سارک ممالک کے مابین سرمایہ کاری اور صنعت و حرفت ہر ملک کی معیشت کے حجم کے مطابق مختلف ہے مثلاً سری لنکا میں تجارت پر انحصار ہے جہاں اسکی مجموعی اور قومی پیداوار میں تجارت کا حصہ ستر فیصد ہے جبکہ انڈیا میں مجموعی پیداوار میں تجارت کا حصہ صرف بیس فیصد ہے۔ پاکستان میں نسبتاً آزاد معیشت ہے سارک کے بیشتر ممالک میں ادائیگیوں کا عدم توازن ہے جو اکثر و بیشتر ترقی یافتہ ممالک کی امداد سے پورا کیا جاتا ہے چونکہ اس قسم کی امداد کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں اس لیے ترقی یافتہ ممالک کی طرف سے تجارت کو اس خطے میں منتقل کرنا کافی مشکل ہے لہٰذا اس خطے میں سرمایہ کاری اور صنعت و حرفت کی منصوبہ بندی کرنے کیلئے ان رکاوٹوں کو مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔یہاں پر مقامی، معاشی پالیسیاں اکثر درست بھی ہیں عوامی اداروں کی مداخلت کم سے کم ہے اور مشرقی ایشیاء میں خصوصاً صحت اور تعلیم و تربیت پر بھی خاصی توجہ دی جاتی ہے لیکن جس چیز کی یہاں ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ جنوبی ایشیاء کے اندر اشیاء سروسز اور عوام کی روانی میں جو رکاوٹیں ہیں انہیں جلد سے جلد دور کیا جائے جو کہ سارک اورSAPTA کا بنیادی مقصد بھی ہے۔ امرتا سین نے اس امر کو Social Safety Net یعنی سماجی حفاظتی حدود قرار دیا ہے جبکہ انڈیا کے وزیر اعظم نے اسے ’’قومی ترجیحات‘‘ کا نام دیا ہے تاہم غیر ملکی سرمایہ کاری سے جو کہ مقامی سرمایہ کاروں کے ساتھ مل کر کی جائے، مطلوبہ نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں مثلاً ہر ملک کیلئے پیداوار کی کھپت کیلئے مارکیٹیں وسیع ہوں تاکہ علاقائی ترقی تیز رفتار ہو۔ سارک اور سیپٹا کے مقاصد کو اسی وقت تقویت مل سکتی ہے جب دو ممالک باہمی دلچسپی کے امور پر گفت و شنید کریں اور حل نکالیں تاکہ مقامی مارکیٹ میں توسیع ہو۔
سیاسی مزاحمتیں: بین الاقوامی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کیلئے ایک وسیع ترپالیسی جس میں سماجی سہولیات کے ساتھ ساتھ مالی امداد کی جا سکے، تیار کر لی گئی ہے۔ اب ضرورت ہے کہ ملک میں انفرادی ترقی اور سروسز میں بہتری کی رفتار تیز کی جائے سارک ممالک میں حالیہ سالوں میں ایک وسیع پالیسی تشکیل دی گئی ہے ہر ملک نے اپنی قومی ترجیحات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی اپنی اصلاحات کی ہیں۔ ان تمام اقدامات کا نتیجہ صرف اسی وقت بہتر ہو سکتا ہے جب انکی اپنی قومی مارکیٹ وسیع ہو۔ یہ صرف اسی وقت ممکن ہے کہ تمام سیاسی، سماجی اور تجارتی رکاوٹیں دور کر دی جائیں۔ ان حالات میں جنوب ایشیائی ممالک کے پرائیویٹ سیکٹر پر زیادہ ذمہ داری آتی ہے کہ وہ اپنی اپنی حکومتوں کو علاقائی تعاون کے فوائد سے آگاہ کریں جسکے نتیجے میں کاروباری مواقع بڑھیں گے بلکہ مقامی مارکیٹ بھی وسیع ہو گی۔ کچھ ممالک میں گو کہ تجارتی آزادی ہے لیکن وہاں پر بھی درآمدات پر پابندیاں ہیں چونکہ ان ممالک میں پابندیاں ایک جیسی ہیں اس لیے جنوبی ایشیا میں تجارت کا فروغ مشکل ہے۔ اس خطے کی تجارت اسکی برآمدات کا 3.1 فیصد اور درآمدات کا 1.7 فیصد ہے اور یہ علاقائی تجارت عرصے سے تنزلی کا شکار بھی ہے۔
