مسئلہ اب محض ”ڈومور“ تک محدود نہیں رہا

کئی دنوں سے جی بہت مچل رہا ہے کہ میر ظفر اللہ جمالی صاحب کے ”قلندرانہ“ مزاج کا بھرپور اظہار کرتے ان چند واقعات کا ذکر کروں جن کا میں عینی شاہد ہوں۔ ان واقعات کے بیان کے بعد یہ سمجھنا آسان ہوجائے گا کہ موصوف کی حال ہی میں قومی اسمبلی میں ہوئی ایک ”باغیانہ“ تقریر کیسے اور کہاں سے نازل ہوئی ہوگی۔
دل ودماغ میرے لیکن ان دنوں بہت پریشان ہیں۔ ملال یہ سوچتے ہوئے ناقابل برداشت ہوجاتا ہے کہ سیاسی لیڈروں کی باہمی چپقلشوں کے ذکر میں الجھا ہمارا میڈیا پاکستان کی طرف تیزی سے بڑھتے ان مسائل کو دیکھ ہی نہیں پارہا جو کئی طاقت ور ملک ہمارے ازلی دشمنوں کے ساتھ مل کر کھڑے کررہے ہیں۔
جس دن آپ یہ کالم پڑھ رہے ہوں گے اس روز امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن پاکستان پہنچ کر ہمارے سیاسی اور عسکری حکام سے ملاقاتیں کررہا ہوگا۔ اس کی آمد سے قبل ہمارے وزیر خارجہ چند روز کے لئے واشنگٹن گئے تھے۔ امریکی دارالحکومت میں ان کی اپنے امریکی ہم منصب سے ملاقات بھی ہوئی۔ اس ملاقات کے بعد دونوں وزرائے خارجہ نے رپورٹروں کے سامنے کھڑے ہوکر چند رسمی کلمات بھی ادا نہیں کئے۔ خواجہ آصف اس ملاقات کے بعد خاموشی سے واپس چلے آئے۔
ریکس ٹیلرسن نے ان سے ہوئی ملاقات کے تناظر میں رپورٹروں کے سامنے البتہ چند کلمات ضرور ادا کئے۔ ان کلمات کے ذریعے پاکستان کے ”دور رس استحکام“ کی خواہش کے اظہار کے علاوہ ٹیلرسن نے یہ اعتراف بھی کیا کہ واشنگٹن، اسلام آباد میں ان دنوں نظر آنے والی ”حکومت“ کے مستقبل کے بارے میں بہت فکر مند ہے۔ٹیلرسن کی اس فکر نے عباسی حکومت کے بارے میں ”صبح گیا یا شام گیا“ والے تاثر کو ٹھوس مواد فراہم کردیا۔ستمبر1999ءمیں ایک بے نام ”امریکی ترجمان“ کی جانب سے جاری ہوا وہ بیان یاد آگیا جو شہباز شریف کی واشنگٹن موجودگی کے دوران دوسری نواز حکومت کی بے ثباتی کے اشارے دے رہا تھا۔
ٹیلرسن کے اس بیان کے بعد ہی حمزہ شہباز شریف وطن لوٹنے کے بعد شاہ زیب خانزادہ کے ایک ٹی وی پروگرام میں نمودار ہوئے اور اپنے تایا کو ایک منجھے ہوئے سیاستدان کی طرح صبر اور بردباری کے مشورے دیتے پائے گئے۔ بھتیجے سے کسی نے یہ دریافت کرنے کی کوشش ہی نہ کی کہ ”تمہارے انٹرویو میں دیا یہ پیغام کس کا تھا؟“شریف خاندان میں تقسیم اگرچہ کھل کر لوگوں کے روبرو آگئی اور حکمران جماعت میں گہری ہوتی دراڑ کے تذکرے بھی شروع ہوگئے۔
