لاہور (وقائع نگار خصوصی) لاہور ہائیکورٹ نے کورٹ فیس سے حاصل آمدن کا ریکارڈ عدالت میں طلب کرلیا۔ چیف جسٹس نے کہا ہے کہ آئین کے تحت عدلیہ خودمختار ادارہ ہے۔ آئین کی منشاء کے خلاف عدلیہ پر کسی قانون کا اطلاق کیسے کیا جا سکتا ہے۔ ضلعی عدلیہ کے سابق ججز نے عدالت کو بتایا کہ انہیں جوڈیشل الائونس فراہم نہ کیا جانا امتیازی سلوک ہے۔ وفاقی حکومت اور حکومت پنجاب کی جانب سے سرکاری وکلاء نے عدالت کو آگاہ کیا کہ فنڈز محدود ہونے کی وجہ سے جوڈیشل الائونس فراہم نہیں کیا جاسکتا۔ آئین کے آرٹیکل ایک سو بیس کے تحت فنڈز جاری کرنا صوبائی حکومت کا اختیار ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آئین کے تحت عدلیہ انتظامیہ سے الگ اور خودمختار ادارہ ہے۔ 1994 کے سروس رولز کے تحت عدلیہ کو چلانے کا اختیار چیف جسٹس کو دیا گیا مگر جوڈیشل افسروں کو کس قانون کے تحت سول سرونٹ سمجھا جاتا ہے جس پر سرکاری وکیل نے کہا کہ ہائیکورٹ نے سول سروس سے متعلق بعض قوانین کو اختیار کررکھا ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جن قوانین میں اختیار واضح نہیں، ان کے تحت انتظامیہ اپنا اختیار کیسے استعمال کرسکتی ہے۔ عدالت کو آگاہ کیا جائے کہ عدالتی بجٹ انتظامیہ کیسے بنا سکتی ہے۔ عدالتی بجٹ بنانا عدلیہ کا کام ہے حکومت اس میں جتنے چاہے کٹوتی کرے۔ عدلیہ تو کورٹ فیس کی مد میں پہلے ہی حکومت کو کما کر دے رہی ہے۔ عدلیہ سے متعلق نافذ قوانین سے متعلق عدالت کو معاونت فراہم کی جائے تاکہ انتظامیہ اور عدلیہ کو تفویض کئے جانے والے اختیارات واضح ہوسکیں۔ عدالت نے مزید سماعت یکم نومبر تک ملتوی کردی۔