کراچی سے متحدہ لندن کے تین رہنمائوں کی گرفتاری، سرگرمیوں پر پابندی کا فیصلہ
ایم کیو ایم لندن کے 3 رہنمائوں ڈاکٹر حسن ظفر عارف ، کنور خالد یونس اور امجد اللہ کو رینجرز نے کراچی سے گرفتار کرلیا جبکہ متحدہ زونل کمیٹی کے رکن ظفر راجپوت کو حیدر آباد سے حراست میں لے لیا گیا۔ ڈاکٹر حسن ظفر عارف کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ پریس کانفرنس کرنے کیلئے کراچی پریس کلب پہنچے تھے اور گیٹ کے باہر موٹر سائیکل پر بیٹھے تھے۔ سابق رکن قومی اسمبلی کنور خالد یونس کو گورنر ہائوس کے نزدیک سے گرفتار کیا گیا، وہ بھی پریس کلب آ رہے تھے۔ انکے تیسرے ساتھی امجد اللہ خان گرفتاری سے بچنے کیلئے پریس کلب کے اندر چلے گئے اور چار گھنٹے وہاں رہے۔ بعدازاں باہر آنے پر انہیں بھی گرفتار کرلیا گیا۔ گرفتاریوں کے بعد متحدہ لندن کے رہنمائوں کی پریس کانفرنس ملتوی کردی گئی۔ گرفتاریوں کے بعد ایم کیو ایم لندن کے کارکن وہاں سے رفو چکر ہوگئے۔ پریس کانفرنس میں حسن ظفر نے متحدہ لندن میں شامل ہونے والے ارکان کے ناموں کا اعلان کرنا تھا۔ ایم کیو ایم کے گرفتار رہنمائوں کیخلاف مقدمہ درج کرلیا گیا۔ ملزموںکو 22 اگست کو پاکستان مخالف نعرے بازی پر گرفتار کیا گیا ہے۔لندن کے رہنما ندیم نصرت نے مطالبہ کیا ہے کہ گرفتار رہنمائوں کو فی الفور رہا کیا جائے۔ سندھ حکومت جمہوری اور سیاسی آزادیوں کو سلب کر رہی ہے۔ دریں اثناء ایم کیو ایم لندن کی سرگرمیوں پر مکمل پابندی لگانے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے، اس ضمن میں وفاق اور صوبہ میں اتفاق رائے ہوگیا۔ اس سے قبل وفاق نے ملک دشمن عناصر کی سرگرمیوں پر تشویش کا اظہار کیا تھا جس کے بعد وفاق اور صوبے کے درمیان رابطے ہوئے اور طے ہوا کہ ملک دشمن سیاست پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا اور ملک کے خلاف نعرے لگانے والوں کے سا تھ کوئی رعایت نہیں کی جائیگی۔ یہ بھی طے ہوا ہے کہ الطاف حسین کو سیاست کی اجازت نہیں دی جائیگی۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے جمعرات کو نائن زیرو پر قابل اعتراض نعروں کا نوٹس بھی لیا تھا جبکہ پیپلز پارٹی سمیت مختلف سیاسی جماعتوں نے ایم کیو ایم پر پابندی کا مطالبہ کیا تھا اور اپیل کی تھی کہ ایم کیو ایم کی سیاسی سرگرمیاں بند کی جائیں۔
الطاف حسین کی سربراہی میں ایم کیو ایم کراچی میں قتل و غارت اور ملک دشمن کارروائیوں کے الزامات کی زد میں رہی ہے۔ نوے کی دہائی میں اس پارٹی کے خلاف دو مرتبہ پوری قوت کے ساتھ آپریشن کئے گئے جن میں بھاری مقدار میں اسلحہ، ٹارچر سیل اور کراچی کو جناح پور بنانے کے حوالے سے مواد پکڑا گیا مگر دونوں مرتبہ آپریشن سیاستدانوں کی باہمی چپقلش کے باعث منطقی انجام کو نہ پہنچ سکا۔ جس سے الطاف اور ان کے حواریوں کو مزید مضبوط ہونے کا موقع ملا اور انہوں نے آپریشن میں حصہ لینے والے سرکاری اہلکاروں کو چن چن کر شہید کر دیا۔ حکیم محمد سعید اور غازی صلاح الدین جیسے لوگ بھی ان کی بربریت کا نشانہ بنے۔
