امریکی احکام کی تعمیل میں ملک کی آزادی اورخودمختاری پر کوئی حرف نہ آنے دیں

Oct 24, 2017

اداریہ

امریکی وزیر خارجہ ٹلرسن کا آج کا دورۂ اسلام آباد‘ ٹرمپ انتظامیہ کے عزائم اور ہماری حکمت عملی

پاکستانی حکام نے امریکی انتظامیہ اور افغانستان میں موجود اسکی فوج کے ساتھ روزانہ کی بنیاد پر رابطے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ سرحدی علاقے میں موجود دہشت گردوں کو ختم کیا جا سکے۔ اس سلسلہ میں وزارت خارجہ کے ایک سینئر اہلکار نے ’’دی نیشن‘‘ سے بات چیت کے دوران بتایا کہ امریکی وزیر خارجہ کو انکے دورۂ پاکستان کے دوران دہشت گردوں کو شکست دینے کیلئے مل کر کام کرنے کی دعوت دی جائیگی۔ انکے بقول پاکستان امریکہ کے ساتھ مکمل تعاون کرنا چاہتا ہے ماسوائے اسکے کہ امریکی افواج پاکستان کے اندر اپریشن کریں۔ اسی طرح دفتر خارجہ کے ایک دوسرے افسر نے ’’دی نیشن‘‘ کو بتایا کہ امریکی وزیر خارجہ ٹلرسن کے دورے کے موقع پر ہم ان سے دو نکات پر بات کرینگے۔ ہم امریکہ کو باور کرائیں گے کہ وہ ہماری حدود سے دور رہے اور دوسرے یہ کہ امریکہ بھارت کو افغانستان میں کوئی کردار نہ دے۔ انکے بقول امریکی وزیر خارجہ کے سامنے پاکستان کے تحفظات بھی رکھے جائینگے اور انہیں دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کی قربانیوں سے بھی آگاہ کیا جائیگا۔ ماہرین کے مطابق پاکستان امریکہ کے بھارت کے ساتھ باہمی تعلقات کا مخالف نہیں تاہم امریکہ کو افغانستان کے مسئلہ میں بھارت کو مسلط نہیں کرنا چاہیے جبکہ بھارت امریکہ کو پاکستان کے حوالے سے مس گائیڈ کررہا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن اپنے طے شدہ شیڈول کے مطابق آج بروز منگل ایک روزہ دورے پر پاکستان آرہے ہیں۔ اگرچہ وہ وزیر خارجہ پاکستان خواجہ محمد آصف کی دعوت پر پاکستان آرہے ہیں تاہم امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے پاکستان اور افغانستان کے بارے میں واشنگٹن انتظامیہ کی نئی پالیسی کے اعلان کے ساتھ ہی انکے اور امریکی وزیر دفاع جم میٹس کے جنوبی ایشیاء کے دورے کا شیڈول طے ہوگیا تھا جس میں ٹرمپ کی اعلان کردہ پالیسی کی روشنی میں پاکستان سے بعض مخصوص کالعدم دہشت گرد تنظیموں بشمول حقانی گروپ کیخلاف اپریشن تیز کرانا مقصود ہے بصورت دیگر پاکستان کو سنگین نتائج کیلئے تیار رہنے کا احساس دلانا بھی انکے اس دورے کا ہی مقصد ہے۔ امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس اسی تناظر میں بھارت اور افغانستان کا دورہ کرچکے ہیں جہاں انہوں نے ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسی کے عین مطابق پاکستان کیلئے انتہائی سخت موقف اختیار کیا اور امریکہ واپس پہنچ کر یہ بھی باور کرایا کہ بھارت کو دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے حوالے سے پاکستان کی نگرانی کا کردار سونپا گیا ہے۔ جیمز میٹس نے اپنے طے شدہ شیڈول کے مطابق آئندہ دسمبر میں پاکستان آنا ہے جبکہ امریکی وزیر خارجہ ٹلرسن پاکستان کے علاوہ خلیجی ممالک اور یہاں بھارت اور افغانستان کے دورے پر ہیں۔ انکے دورے کا مقصد نائن الیون جیسی کسی نئی دہشت گردی سے امریکہ کو محفوظ کرنے کے اقدامات اٹھانا ہے جس کیلئے وہ پاکستان کو کالعدم دہشت گرد تنظیموں کیخلاف سخت اپریشن کا پابند کرنے کا ایجنڈہ لے کر آرہے ہیں۔ یہی ایجنڈا امریکی صدر ٹرمپ نے جنوبی ایشیاء سے متعلق نئی امریکی پالیسی کو اجاگر کرتے ہوئے گزشتہ ماہ اپنی نشری تقریر میں پیش کیا اور ساتھ ہی ساتھ پاکستان کو دھمکی دی کہ اپریشن نہ کرنے کی صورت میں اسکی سول اور فوجی گرانٹ بھی کم یا مکمل ختم کی جا سکتی ہے‘ اس کا نان نیٹو اتحادی کا سٹیٹس واپس لیا جا سکتا ہے اور اسکے اندر ڈرون حملے بڑھا کر دہشت گردوں کا تعاقب کرتے ہوئے خود بھی اپریشن کیا جا سکتا ہے۔
امریکہ کی یہ سخت پالیسی بلاشبہ پاکستان کیلئے سخت اضطراب کا باعث بنی کیونکہ یہ پاکستان کی آزادی اور خودمختاری پر حملہ آور ہونے کی پالیسی ہے اور یہ طرفہ تماشا ہے کہ اس پالیسی کے اعلان کے وقت دہشت گردی کی جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی کا کردار ادا کرتے ہوئے پاکستان کی جانب سے دی گئی بے بہا جانی اور مالی قربانیوں کا بھی احساس نہیں کیا گیا اور اسکے برعکس پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کو افغانستان میں امن کی بحالی اور تعمیرنو کا کردار سونپ دیا گیا جس کا دہشت گردی کی جنگ میں سرے سے کوئی کردار ہی نہیں رہا جبکہ وہ افغان سرزمین پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی سازشیں پھیلانے کیلئے پہلے ہی استعمال کررہا ہے۔ اب امریکہ کی جانب سے افغانستان میں سونپے گئے کردار کے باعث بھارت کو افغان سرزمین پاکستان کی سلامتی کیخلاف استعمال کرنے کا کھلا موقع مل جائیگا۔ اس تناظر میں ٹرمپ کی نئی پالیسی میں پاکستان کیلئے کسی خیرخواہی کا کوئی عنصر نظر نہیں آرہا جبکہ افغانستان میں بھارت کے کردار سے اس خطہ میں دہشت گردی ختم ہونے کے بجائے مزید بڑھنے کا مکمل خدشہ موجود ہے۔ وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف ٹرمپ انتظامیہ کی اس پالیسی کے مضمرات سے آگاہ کرنے کیلئے ہی اس ماہ کے آغاز میں امریکہ گئے اور وہاں انہوں نے امریکی وزیر خارجہ ٹلرسن اور دوسرے امریکی حکام سے ملاقاتوں کے دوران انہیں افغانستان میں بھارت کے کردار کے حوالے سے پاکستان کے موقف پر قائل کرنے کی کوشش کی تاہم امریکی وزیر خارجہ اور وزیر دفاع نے اپنے دورۂ پاکستان کے شیڈول کا اعلان کرتے ہوئے جو لب و لہجہ اختیار کیا‘ اس سے بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا تھا کہ پاکستان کے بارے میں ٹرمپ انتظامیہ کی جارحانہ پالیسی میں کوئی کمی یا ردوبدل نہیں ہوا اور وہ پاکستان سے ’’ڈومور‘‘ کے تقاضوں پر ہی قائم ہے۔
اگر امریکی وزیر خارجہ یہی ایجنڈا لے کر آج پاکستان آرہے ہیں تو ہماری جانب سے ملکی سلامتی اور قومی خودمختاری کے تقاضوں کے مطابق انکے ساتھ بات چیت کی جانی چاہیے جس کیلئے دفتر خارجہ کے سینئر افسران کی ’’دی نیشن‘‘ سے ہونیوالی گفتگو سے عندیہ تو یہی ملتا ہے کہ پاکستان نے بھی امریکی پالیسی کے جواب میں ٹھوس اور سخت موقف اختیار کرنا طے کر رکھا ہے جو کسی کو ملک کی خودمختاری کا احساس دلانے کا تقاضا بھی ہے۔ یہ طے شدہ امر ہے کہ امریکہ افغانستان میں نیٹو فورسز کے ذریعے 14, 12 سال کی سرپھٹول کے باوجود وہاں دہشت گردوں کی مکمل سرکوبی میں کامیاب نہیں ہو سکا اور اسے وہاں سے بالآخر مایوس و نامراد واپس جانا پڑا تو اب وہاں بھارت کو کردار سونپنے سے بھی دہشتگردی کے خاتمہ سے متعلق اسکے مقاصد پورے نہیں ہوسکیں گے۔ الٹا اس سے خطے میں مزید کشیدگی پیدا ہوگی اور امن و امان کیلئے خطرات بڑھ جائینگے جبکہ پاکستان کے ساتھ انٹیلی جنس شیئرنگ کی بنیاد پر امریکہ افغانستان میں اور اس خطے میں کسی بھی دوسرے مقام پر موجود دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کرنے اور دہشت گردوں کی سرکوبی میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ اس کا ثبوت بھی گزشتہ ڈیڑھ ہفتے سے افغانستان میں انٹیلی جنس شیئرنگ کی بنیاد پر کئے گئے ڈرون حملوں اور فوجی اپریشنز سے حاصل ہونیوالی نمایاں کامیابیوں کی صورت میں موجود ہے جبکہ ان اپریشنز کے ردعمل میں جس سرعت کے ساتھ افغانستان کے مختلف علاقوں میں خودکش حملے اور دہشت گردی کی دوسری وارداتیں ہوئیں جن میں سکیورٹی اہلکاروں سمیت دو سو سے زیادہ افراد لقمۂ اجل بنے ہیں۔وہ دہشت گردوں کے تمام محفوظ ٹھکانے افغانستان میں ہونے کی ہی نشاندہی کررہی ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کو بھی ان کارروائیوں کے ردعمل میں کرم ایجنسی اور بلوچستان میں بدترین دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑا جبکہ ہماری سکیورٹی فورسز کے اہلکار دہشت گردی اور خودکش حملوں کی ان وارداتوں کا ہدف تھے۔ ٹرمپ انتظامیہ تو کرم ایجنسی کے اپریشن میں امریکی خاتون‘ اسکے شوہر اور بچوں کی طالبان کی قید سے بازیابی پر وقتی طور پر مطمئن ہوگئی جس پر رسماً صدر ٹرمپ اور نائب صدر پنس نے پاکستان کی ستائش بھی کردی مگر ہماری سکیورٹی فورسز کو اس اپریشن کا خمیازہ بدترین دہشت گردی کی صورت میں بھگتنا پڑا جس کا امریکہ کو آج بھی احساس نہیں اور واشنگٹن انتظامیہ کی جانب سے اس دہشتگردی پر پاکستان کے ساتھ ہمدردی کے دوالفاظ بھی ادا نہیں کئے گئے البتہ ٹرمپ نے یہ ضرور باور کرادیا کہ کرم ایجنسی اپریشن پاکستان کی جانب سے ہمارے احکام کی تعمیل کا آغاز ہے۔ اس تناظر میںٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان کے اندر خود کارروائی کی پالیسی ابھی تک برقرار رکھی ہوئی ہے جو درحقیقت پاکستان کی آزادی اور خودمختاری پر شب خون مارنے والی پالیسی ہے۔
اگر آج امریکی وزیر خارجہ اسی پالیسی کو لے کر پاکستان آرہے ہیں تو انہیں دہشتگردی کی جنگ میں پاکستان کی اب تک کی کامیابیوں اور قربانیوں سے مکمل آگاہ کرنا ضروری ہے جس میں کراچی میں اپریشن کے دوران کالعدم انصارالشریعہ کے امیر شہریار عرف ڈاکٹر عبداللہ ہاشمی سمیت آٹھ دہشتگردوں کو ہلاک کرنے کی حالیہ کامیابی بھی شامل ہے۔ چنانچہ ٹلرسن کو ٹھوس انداز میں باور کرایا جائے کہ پاکستان میں خود اتنی استعداد ہے کہ وہ دہشتگردوں کیخلاف مؤثر اپریشن کرکے انکے ہر ٹھکانے کو تباہ کردے۔ اس کیلئے امریکہ ہمارے ساتھ معلومات کا تبادلہ تو کرسکتا ہے جیسا کہ گزشتہ ایک ہفتے سے یہ عمل جاری بھی ہے تاہم اسے پاکستان کے اندر کسی قسم کی فوجی کارروائی کی قطعاً اجازت نہیں دی جا سکتی کیونکہ ایسی کارروائی پاکستان کی سلامتی اور خودمختاری کے تقاضوں کے قطعاً منافی ہوگی۔ دفتر خارجہ کو آج اس سلسلہ میں اپنی تیاری مکمل رکھنی چاہیے اور ملک کی آزادی و خودمختاری پر کوئی حرف نہیں آنے دینا چاہیے۔

مزیدخبریں