ون بیلٹ ون روڈ کا عالمی معاشی فلسفہ

فروری 1998ء میں چین میں شنگھائی‘ ووشی اور بیجنگ میں رہنے کا اتفاق ہوا۔ چین میں کمیونزم کے معاشی نظام سے استفادہ کرنے کے بعد اب ’’مارکیٹ معیشت‘‘ کی طرف توجہ دی جارہی تھی۔ چین کے عوام میں خوشحالی اور خوشی کی سی کیفیت نظر آئی۔ 2000ء کے اوائل میں ہی چین نے تجارتی مال کی برآمدات میں اضافہ کرنے اور بین الاقوامی منڈیوں میں مال پہنچانے کیلئے ’’ ون بیلٹ ون روڈ‘‘ کے معاشی فلسفہ پر عملدرآمد کا آغاز کیا۔

روس کے زارپیٹراعظم نے بحرہند تک رسائی حاصل کرنے کیلئے وسط ایشیائی آزاد مملکتوں سے ہوتے ہوئے افغانستان کے راستے ہندوستان تک راہداری حاصل کرنا چاہی اور 1717ء میں پرنس الیگزینڈر بیگووک کی کمان میں 4000 افراد پر مشتمل مسلح فوج خیوا کی طرف روانہ کی اور مشن دیا کہ خیوا کے خان کو ہمنواء بننے پر راضی کیا جائے تاکہ انکے ملک کو اسٹیجنگ گرائونڈ کے طور پر استعمال کرکے انڈیا کی طرف پیش قدمی کی جاسکے۔ اگر ہمنواء بننے سے انکار کرے تو جنگ کرکے خیوا پر قبضہ کیا جائے۔ خیوا کے خان شیر غازی کو زارپیٹراعظم کے عزائم کی خبر ہوئی تو انہوں نے روس کی فوج کی آئو بھگت کی ان کو ٹکڑیوں میں بانٹ کر جاگیرداروں کا مہمان ٹھہرایا۔ جنرل بیگووک کی کچھ فوج راستے کی صعوبتوں کی وجہ سے مر گئی۔ کیپٹن اور کمانڈر سمیت باقی ماندہ فوج کو خان شیر غازی کے حکم پر قتل کیا گیا‘ چند مفرور فوجی پکڑے گئے تو انہیں مفتی کے مشورے پر رہا کیا گیا جنہوں نے واپس جاکر اپنی تباہی و بربادی کی داستان سنائی۔ روس کے زارالیگزینڈر نکولائی اول نے 1807ء سے جنگ کا آغاز کرکے 30 برسوں میں کاکیشیا پر قبضہ کیا‘ 1865ء میں تاشقند پر قبضہ کیا۔ دو برس کے بعد سمرقند اور اسکے پانچ برس کے بعد خیوا پر قبضہ کرکے اپنی سرحدیں افغانستان اور ایران تک پہنچا دیں۔ بیسیویں صدی کے آغاز تک روس اور برطانیہ کی افغانستان پر قبضہ کرنے کیلئے جنگیں ہوئیں مگر کوئی بھی فریق افغانستان پر قبضہ نہ کرپایا۔ 1907ء میں اینگلو رشین کنونشن پر دونوں ممالک نے دستخط کئے جسکے بعد ان کی افغانستان میں پیش قدمیاں رک گئیں۔ 1970ء کی دہائی میں روس نے پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے ساتھ گفت و شنید کرکے بلوچستان کے راستے گوادر بندرگاہ تک راہداری حاصل کرنے کی صورت بنائی تھی اور پاکستان کی سرحد تک طورخم اور چمن تک دو رویہ سڑکیں تعمیر کرلی تھیں کہ بھٹو کی حکومت ختم کردی گئی اور جنرل ضیاالحق کی حکومت کے ذریعے امریکہ نے روس پر افغانستان میں جنگ مسلط کردی تو روس کیلئے پاکستان کے راستے راہداری کی سہولت مخدوش ہوگئی۔ روس کے چین کے ساتھ سرحدی تنازعات تھے جس کی وجہ سے روس نے اپنی فوجیں چین کی سرحد پر تعینات کی ہوئی تھیں تو چین نے بھی اپنی فوجیں سرحد پر تعینات کیں جبکہ افغانستان میں روس کیخلاف جنگ بھی زوروں پر تھی۔ افغانستان میں جنگ کا کوئی انت نظر نہیں آرہا تھا۔
جون 1986ء میں روس کے صدر میخائل گوربا چوف نے چین کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے مذاکرات کی دعوت دینے کی غرض سے ولادی دوستو فسکی سے کہا کہ سوویت یونین کسی بھی وقت‘ کسی بھی سطح پر چین کے ساتھ برادرانہ پڑوسی تعلقات کے فروغ کا ماحول بنانے کیلئے مذاکرات پر تیار ہے۔ اس معاملہ میں چین کی قیادت نے تعلقات کی بہتری کیلئے تین پیشگی شرائط رکھیں (1) روس‘ ویتنام کا کمبوڈیا پر قبضہ ختم کرائے (2) سوویت یونین افغانستان سے انخلاء کرے (3) چین کی سرحد پر سے روسی افواج انخلاء کریں۔ روس نے چین کی تینوں شرطیں پوری کیں تو مئی 1989ء میں روس کے صدر میخائل گورباچوف کی چین کی قیادت سے بیجنگ میں ملاقات ہوئی تو اس وقت بیجنگ کے تیانان من سکوائر میں طلباء کے شدید مظاہرے ہورہے تھے۔
(ہنری کسنگر: ڈپلومیسی صفحہ 792/793)
