افغان طالبان وفد کی اسلام آباد آمد قطر مذاکرات پر بریفنگ
میڈیا رپورٹس کے مطابق افغانستان میں عرصے سے جاری جنگ کے خاتمے کی کوششوں کے تناظر میں باہمی تبادلہ خیال کیلئے طالبان کے ایک وفد نے گزشتہ روز اسلام آباد کا دورہ کیا۔ اسے پچھلے ایک سال سے زیادہ عرصہ کے بعد پہلی براہ راست ملاقات قرار دیا گیا۔ طالبان کے وفد نے پاکستان کو قطر کے اس اجلاس کے حوالے سے بریف کیا جو قطر میں افغان اور امریکی حکام کے درمیان ہوا اور جس میں پاکستان شامل نہیں تھا۔ اسلام آباد میں افغان سفیر نے اگرچہ طالبان وفد کی ملاقاتوں کی تصدیق کی لیکن تفصیلات بتانے سے معذرت کر لی جبکہ وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز نے طالبان وفد کی اسلام آباد آمد کی اطلاعات سے لاعلمی کا اظہار کیا۔ وزارت خارجہ کی اس حوالے سے پہلے خبر کی تصدیق اور بعدازاں تردید ناقابل فہم ہے۔
کابل اور طالبان کے درمیان قیام امن کیلئے پاکستان اور چار ملکی گروپ کی سہولت کاری کی کوششیں جاری ہیں۔ طالبان کے اس طرح آزادانہ علاقائی دوروں پر پابندی لگنی چاہیے تاہم اگر وہ قیام امن کیلئے جو کچھ کر رہے ہیں اس کی وضاحت کی جانی چاہیے۔ دنیا پہلے ہی سمجھتی ہے کہ پاکستان افغان طالبان کی سرپرستی کرتا اور انہیں سپورٹ کرتا ہے۔ موجودہ حالات میں ہمیں عالمی سطح پر اچھے دوستوں کی ضرورت ہے۔ طالبان کو یوں پاکستان آکر ہمیں بریف ڈکٹیٹ نہیں کرنا چاہیے۔ مذاکرات دو حکومتوں کے درمیان مروجہ سفارتی طریقہ کار کے مطابق انجام پانے چاہئیں۔ طالبان کے ساتھ حمایتی کے طور پر نتھی ہونا پاکستان کے مفاد میں نہیں۔ ہمیں اپنے مفادات اور نقطۂ نظر کے مطابق افغانستان میں قیام امن کیلئے اپنی کوششیں ضرور جاری رکھنی چاہئیں تاہم ان پر زور دینا چاہئیے کہ وہ اپنے معاملات اپنے طور پر خود حل کریں۔ دوستی کی غیرضروری پینگیں بڑھانے کا مطلب اپنے آپ کو ایک نئی آزمائش میں ڈالنا اور خطرناک صورتحال سے دوچار کرنے کے مترادف ہو گا۔ بھارت اور امریکہ کی طرف سے ہم پر آئے روز دہشت گردی کی حمایت اور دہشت گردوں کو پناہ دینے کے الزامات لگ رہے ہیں جبکہ ہم خود دہشت گردی کا شکار ہیں۔ افغان طالبان کے پاکستان کو مطلوب دہشت گردوں سے رابطے ہیں۔ ان کو وہاں پناہ دی جاتی ہے۔ افغان طالبان سے پہلے ایسے دہشت گردوں سے الگ ہونے اور انہیں پاکستان کے حوالے کرنے کی دو ٹوک بات کی جائے وگرنہ اس کے بغیر کئے جانے والے مذاکرات آبیل مجھے مار والی بات ہو گی۔