پنجاب کے ممتاز صوفی شاعر حضرت سُلطان باہوؒ ( 1690-1629ئ) فرماتے ہیں کہ ....
” جے کر دِین، عِلم وِچّ ہوندا
تاں سرِ نیزے کیوں چڑھدے ہُو
اٹھاراں ہزار جے عالم آہا
اوہ اگّے حسینؓ دے مَردے ہُو
جے کُجھ ملاحظہ سَرور دا کردے
تاںخیمے تنبُو کیوں سڑدے ہُو
پَر صادق دِین، تِنہاں دے باہُو
جو سِر قربانی کردے ہُو“
یعنی .... ” دینِ اسلام ،اگر علم میںہوتا تو (مَیدان کربلا میں اہلِ بیتؓ کے ) سروں کو نیزوں پر کیوں چڑھایا جاتا ؟ (سانحہ¿ کربلا کے وقت یزیدی سلطنت کے اندر) دِین کے 18 ہزار عالم موجود تھے ( انہوں نے یزیدیت کے خلاف بغاوت کا عَلم بلند کیوں نہیں کِیا؟) اور انہوں نے حضرت امام حسینؓ پر اپنی جانیں کیوں نہ قُربان کردِیں؟۔ اگر وہ عُلما حق پرست ہوتے تو وہ آلِ رسول کے خیموں کوآگ کی نذر کیوں ہونے دیتے؟ اگر اُس وقت مسلمان کہلانے والے لوگ حضور کی تابعداری اور اطاعت کرنے والے ہوتے تو وہ اہلِ بیتؓ کا پانی کیوں بند کرتے؟ اے باہو! جو لوگ سچے لوگوں کے لئے سروں کی قربانی دے سکیں ،وہی دِین کی حفاظت کرنے والے اور سچے ہیں“۔
حضرت سُلطان باہُوؒ نے سانحہ¿ کربلا کو منفرد انداز میں بیان کِیا ہے۔ یزیدیت اپنی پوری طاقت، مال و دولت اور لا محدود وسائل کے ساتھ موجود تھی لیکن خوف اور لالچ میں گھرے ہُوئے عام مسلمانوں نے اپنے اپنے ایمان کاسودا کر لِیا تھا ، بلکہ اُس دَور میں عُلماءکہلانے والوں نے بھی اپنی اپنی زبانیں اور آنکھیں بند کرلی تھیں“۔ پیغمبر انقلاب“۔ نے فرمایا ہے کہ۔ ”عُلمائے اسلام بنی اسرائیل کے پیغمبروں سے افضل ہیں“۔ سوال یہ ہے کہ بنی اسرائیل کے پیغمبروں سے افضل اُس دَور کے علماءاُس وقت کہاں تھے؟۔ جب نواسہ¿ رسول اور پسر باب اُلعلمؓاور رسولِ کریم کا عَلم بلند کرنے والے 72 لوگوں کو شہید کِیا گیا؟حضرت امام حسینؓ تو خلافت کے دعویدار نہیں تھے ، لیکن اُنہوں نے یزید کی ملوکیت، جَورو جبر ، نجاست، خیانت، جہالت اور بربریت کو چیلنج کِیا تھا۔ آپؓ تو اپنے خاندان ،قبیلہ کے لوگوںاور عقیدت مندوں کو ساتھ لے کر احتجاج کے لئے نِکلے تھے، جِن میں زیادہ تر خواتین اور کم عمر اور شِیر خوار بچے تھے۔ جنہیں یزیدی لشکر نے شہید کردِیا۔ بِلا شبہ امام حسینؓ اور اُن کے 72 جانثاروں نے اپنی جانوں کی قربانی دے کر اسلام کو نئے سرے سے زندہ کردِیا۔ پھر دُنیا بھر میں سانحہ¿ کربلا اسلام کی ترویج و اشاعت کا باعث بن گیا۔ خواجہ مُعین الدّین چشتیؒ ہندوستان تشریف لائے تو آپ ؒنے ، اہلِ ہند سے امام حسینؓ کی عظمت اور شجاعت بیان کرتے ہُوئے فرمایا
” شاہ ہست حُسینؓ، پادشاہ ہست حُسینؓ
دِیں ہست حُسینؓ، دِیں پناہ ہست حُسینؓ
سَر داد ، ندا د د ست، دردستِ یزید
حقّا کہ بِنائے لا الہ ہست حُسینؓ “
یعنی۔ ہمارے اصل شاہ اور بادشاہ امام حُسینؓ ہیں۔ دِین اسلام اور دِین کی پناہ بھی وہی ہیں۔ ( اِس لئے کہ آپؓ نے دِین کی بقا کے لئے اپنا سر قلم کروالیا لیکن خلافت کے نام پر یزید کی ملوکیت اور خاندانی بادشاہت کو قبول نہیں کیا ۔ حقیقت تو یہی ہے کہ امام حسین ؓ کلمہ طیبہ ( اسلام) کی بنیاد ہیں۔“ حضرت خواجہ مُعین اُلدّین چشتی ؒکی دُعا و برکت سے غزنی کے بادشاہ شہاب الدین غوری نے تراوڑی ( کُرو کشیتر) کی دوسری لڑائی میں دِلّی کے آخری ہندو راجا پرتھوی راج چوہان کو 1193ءمیں شکست دے دی تھی، حالانکہ دو سال قبل یہی شہاب الدین غوری، پرتھوی راج چوہان سے شکست کھا کر غزنی واپس چلا گیا تھا۔دراصل اُس وقت اسے حضرت خواجہ مُعین اُلدّین چشتیؒ کی دُعا و برکت حاصل نہیں تھی۔
