطرف سے فرشتہ بن کر سامنے آیا- اُسنے میری مشکل آسان کردی ورنہ قریب تھا کہ میری کمر ٹوٹ جاتی- ایسا معالج مہیا کر دیا جس نے مسیحا کا روپ اختیار کرکے نئی زندگی بخش دی- یوں وسیلے خالق کے روپ کے عکس کے طور پر کائنات میں خلق خدا کی خدمت کرتے نظر آئے-یونہی گوکہ قربانی کسی فردِ واحد یا چند افراد کیساتھ ایک انفرادی حیثیت اختیار کئے نظر آتی ہے لیکن درحقیقت گہرائی میں دیکھا جائے تو یہ فلسفہ پھر خدمتِ خلق کیساتھ جڑا نظر آتا ہے- جو ایک طرف معرفت الہٰی کے حصول کا ذریعہ بنتا نظر آتا ہے تو دوسری طرف معاشرے میں امن و آتشی، حق کی فتح اور بنی نوع انسان کیلئے ایک بے مثال نظیر کی صورت میں سامنے آتا ہے جس پر گامزن ہوکر انسان ایک باوقار مقام حاصل کرسکتا ہے- بارگاہِ الہٰی نے حضرت یعقوب ؑسے حضرت یوسفؑ کی قربانی لیکر ایک اندھے کنویں کے ذریعے حضرت یوسفؑ کو معرفت اور ولایت عطا کی جو والئی مصر بن کر خلقِ خدا کی خدمت پر مامور ہوئے۔ فلسفہ قربانی کو انسانی معراج اور اپنی معرفت وپہچان کا ذریعہ جاوداں بنادیااور خلقِ خدا کیلئے روحانی، معاشی اور معاشرتی فیض کے چشمے کھول دیئے- آقائے نامدار محمد مصطفٰےؐ کی قربانیوں کے ذریعے بنی نوع انسان کو باکمال فلاح، شفاء و کامیابیوں سے ہمکنار کیا- یوں خالق اور مخلوق کے درمیان وسیلہ ایک حقیقت نظر آتا ہے- بارگاہِ ایزدی سے پُرجوش آواز آتی ہے- "وماینطق عن الھویٰ" تیرا نبی اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتا ہے وہ جو کہتا ہے وہ اللہ کی وحی ہوتی ہے"- نبیؐنے اپنے تمام رفقاء خلفائے راشدین اور صحابہ کو جو خراجِ تحسین پیش کیا وہ اللہ کی رضا سے تھا- حضرت علیؓشیرِ خدا کیلئے فرمایا "میں علم کا شہر ہوں اور علیؓ اُسکا دروازہ ہیں-"گویا علم اور معرفت محمدؐ آلِ محمدؐ کا طرئہ امتیاز بنے- اور اہل بیت بدولتِ علم مقرب ٹھرے اور خلقِ خدا کیلئے سرچشمئہ فیض بنے- شیرِ خدا راہ حق میں ظلم کا نشانہ بنے اور قربانی کے سبب معصوم ٹھہرے - چشم ِ فلک نے کئی انسانی قربانیاں اور حادثات دیکھے لیکن سانحہ کربلا حقیقتاایک ایسی عظیم ترین قربانی ہے جسکی نظیر انسانی تاریخ میں شاید ہی ملتی ہو- امام عالی مقام حضرت حسینؓ نے ظلم کیخلاف کلمہ حق بلند کرتے ہوئے اپنا سب کچھ قربانی کر دیا - اپنا آرام و سکون ، تخت و تاج ، خاندان معصومین علی اکبر، علی اصغر ، قاسم و علمدار عباس اور بالآخر اپنا سر سب کی قربانی بہ رضائے الہٰی بارگاہ الہٰی میں پیش کر دیئے لیکن خدا وند عادل نے بھی نہ صرف حسینؓ امام عالی مقام کی عظیم ترین قربانی کو تا قیامت زندہ کر دیا بلکہ وسیلہ رحمت بنا کر ہر خاص و عام کیلئے مشعل راہ بنا دیا- اور انسانیت کیلئے روحانی، معاشی و معاشرتی معراج کا زینہ بنا دیا- یزیدیت کے منفی ترین اور حُسینیت کے مثبت ترین تصور کو جنم دیا اور حُسینیت کو حیاتِ ابدی عطا کی-دیگر تمام اقسام کی نسبت شہادت کی قربانی پسند ترین ہے جسکا اصل ممنبہ نفس ہے جہاں لمحہ لمحہ حق و باطل و باالفاظِ دیگر حُسینیت اور یزیدیت کے مابین تصادم جاری ہے کوئی بھی قربانی اُس وقت قبول ہو جاتی ہے جب نفسِ باطل کیخلاف بڑے سے بڑے نقصان پر لڑنے کیلئے اصولی فیصلہ کر لیتا ہے- پاکستانی ستم زدہ معاشرے میں آج عظیم ترین قربانی دیکر مسالک اور ادیان کے احترام اور اسپر حملہ سے مکمل اجتناب کا مظاہرہ کرنے میں مضمرہے- ـ موجودہ حالات میں انتظامیہ کی جانب سے تمام مسالک کے کئی شرپسند اور بے علم نام نہاد مفکرین کو معاشرے سے علیحدہ کئے جانے کے اقدام کو تمام مکاتبہ فکر نے خوب سراہا ہے-
خداوند کے پیدا کردہ اِس وسیلئہ قربانی سے مستفید ہونے کیلئے شرطِ اول یہ ہے کہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں بیرونی یزید کو تہس نہس کرنے سے پہلے اپنے اندر کے یزید کا قلع قمع کیا جائے-

مزیدخبریں