بالآخر سینیٹ میں اپوزیشن نے انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017ء کی شق 203 میں ترمیم کا بل حکومتی مخالفت کے باوجود کثرت رائے سے منظور منظور کرانے میں کامیاب ہو گئی سینیٹ میں اپوزیشن پوری تیاری کر کے آئی تھی اس لئے بل کے حق میں 49جبکہ مخالفت میں 18ووٹ ڈالے گئے جب یہ ایکٹ شق 203 کے ساتھ منظو ہوا تو اس وقت اپوزیشن کو شکست کا سامنا کرنا پڑا بعد ازاں اپوزیشن اس شق کے خلاف سینیٹ میں قرار داد لے کر آئی اور پیر کو ترمیمی بل منظور کروا کر ’’کھسیانی بلی کھمبا نوچے‘‘ کا کردار ادا کر رہی ہے سینیٹ میں اپوزیشن کو واضح اکثریت ہے لہذا وہ سینیٹ میں حکومت کو تگنی کا ناچ نچا سکتی ہے لیکن سینیٹ میں قائد ایوان راجہ محمد ظفر الحق اور ان کی ٹیم کے ارکان چوہدری تنویر خان ، مشاہد اللہ خان اپوزیشن کے سامنے سرنڈر کرنے کے لئے تیار نہیں وہ اپنے چند ارکان پر مشتمل سیاسی لشکر سے اپنے سیاسی مخالفین سے نبرد آزما ہو رہے ہیں لیکن پیر کو حکومتی اتحاد کے تمام ارکان ایوان میں موجود نہیں تھے ۔ اپوزیشن نے جو ترمیم منظور کرائی ہے اس کے تحت عدالتوںسے نا اہل شخص کسی سیاسی جماعت کا سربراہ نہیں بن سکے گا،کوئی بھی شخص جو پارلیمنٹ کا رکن بن سکتا ہو و ہی سیاسی جماعت کا سربراہ بن(صفحہ6بقیہ 23)
سکے گا ۔ سینیٹ سے الیکشن ترمیمی بل2017منظور ہونے کے بعدقومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا جہاں حکومت کی اکثریت ہونے کے باعث بل مسترد ہو ئے جا ئے گا ۔ وفاقی حکومت اس بل کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس میں نہیں لائے گی اگر اپوزیشن نے اصرار کیا تو اس ترمیم کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس سے بھی مسترد کر دے گی وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ بل آئین کے تحت حاصل بنیادی حقوق کے خلاف ہے،پرویز مشرف نے 2002میں بے نظیر اور نواز شریف کا راستہ روکنے کیلئے یہ قانون بنایا،پارلیمانی انتخابی اصلاحات کمیٹی میں14نومبر2014کو شق 203کے حوالے سے معاملہ آیا،شق 203متفقہ طور پر الیکشن بل میں ڈالی گئی، اس وقت پانامہ کا نام و نشان تک نہیں تھا،یہ کہنا کہ کسی شخص کو بچانے کیلئے یہ شق الیکشن بل میں ڈالی گئی غلط ہے۔ سینیٹ کے اجلاس میں پیپلز پارٹی،تحریک انصاف، جماعت اسلامی، مسلم لیگ(ق) کی جانب سے قانون الیکشن بل 2017کی شق 203میں ترمیم کرنے کا بل (انتخابات ترمیمی بل 2017)پیش کیا گیا۔ تحریک انصاف کے سینیٹر شبلی فراز نے اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے ترمیمی بل پیش کرنے کی تحریک پیش کی، سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ الیکشن 2017کی شق 203 میں ترمیم کا بل پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کچھ دن قبل حکومتی جماعت ایک ووٹ کی اکثریت سے یہ شق الیکشن بل میں شامل کرانے میں کامیاب ہو