پرتھوی راج چوہان کے قتل کے بعد شہاب الدین غوری، بہت سا مال و دولت لے کر خواجہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہُوااور قبولیت کی درخواست کی لیکن آپؒ نے فرمایا کہ ۔ ” یہ مال و دولت بلالحاظ مذہب و مِلت، اجمیر کے غریبوں میں بانٹ دو۔“ غوری نے ایسا ہی کِیا۔ اِس پر خواجہ صاحب ” خواجہ غریب نواز “۔ کہلائے۔ دوسری بار غوری بہت سا مال و دولت لے کر پھر حاضر خدمت ہُوا تو خواجہ غریب نواز نے فرمایا کہ ۔ ” مال و دولت اچھی چیز نہیں ہے۔ اگر ہوتی بھی تو مَیں پھر بھی اسے قبول نہ کرتا“۔ غوری نے کہا۔ ” یا حضرت! کوئی اورحُکم؟؟ ۔آپؒ نے فرمایا کہ .... مقتول پرتھوی راج چوہان کے بیٹے گووِند راج چوہان کو اجمیر کا حاکم بنا دو!“ غوری نے پُوچھا کہ ۔ ” حضور!۔ یہ کِیوں؟کسی مسلمان کو کیوں نہیں؟“ تو حضرت خواجہ غریب نواز نے کہا کہ ” اِس لئے کہ مفتُوح قوم ( ہندوﺅں)کے دلوں میں فاتح قوم ( مسلمانوں ) کے لئے وفاداری کے جذبات پیدا ہو جائیںاور ممکن ہے اُن میں سے کچھ لوگ اسلام قبول کرلیں“۔شہاب الدین غوری نے ایسا ہی کِیا۔ یہ پہلی بار ہُوا کہ مسلمان سلطنت میں ایک ہندو کو ایک صوبے کا حکمران بنا دِیا گیا۔ اِس کے بعد اجمیر کے ہندو، خواجہ مُعین اُلدّین چشتیؒ اجمیری کی بہت عزت کرنے لگے اور خواجہ غریب نواز سُلطان الہند“ کہلائے۔
علامہ محمد اقبالؒ جنہوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے قائم کئے جانے والے الگ ملک کے قیام کا خواب دیکھا تھا وہاں ”میثاق مدینہ “کی بنیاد پر ” روحانی جمہوریت“ کی ترویج چاہتے تھے اور بانی پاکستان قائدِاعظم محمد علی جناحؒ نے بھی قیام پاکستان سے تین دِن پہلے 11 اگست 1947ءکو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہُوئے کہا تھا کہ۔ ” پاکستان مسلمانوں کا ملک ہوگا لیکن مسلمانوں کے اِس ملک میں تمام مذاہب کے لوگوں کو مساوی، مذہبی، سیاسی اور اقتصادی حقوق حاصل ہوں گے“۔ عجیب بات ہے کہ قیام پاکستان کے بعد جن مذہبی جماعتوں کے لیڈر عام مسلمانوں کو بار بار یہ یاد دلاتے رہتے ہیں کہ ۔ ” پاکستان اسلام کے نام پر بنایا گیا تھا “۔ اُن سب نے اور اُن کے اکابرین نے قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی۔ اور علاّمہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے خلاف کُفر کے فتوے دئیے تھے۔ علاّمہ اقبالؒ نے فرمایا تھا کہ ” دِین مُلاّ فی سبیل اللہ جہاد“اور قائدِاعظمؒ نے اپنا یہ قول بار بار دُہرایا تھا کہ۔ ” پاکستان میں جمہوریت ہوگی لیکن "Theocracy"( مولویوں کی حکومت ) نہیں ہوگی“ علامہ اقبالؒ جب وکالت کرتے تھے تو اپنی ضرورت کے مطابق مقدمات رکھ لیتے تھے اور باقی سارے مقدمات اپنے ساتھی وُکلاءاور شاگردوں کو دے دیتے تھے ۔ قائدِاعظم ؒنے اپنی ساری جائیداد کا ایک ٹرسٹ بنا کر اُسے قوم کے نام کردِیا تھا ۔ جو مذہبی قائدین سیاست میں ہیں اور جِن کا دعویٰ ہے کہ ....
” جُدا ہوویں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی“
وہ نوابوں اور جاگیر داروں کی سی زندگی بسر کرتے ہیں اور پاکستان میں ” جمہوریت“ کے نام پر ملوکیت اورخاندانی بادشاہت قائم کرنے والے سیاستدان بھی اُن سے پیچھے نہیں ہیں ۔ اُن کی اور اُن کے خاندان کی ناجائز کمائی بیرونی ملکوں میں جمع ہے ۔ یزید اور اُس کے بعد کے دَور میں ” خُلفائ“ اور اُن کے جانشینوں کو یہ سہولت حاصل نہیں تھی۔ ماشاءاللہ پاکستان میں ” فیڈرل شریعت کورٹ“ اور ” اسلامی نظریاتی“ کونسل بھی ہے۔ یہ دونوں ” شرعی ادارے“ ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر سکے کہ۔ ”اسلام کی رُو سے کسی مسلمان کے پاس زیادہ سے زیادہ دولت کتنی ہونا چاہئیے؟ اور جِن جاگیر دار سیاستدانوں کے آباﺅ اجداد نے مخصوص خدمات کے عوض“ مسلمان بادشاہوں، سِکھوں اور انگریز حکمرانوں سے جاگیریں حاصل کی تھیں وہ جائز ہیں یا ناجائز؟“ حقیقت تو یہ ہے کہ ” حسینیتؓ اوریزیدیت“۔ دو ابدی علامتیں ہیںجو قیامت تک ایک دوسرے سے نبرد آزما رہیں گی۔