افغانستان سے انخلاء کے بعد وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ کنفیڈریشن کو غیرضروری سمجھتے ہوئے روس نے سوویت یونین کوختم کردیا اور وسط ایشیائی ممالک الگ الگ ہوگئے لیکن کاکیشیا کو روس کیلئے تزویراتی طور پر اہم ملک سمجھتے ہوئے انکی شدید مسلح مزاحمت کے باوجود اس پر روس نے قبضہ برقرار رکھا۔ چین کے ساتھ تنازعات ختم کرنے کے بعد روس نے چین کے ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ نظام سے منسلک ہونے کے معاہدے کئے۔ CPEC کھل جانے کے بعد روس ‘ چین اور پاکستان کے ساتھ راہدی کے معاہدے کئے اور چین کے راستے کاشغر گوادر CPEC کا راستہ استٰعمال کرتے ہوئے بحرہند تک رسائی حاصل کی۔ روس اور منگولیا کے ساتھ ون بیلٹ ون روڈ کے معاہدہ کی بدولت ٹرانس سائبیرین ریل اور روڈ نیٹ ورک کو استعمال کرتے ہوئے چین نے اپنا تجارتی مال ماسکو اور اس سے آگے یورپ میں ہالینڈ کی بندرگاہ راٹرڈم تک پہنچایا اور وہاں سے بحری راستے سے امریکہ کے مشرقی ساحل کی بندرگاہوں کو مال پہنچ رہا ہے۔ 2016ء کے کرسمس تہوار سے پہلے چین نے ایک کارگو ٹرین تجارتی مال سے لاد کر برطانیہ کے دارالحکومت لندن پہنچائی اور اس سے قبل ایک کارگوٹرین پر تجارتی مال تہران پہنچایا۔ اکتوبر‘ نومبر 2016ء میں چین نے کاشغر سے تجارتی مال گوادر کی بندرگاہ پر پہنچایا اور وہاں سے سمندری جہازوں کے ذریعے دیگر ممالک کو روانہ کیا۔
حال ہی میں چین نے ٹرانس ہمالیہ روڈ اورہل نیٹ ورک کی تعمیرکو جاری رکھا ہوا ہے۔ یہ روڈ اور ریلوے چین کی علاقائی حدود میں کوہ ہمالیہ کے دامن میں کاشغر سے میانمار (برما) کی سرحدوں تک پہنچایا جاتا ہے۔ چین نے بھوٹان کی سرحدوں سے ملحق اپنے علاقہ میں روڈ پر تعمیر کا کام جاری رکھا ہوا تھا کہ 16 جون 2017ء کو انڈیا نے دوکلام (ڈونگ لینگ) کے علاقہ میں فوجی مداخلت کی۔ دو ماہ تک چین اور انڈیا کی فوجیں آمنے سامنے رہیں لیکن چین کے بار بار انتباہ کے بعد انڈیا نے 28 اگست 2017ء کو اپنی فوجیں واپس بلا لیں۔ البتہ بھوٹان اس تمام معاملہ میں خاموش رہا۔ میانمار اور بنگلہ دیش کے ساتھ ون بیلٹ ون روڈ معاہدہ کے بعد چین سے برما کے راستے بنگلہ دیش کی بندرگاہ چٹاگانگ تک راہداری تعمیر ہونی ہے اور برما (میانمار) کے بندرگاہ ینگوں تک راہداری تعمیر ہونی ہے۔ جولائی 2017ء میں انڈونیشیا اور ملائیشیا نے چین کے ساتھ ون بیلٹ ون روڈ کے معاشی نظام کے ساتھ منسلک ہونے کا معاہدہ کیا ہے۔ سٹریٹ آف ملاکا اور بحرہند سے گزرنے کے بجائے میانمار کے بندرگاہ استعمال کرتے ہوئے میانمار کے زمینی راستے ٹرانس ہمالیہ ریل روڈ نیٹ ورک کے ذریعے انڈونیشیا اور ملائیشیا اپنا تجارتی مال چین‘ منگولیا‘ وسط ایشیائی ممالک‘ ایران‘ ترکی‘ مشرق وسطیٰ‘ روس اور یورپ تک پہنچا سکتے ہیں۔
’’چین نے ون بیلٹ ون روڈ کے تحت موزمبیق کی بندرگاہ دارالسلام کی تجدید و توسیع کا کام شروع کیا ہوا ہے۔ موزمبیق سے ریمبیا اور انگولا کے زمینی راستے کے ذریعے انگولا کی بندرگاہ لوٹانڈا میں تجارتی مال پہنچایا جائیگا اور وہاں سے بحری جہازوں کے ذریعے امریکہ‘ کینیڈا اور یورپ روانہ کیا جائیگا۔ لہٰذا افریقہ کی بحری گزرگاہ ’’کیپ آف گڈ ہوپ ‘‘ اور مصر کی نہر سویئزغیرمتعلقہ ہوکر رہ جائیں گی۔ چین نے ’’چائنہ پرل‘‘ کے بحری راستوں کے نیٹ ورک میں ممکنہ رکاوٹوں کی صورت میں بحری و زمینی راستوں کے امتزاج کے متبادل راستے تیار کرکے دنیا میں کسی بھی ملک کے ساتھ کھلم کھلا تجارت کو ممکن بنالیا ہے۔ چائنہ پرل کے بحری راستے اور ون بیلٹ ون روڈ کے زمینی راستوں کے ذریعے امریکی سیٹیلائٹ ممالک کی طرف سے کسی مزاحمت اور رکاوٹ کے امکانات ختم کردیئے گئے ہیں۔ جہاں تک CPEC کا معاملہ ہے تو یہ راستہ چین‘ منگولیا ‘ روس‘ وسط ایشیائی ممالک اور افغانستان کیلئے بحرہند کے راستے تجارت کرنے کیلئے استعمال کرنا ناگزیر ہے۔

ای پیپر دی نیشن