مجھے خبر نہیں کہ ایک منقسم ومنتشر نظر آتی جماعت کی نمائندگی کرتی عباسی حکومت کو ٹیلرسن اپنے دورے کے درمیان کیسے ڈیل کرے گا۔ پیغام اپنی حکومت کی جانب سے لیکن وہ ایسے لارہا ہے جن پر عملدرآمد شاید ایک بہت ہی بااختیار حکومتِ پاکستان کے بس کی بات بھی نہیں۔
یقین مانیے مسئلہ اب محض ”ڈومور“ تک محدود نہیں رہا ہے۔ نائن الیون کے بعد سے پاکستان کو افغانستان کے اہم ترین ہمسایے کے طورپر ہی لیا جارہا تھا۔ اسی باعث AF-PAKکی ترکیب متعارف ہوئی تھی۔ اس مخصوص پہلو سے ڈیل کرنے کے لئے ایک خصوصی امریکی نمائندے کا تقرر شروع ہوا۔ ٹرمپ کے وائٹ ہاﺅس پہنچنے کے بعد اس منصب کی سربراہی ”عارضی“ بنیادوں پرAlice Wells کے سپرد ہوئی۔ اب فیصلہ ہوگیا ہے کہ AF-PAK کا شعبہ بند کردیا جائے گا۔
امریکی وزیر دفاع اور مشیربرائے قومی سلامتی تواتر کے ساتھ یہ کہنا شروع ہوگئے ہیں کہ افغانستان سے جڑے مسائل کا حل فقط AF-PAK تعلقات کے ذریعے ممکن نہیں۔ معاملات کو سلجھانے کے لئے کوئی ”علاقائی (Regional) حل ڈھونڈنا ہوگا۔
”علاقائی (Regional)“ کا ذکر پاکستان کے لئے خیر کی خبر ہونا چاہیے تھا۔ کیونکہ افغانستان پاکستان کے علاوہ ایران کا بھی ہمسایہ ہے۔ چین جو اپنا یار ہے افغانستان کے نواح میں واقع ہے اور چین افغانستان میں موجود معدنیات کے بے تحاشہ ذخائر کو اپنی اور عالمی منڈی کی ضروریات کے لئے زمین کی تہوں سے باہر نکالنے کو بے چین ہے۔ تاریخی اور وسیع تر تناظر میں روس کو بھی افغانستان کا ”علاقائی“ حصہ دار شمار کرنا ہوگا۔ پاکستان کو یقینا اس بارے میں کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے اگر امریکہ پرخلوص انداز میں روس،چین،ایران اور پاکستان کی مشترکہ کوششوں سے افغانستان کا دیرپا حل ڈھونڈنا چاہ رہا ہے۔
مسئلہ مگر یہ کھڑا ہوگیا ہے کہ امریکہ ”علاقائی“ کے بہانے بھارت کو افغانستان میں اہم کردار ادا کرنے پر اُکسارہا ہے۔ پاکستان اس کردار کو ٹھوس اور جائز وجوہات کی بنا پر تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔بھارتی کردار مگر ہمارے سرتھوپنے کو سوجتن کئے جارے ہیں۔ اس ضمن میں شدید ترین دباﺅ معاشی اعتبار سے بہت ہی مو¿ثر ہتھکنڈوں کے ذریعے بڑھایا جارہا ہے۔
حال ہی میں کراچی میں صنعت کاروں کا ایک اجتماع ہواتھا۔ آرمی چیف نے اس اجتماع سے کلیدی خطاب کیا۔ اس اجتماع نے ملکی معیشت کی زبوں حالی کا رونا رویا اور سب سے زیادہ پریشانی کا اظہار اس حقیقت کے بارے میں ہوا کہ پاکستان کی برآمدات سکڑرہی ہیں۔ ان کے مقابلے میں درآمدات پر ہمارے زرمبادلہ کے اخراجات تقریباََ دوگناہورہے ہیں۔پاکستانی برآمدات کو سکڑتے دکھاتے حقائق یقینا بہت تشویش ناک ہیں۔انہیں ذہن میں رکھتے ہوئے ہمیں اپنی برآمدات کے حوالے سے ایک ڈالر کے نقصان پر بھی فکرمند ہونا چاہیے۔