عالمی مربوطگی: دوسری طرف W.T.O کا مقصد عالمی تجارت کو مضبوط کرنا، عالمی معیشت میں ربط پیدا کرنا اور ’’یورو گری رائونڈ‘ ‘معاہدے پر عملدرآمد کرنا ہے۔ اس خطے میں کسی سرمایہ کاری سے گریز بھی اسکے مقاصد میں شامل ہے خواہ اس میں ہائی ٹیک انڈسٹری ہی کیوں نہ شامل ہو۔ W.T.O کے اغراض و مقاصد میں یہ بھی دیکھنا شامل ہے کہ تمام ممالک، خواہ وہ غریب ہوں یا امیر، ان کو یکساں درجہ دیا جائے۔ یہ تنظیم بشمول دیگر امور کے عالمی تجارت کو آزاد کرنے کیلئے کوشش کر رہی ہے۔ ان کوششوں میں درآمدی ڈیوٹی میں کمی، برآمدات کیلئے Subsidy کا خاتمہ اور کوٹے کا خاتمہ شامل ہیںجبکہ ان تمام کوششوں سے، مشرق ہو یا مغرب، ترقی پذیر ممالک کو نقصان ہی پہنچا ہے۔ ڈبلیو ٹی او کے تحت، تجارتی معاہدوں کیلئے ایسی پابندیاں شامل ہیں جن سے ترقی یافتہ ممالک میں اشیائ، سروسز، سرمایہ، ٹیکنالوجی اور افرادی قوت کیلئے راہ ہموار کی جائے اور ان کے کاروبار کو نقصان بھی نہ پہنچے۔ڈبلیو ٹی او کی وجہ سے مزید پابندیاں جو عائد ہو رہی ہیں ان میں ایک مثال ترقی یافتہ ممالک کا کوٹہ سسٹم ہے اس کیمطابق ٹیکسٹائل کی مصنوعات برآمد کرنیوالے ترقی پذیر ممالک کا کوٹہ ختم کر دیا جائے اور دوسری جانب صنعتی ممالک اپنی اشیاء ان ترقی پذیر ممالک میں بلا روک ٹوک برآمد کریں۔ پس ترقی پذیر ممالک کو امریکہ سے گارمنٹس کی درآمد پر سے پابندیوں میں نرمی کرنا ہو گی۔ نتیجتاً ترقی پذیر ممالک اور خاص طور پر جنوب ایشیا کے ممالک کی ٹیکسٹائل کی صنعت تباہ ہو جائیگی۔ ایسی صورت میں صرف صنعتی ممالک اور انکے کثیر الاقوامی اداروں یعنی ملٹی نیشنل کارپوریشن کو ہی فائدہ ہو گا۔ کوٹے کی پالیسی گو کہ مرحلہ وار 2005ء تک مکمل طور پر ختم ہو جائیگی پھر بھی ترقی یافتہ ممالک ترقی پذیر ممالک پر زور دے رہے ہیں کہ آخر الذکر اپنے ٹیرف میں تبدیلیاں کریں چونکہ ترقی پذیر ممالک انفرادی طور پر اس قسم کی پالیسی کا دبائو برداشت نہیں کر سکتے اس لیے یہی ان کیلئے بہتر ہو گا کہ وہ آپس میں سرمایہ کاری اور صنعت و حرفت کو فروغ دیں۔ لہٰذا اس خطے کے ممالک کیلئے ضروری ہے کہ وہ ’’قومی ترجیحات‘‘ اور ’’سیفٹی نیٹ‘‘ میں رہتے ہوئے از خود ایک دوسرے کی یکساں بھلائی کیلئے تجارت کریں نہ کہ کسی اور کے کہنے پر!
براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری: جنوبی ایشیا میں سرمایہ اور ٹیکنالوجی کی شدید کمی ہے جو براہ راست سرمایہ کاری سے پوری ہو سکتی ہے اس سرمایہ کاری سے نہ صرف روزگار کے مواقع میں اضافہ ہو گا بلکہ برآمدات کے ذریعے زر مبادلہ بھی کمایا جا سکے گا اور جدید ٹیکنالوجی بھی حاصل کی جا سکے گی۔ نتیجتاً پوری صنعت ترقی کریگی بیرونی سرمایہ کاری سے ممالک کے انفراسٹرکچر میں اضافہ ہو گا اور سپلائیرز اور تقسیم کنندگان کا دائرہ کار بھی وسیع ۔ اس خطے کے ہر ملک میں مختلف صنعتی یونٹ کار فرما ہیں ایک ملک کے پرائیویٹ سیکٹر کی پیداواری اشیاء کو دسرے ملک کی مارکیٹ تک رسائی ہونی چاہیے۔ ایسی صورت میں بہتر اشیاء دوسرے ممالک میں اپنی جگہ خود بنا لیں گی۔ یعنی جو ملک بہتر اور سستی اشیاء بنا سکیں گے وہی کامیاب رہیں گے اور ایک دوسرے ملک کی ویلیوڈیشن اور ٹیکنالوجی کے تبادلے میں اپنا کردار ادا کر سکیں گے جسکے نتیجے میں روزگار کے مواقع مزید ہونگے اور عام آدمی کو فائدہ پہنچے گا۔ لہٰذا اس خطے کے ممالک کو اپنی ترقی کیلئے اپنی اپنی صلاحیتوں کی نشاندہی کرنا چاہیے تاکہ ان ممالک کی حکومت پرائیویٹ سیکٹر کی مدد سے غیر ملکی سرمایہ کار کو راغب کرنے میں معاون ثابت ہو۔ مثلاً بنگلہ دیش میں پٹ سن، سری لنکا میں چائے، انڈیا میں دھات اور پاکستان میں فیول پاور، ٹیکسٹائل، سیمنٹ اور شوگر جیسے شعبوں میں بیرونی سرمایہ کاری کی جا سکتی ہے جس سے نہ صرف اس خطے کی ضروریات پوری ہوں گی بلکہ یہ ممالک اپنی مصنوعات دنیا بھی میں برآمد بھی کر سکیں گے۔ جن ممالک میں زیادہ پیداواری گنجائش موجود ہے وہاں پر بیرونی سرمایہ کاری اور تبادلہ ٹیکنالوجی کا زیادہ فائد ہو گا۔ کاروباری طبقے پر بھی ذمہ داری آتی ہے کہ ودہ اس خطے میں پیداوار بڑھانے کیلئے بھرپور تعاون کریں کچھ ممالک میں برآمدات کیلئے معقول سہولیات میسر نہیں باہمی تعاون سے انکی بھی مدد کی جا سکتی ہے۔
سارک کی مصنوعات دنیا بھر میں مارکیٹ کی جا سکتی ہیں۔ ان کی فروخت پر منافع میں ہر ملک کا حصہ اس کی اپنی ویلیوڈیشن کیمطابق ہو سکتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ویلیوڈیشن کرنیوالے ملک کو سہولت اور رغبت ہو۔ یعنی ایک ملک شے کی قیمت میں جتنا اضافہ کرے اتنا ہی اسے ٹیرف کی پابندیوں سے چھوٹ دے دی جائے۔ جسکے نتیجے میں وہ اشیاء جن میں علاقائی ویلیوڈیشن زیادہ ہو گی اسکی مقامی مارکیٹ میں رسائی آسان ہو گی۔ ایسا کرنے سے دنیا بھر میں کسی ایک ملک کی بجائے جنوبی ایشیا کی مصنوعات کو فروغ دیا جا سکے گا۔
ذرائع نقل و حمل و مواصلات: کسی بھی ملک کی پیداواری صلاحیتوں میں اضافے اور صنعت و حرفت اور سرمایہ کاری میں فروغ کیلئے ایک اچھے انفراسٹرکچر یعنی ذرائع نقل و حمل اور مواصلات کی ضرورت ہوتی ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر اچھے انفراسٹرکچر کے قیام میں بھی بھرپور کروار ادا کر سکتے ہیں۔ لہٰذا پرائیویٹ اداروں کو ہی یہ ذمہ داری سونپ دی جائے۔ وہ بڑے بڑے پراجیکٹس پر کام شروع کریں، تعمیر کریں اور پھر انہیں خود چلائیں یا کسی اور کو منتقل کر دیں۔اس خطے میں سرمایہ کاری کے فروغ کیلئے موثر وسائل کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر جبکہ ویت نام، کمبوڈیا، میانمار اور لائوس سرمایہ کاروں کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ ویت نام، ASEAN کا ممبر بن چکا ہے اور برما بھی مبصر کی حیثیت سے شامل ہے۔ کساد بازاری کی صورت میں ترقی پذیر ممالک کے صنعت کار اپنا دائرہ کار مغرب سے مشرق کی طرف منتقل کر دیتے ہیں۔ جنوبی ایشیا کے ممالک کو ایسے صنعت کاروں کی توجہ اپنی طرف مبذول کروانی چاہیے تاکہ اس خطے کی بھلائی ہو۔
اختتام: جیسا کہ شروع میں کہا گیا ہے، معاشیات کو عالی حیثیت دیئے جانے کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے بلکہ علاقائیت کا تاثر جنم لے رہا ہے۔ یورپی یونین اور نیفٹا کا کردار وسیع ہو رہا ہے ادھر APEC ، ASEANS ، بھی علاقائی تعاون میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ لیکن یہاں پر چند ممالک کے درمیان سیاسی اختلافات کی وجہ سے علاقائی ترقی محدود ہو گئی ہے لہٰذا ضروری ہے کہ متعلقہ ممالک، باہمی گفت و شنید اور خوش اسلوبی سے اپنے مسائل کو حل کریں تاکہ اس خطے میں سرمایہ کاری اور صنعت و حرفت میں ترقی ہو اور اس خطے کے باشندے، جو دنیا بھر میں آبادی کا 20 فیصد ہیں، غربت سے نکل کر خوشحالی کے دن دیکھ سکیں۔
مژدہ رسید کہ غم نخواہد ماند
چناں نماند چنینں ہم نہ خواہد ماند