کراچی تیس سال تک قتل و غارت گری اور بدامنی کا گڑھ بنا رہا۔ الطاف کی ایم کیو ایم کے خلاف جب بھی کوئی کارروائی ہوتی الطاف اداروں اور ان کے سربراہوں کے خلاف غلیظ زبان استعمال کرتے اور را کو مدد کیلئے پکارنے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے۔ ان کی طرف سے ایم کیو کیو کی بنیاد رکھے جانے کے موقع پر کارکنوں کو ٹی وی فروخت کر کے اسلحہ خریدنے کی ہدایت کی گئی۔ کراچی میں تین سال قبل جب رینجرز نے کراچی میں آپریشن شروع کیا اور متحدہ کے ٹارگٹ کلرز پر ہاتھ ڈالا گیا تو الطاف پھر آپے سے باہر اور ہوش و حواس سے بیگانہ ہو کر کارکنوں کو اسلحہ خریدنے کی ہدایت دینے لگے۔ دریائے سندھ کو خون سے بھرنے کی دھمکی دی اور را کو مدد کیلئے پکارا۔ اس موقع پر متحدہ کی پاکستان میں قیادت اپنے لیڈر کا محاسبہ کرنے کے بجائے آئیں بائیں شائیں کر کے ان کی حاشیہ برداری میں لگی رہی مگر 22 اگست کی الطاف کی تقریر متحدہ کی لیڈر شپ سمیت ہر پاکستانی پر بجلی بن کر گری جس میں الطاف نے پاکستان مردہ باد کے نعرے بلند کئے اور ٹی وی چینلز پر ٹوٹ پڑنے کا حکم دیا۔ کل جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا یہ بدبخت پاکستان کے خلاف نعرے لگانے والوں میں شامل تھے۔ ایک بار یہ کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کر چکے تھے اور اب پریس کانفرنس کیلئے پھر پریس کلب کا رخ کر رہے تھے۔
22 اگست کی تقریر نے متحدہ میں شامل ایسے لوگوں کو الطاف سے راستے الگ کرنے پر مجبور کر دیا جن میں وطن سے محبت کی ایک رمق بھی موجود تھی۔ الطاف کے کچھ دیرینہ ساتھی ان کی تقریر کی اپنے طور پر بے دلیل سے وضاحتیں پیش کر رہے تھے کہ الطاف نے اس تقریر پر معذرت اور شرمندگی کا اظہار کرنے کے بجائے کینڈا، امریکہ اور جنوبی افریقہ میں کارکنوں سے ٹیلی فونک خطاب میں پاکستان کے خلاف مزید اشتعال انگیز تقریر کرتے ہوئے زہر اگلا۔ بھارت جا کر وہ نظریہ پاکستان کی نفی تو پہلے سے ہی کر چکے تھے اب بھارت سے قیام پاکستان کی معافی مانگ رہے تھے۔ پاکستان توڑنے کا نعرہ بھی ان کی طرف سے لگایا گیا۔
الطاف نے اپنی ان تقاریر میں حب الوطنی اور ملک دشمنی کی ایک حد فاصل قائم کر دی۔ بلاشبہ جو ان کے ساتھ کھڑا ہو گا وہ ملک دشمن تصور ہو گا۔ فاروق ستار کی قیادت میں متحدہ نے الطاف حسین سے دوری اختیار کی اور ان سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا۔ ان کو الطاف اور ان کے حواریوں کی طرف سے دھمکیاں دی گئیں مگر ان کے پائے ثبات میں لغزش پیدا نہیں ہوئی۔ الطاف کے ایک اشارے پر کراچی اور حیدر آباد بند ہو جاتے تھے۔ پارلمنٹرین ایک لمحے میں اپنے استعفے سپیکر کو پہنچا دیتے تھے مگر اب ان کی کال پر ہڑتال ہوتی ہے نہ پر زور اصرار پر ایک بھی پارلیمنٹرین نے استعفیٰ دیا ہے جبکہ فاروق ستار کی قیادت میں متحدہ قومی موومنٹ مضبوط ہو رہی ہے اور قومی دھارے میں شامل ہو چکی ہے۔ کچھ حلقوں کی طرف سے شکوک و شبات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ متحدہ لندن اور متحدہ پاکستان میں اختلافات نوراکشتی ہیں جس کی فاروق ستار اور ان کے ساتھی سختی سے تردید کرتے ہیں۔ باالغرض ایسا ہے تو یہ لوگ بھی اپنے ہی کارکنوں کی نفرت، اشتعال اور انتقام کا نشانہ بن جائیں گے۔
پاکستان میں متحدہ لندن کا کوئی وجود نہیں ہے۔ اس گروہ نے خود کو اپنے اقدامات اور اعلانات سے ملک دشمن ثابت کیا ہے۔ الطاف کے قریبی ساتھی عامر خان نے دہشتگردوں کو پناہ دینے کا اعتراف کیا ہے۔ میئر کراچی وسیم اختر نے بھی الطاف کو غدار قرار دیا ہے۔ الطاف سے وابستگی کا برقرار رکھنے والے 11 ارکان نے فاروق ستار کی متحدہ کی طرف سے رکنیت ختم کر دی گئی ہے۔ جو قائد کا غدار ہے موت کا حقدار ہے، ایسے نعروں پر کاربند رہنے والے اپنے کردار اور عمل سے خود کو اس ملک کا غدار ثابت کر رہے ہیں جس ملک نے ان کو عزت دی، شہرت دی، سیاست میں اعلیٰ مقام دیا اگر یہ الطاف سے وابستگی برقرار رکھتے ہیں تو ان پر غداری کے تحت مقدمات چلائے جانے چاہئیں۔
ندیم نصرت لندن میں بیٹھ کر جمہوری آزادی کی بات کرتے ہیں۔ جو باتیں الطاف اور ان کے پاکستان میں موجود خوشامدی پاکستان کے خلاف کرتے ہیں ذرا آپ یہی کچھ برطانیہ کے بارے میں کہہ کر دیکھیں تو برطانیہ کا قانون آپ کو جمہوری آزادی سے آشنا کرا دے گا۔
حکومت نے الطاف کے پاکستان توڑنے کے نظریے سے متفق کرداروں پر ہاتھ ڈال کر درست اور اور بروقت فیصلہ کیا ہے۔ پاکستان میں رہ کر پاکستان کا کھا کر پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والوں سے کوئی رو رعایت نہ کی جائے۔ فاروق ستار کی قیادت میں متحدہ قومی موومنٹ قومی دھارے میں شامل ہو چکی اور مشکلات سے نکل کر مضبوط ہو رہی ہے۔ اس کی طرف سے الطاف کی ملک دشمن سرگرمیوں سے پردہ اٹھنا چاہئیے۔ عزیز آباد کے قریب سے اسلحہ کی بڑی کھیپ پکڑی گئی تھی۔ اب ایک مقامی کونسلر کی نشاندہی پر نیو کراچی سے مسمار شدہ متحدہ کے دفتر سے اسلحہ برآمد ہوا ہے۔ مزید بھی اسلحہ کے ذخائر ہونگے ان کی نشاندہی بھی الطاف سے لاتعلقی اختیار کرنے والے رہنمائوں اور کارکنوں کو کرنی چاہئیے، یہ بھی حب الوطنی کا تقاضہ ہے۔ 90ء کی دہائی میں 2 آپریشن مصلحتوں کا شکار ہو گئے تھے، اب حکومت اور اداروں کی طرف سے ملک دشمن عناصر کے قلع قمع میں کوئی مصلحت آڑے آنی چاہئیے اور نہ گنجائش رہنی چاہئیے۔