برآمدات کا تذکرہ ہوتو یہ حقیقت بھی ذہن میں رکھنا ہوگی کہ افغانستان پاکستان کی ایک بہت ہی منافع بخش منڈی رہی ہے۔ صرف 4سال قبل تک ہم افغانستان کو مصنوعات بیچ کر ہر سال تقریباََ3ارب ڈالر کمارے تھے۔ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات پر قابو پانے کے لئے مگر پاک-افغان سرحد کو اکثر بند کرنا پڑا۔ اس بندش نے ہمارے مصنوعات کی بروقت ترسیل کو تقریباََ ناممکن بنانا شروع کردیا۔
ترسیل میں رکاوٹیں معمول کی صورت اختیار کرنا شروع ہوئیں تو افغانستان نے اپنے ہاں سیمنٹ کے حصول کے لئے ایران کا رُخ کرلیا۔ اس وقت ایران سے وہ ہر سال تقریباََ 700 ملین ڈالر کا سیمنٹ درآمد کرتا ہے جبکہ تین سال قبل تک وہاں صرف پاکستانی سیمنٹ جاتا تھا۔
سیمنٹ کی منڈی ختم ہوجانے کے بعد سے اب دیگر مصنوعات کی گنجائش بھی تیزی کے ساتھ کم ہورہی ہے اور بھارتی تاجر افغان مارکیٹ کی مانگ کو تقریباََ Dumping کے ذریعے پورا کررہے ہیں۔پاکستانی تاجروں کی فکرمندی کو ذہن میں رکھتے ہوئے حکومتِ پاکستان افغانستان کے ساتھ باہمی تجارت کو پوری توانائی کے ساتھ بحال کرنا چاہ رہی تھی۔ آرمی چیف کے حالیہ دورئہ کابل کے بعد امید بندھی کہ دونوں ممالک کے تجارتی حکام کے مابین مذاکرات کا ایک بھرپور دور ہوجس کے ذریعے مشکلات کو تیزی سے رفع کیا جائے۔
افغانستان نے اپنا وفد ان مذاکرات کے لئے بھیجنے پر آخری لمحات میں لیکن انکار کردیا۔ بہانہ یہ بنایاکہ پاکستان اس کے ٹرکوں کو بھارت سے بذریعہ واہگہ کوئی سامان لانے کی اجازت دینے کو تیار نہیں۔ ٹیلرسن کی ا ٓمد سے ایک روز قبل ا فغان صدر نے اب پاکستانی ٹرکوں کی افغانستان میں داخلے پر پابندی لگادی ہے۔ ہمارے ٹرک افغانستان جانے والا سامان طورخم اور چمن کی سرحد پر چھوڑ کر گویا خالی واپس لوٹ آیا کریں گے۔مزید پریشان کن بات یہ بھی ہے کہ پاکستانی ٹرکوں کی افغانستان میں داخلے پر پابندی کے اعلان کے بعد افغان صدر اشرف غنی بھارت روانہ ہونے والے ہیں۔ موصوف امریکی وزیر خارجہ کی نئی دلی میں موجودگی کے دوران اس شہر میں موجود ہوں گے۔
بات واضح ہے کہ بھارت اور افغانستان امریکی وزیر خارجہ سے مشاورت کے ساتھ کوئی مشترکہ حکمت عملی وضع کرنے کے چکر میں ہیں اور ہمیں ظفر اللہ خان جمالی کی تقریر کی وجہ سے شریف خاندان اور حکمران جماعت میں انتشار کی فکر کھائے چلی جارہی ہے۔
٭٭٭٭٭

ای پیپر دی نیشن