گئی تھی، جس سے اس ایوان کی بدنامی ہوئی، اس شق کو بل میں شامل کرنے کی اخلاقی وجوہات نہیں تھیں، یہ شق منظور ہونے سے پورے پارلیمنٹ پر ٹھپہ لگا،یہ شق عدالتی فیصلے کی تضحیک تھی اور گڈ گورننس پر کالا داغ تھی وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ جنرل ایوب خان کے دور میں یہ شق ڈالی گئی جس میں عدالتوں سے نا اہل شخص پارٹی سربراہ نہیں بن سکتا تھا،1962سے 1975تک یہ قانون نافذ رہا،1975میں ذوالفقار علی بھٹو نے یہ شق ختم کی اور کسی بھی شہری کو سیاسی جماعت کا سربراہ بننے کا حق دیا،1975سے 2000تک یہ قانون نافذ رہا،مگر 2002میں جنرل پرویز مشرف نے بے نظیر اور نواز شریف کا راستہ روکنے کیلئے پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ میں یہ شق ڈالی کہ جو شخص پارلیمنٹ کا رکن نہیں بن سکتا وہ کسی جماعت کا بھی رکن نہیں بن سکتا۔ زاہد حامد نے کہا کہ ملک میں انتخابی اصلاحات کیلئے 25جولائی 2014کو پارلیمانی کمیٹی بنائی گئی، اس کمیٹی نے انتخابات کے حوالے سے 8قوانین کا جائزہ لیا،14نومبر2014کو شق 203کے حوالے سے معاملہ کمیٹی میں آیا،شق 203متفقہ طور پر الیکشن بل میں ڈالی گئی، اس وقت پانامہ کا نام و نشان تک نہیں تھا،یہ کہنا کہ کسی شخص کو بچانے کیلئے یہ شق الیکشن بل میں ڈالی گئی غلط ہے، 14نومبر2014کو ہونے والے کمیٹی اجلاس کے منٹس موجود ہیں،اس وقت اس شق پر کسی نے اعتراض نہیں کیا تھا، زاہد حامد نے کہا کہ کمیٹی کی رپورٹ انتخابی اصلاحات کی مرکزی کمیٹی میں دی گئی جس کے بعد اس رپورٹ کو دونوں ایوانوں میں پیش کیا گیا جبکہ رپورٹ کو ویب سائٹ پر بھی جاری کیا گیا، اس وقت شق 203پر کسی بھی قسم کا کوئی اعتراض نہیں آیا تھا، قومی اسمبلی سے الیکشن بل منظور ہونے کے بعد سینیٹ میں پیش کیا گیا پھر بل سینیٹ کمیٹی کو بھیجا گیاسینیٹ کمیٹی میں بھی شق 203کے حوالے سے کوئی تجویز سامنے نہیں آئی۔ یہ بل آئین کے تحت حاصل بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔ چیئرمین سینیٹ نے بل متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھجوانا چاہا تو پیپلز پارٹی کے سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ بل کمیٹی کو نہ بھیجا جائے، ایوان کی رائے لے لیں اس معاملے پر بہت بحث ہو چکی ہے،بل منظور کرنے میں مزید تاخیر نہ کی جائے اور رولز معطل کر کے بل منظور کیا جائے۔ چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے کہا کہ ایوان کی ایک روایت ہے کہ جب کوئی بل پیش کیا جاتا ہے تو بل پیش ہونے کے بعد متعلقہ مجلس قائمہ کو بھیجا جاتا ہے جس کے بعد کمیٹی اس کی رپورٹ دیتی ہے وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ ہمیں بتایا جائے کہ ایسی کون سی ایمر جنسی ہے جس کی وجہ سے بل متعلقہ مجلس قائمہ کو بھجوانے کی بجائے اس کو منظور کروانے کیلئے جلد بازی کی جا رہی ہے ، قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے کہا کہ ایک عجیب روایت ڈالی جا رہی ہے،اکثریت کے بل بوتے پر روایات توڑی جا رہی ہے،یہ اس ایوان کی توہین ہے، اس طرح کا بچپنا کیا جا رہا ہے کہ چند لوگ زیادہ ہو جائیں تو وہ اپنی من مانی کرلیں، یہ سب کچھ وہ لوگ کر رہے ہیں جن کے سر کا ایک بال بھی کالا نہیں، اس طرح کی جلد بازی نہیں کرنی چاہیے سینیٹر اعظم خان سواتی نے رولز معطل کرنے کی تحریک واپس لینے سیت انکار کر دیا رولز معطل کرنے کی تحریک پیش کے حق میں 47جبکہ مخالفت میں 23ووٹ پڑے۔بل کے حق میں 49جبکہ مخالفت میں 18ووٹ ڈالے گئے یہ بات قابل ذکر ہے سینیٹ میں قائد حزب اختلاف چوہدری اعتزازاحسن سینیٹ میں اپوزیشن کی طرف سے پیش کی گئی ترمیم کے وقت ایوان میں موجود نہ تھے ان کی عدم موجودگی میں سینیٹر تاج حیدر ترمیم منظور کرانے کے لئے سرگرم رہے سینیٹ میں مسلم لیگ (ن)کے سینیٹرز مشاہد اللہ خان،پرویز رشید،غوث بخش نیازی،سینیٹر مرتضیٰ جاوید عباسی نے اپوزیشن جماعتوں کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا ہے کہ مشرف اور ضیاء ازم جیت گیا اور بھٹو ازم ہار گیا، 2018میں نواز شریف مسلم لیگ (ن)کے صدر ہوں یا نہ ہوں ان کی تصویر بھی اپوزیشن کو الیکشن نہیں جیتنے دے گی، عدالتوں کے ایوانوں میں جنگوں کے محاذوں سے زیادہ انصافیاں ہوتی ہیں،جو مکا وقت گزرنے کے بعد یاد آئے اسے اپنے منہ پر مار لینا چاہیے،اپوزیشن میں بیٹھے لوگوں نے آج ڈکٹیٹروں کی حمایت کی، پیپلز پارٹی نے ذولفقار علی بھٹو کے بنائے قانون کو مسترد کر دیا۔ سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف ملک کے سب سے مقبول رہنما ہیں،جو وہ ثابت کر چکے ہیں کہ مختلف حلقے ان کو سیاست سے نا اہل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں پیر کو حکومتی ارکان نے بار بارذوالفقار علی بھٹو کو خراج تحسین پیش کر کے پیپلز پارٹی کے ارکان کو شرمندہ کرتے رہے تحریک انصاف کے سینیٹر اعظم سواتی نے مجموعہ ضابطہ فوجداری (ترمیمی) بل 2017ئ، تحفظ صارفین اسلام آباد (ترمیمی) بل 2017ئ، اینٹی منی لانڈرنگ (ترمیمی) بل 2017ئ، ہتک عزت (ترمیمی) بل 2017ء سمیت آٹھ بل واپس لے لئے۔سینٹ نے مختلف ارکان کی طرف سے سات قراردادوں کی منظوری دیدی گئی جبکہ چار قرارداد یں نمٹا دی گئیں ، دو قراردادوں کی منظوری کا معاملہ موخر کر دیا سینیٹ میں قائد ایوان سینیٹر راجہ ظفر الحق نے کہا ہے کہ ایشیائی پارلیمانی اسمبلی سے مختلف ممالک کے ساتھ رابطے بڑھانے میں مدد ملی ہے اس فورم کو مزید موثر بنانے کی ضرورت ہے ایوان بالا میں وفاقی سرکاری ہسپتالوں ملازمین کے اوقات کار کے دوران موجودگی اور بروقت حاضری کو یقینی بنانے کے لئے بائیو میٹرک نظام نصب کرنے، ملک کے اقتصادی فوائد کے لئے حکومت بیمار یا بند ٹیکسٹائل یونٹس کی بحالی کے لئے اقدامات کرنے کے حوالے سے قراردادیں کثر ت رائے سے منظو ر کر لیں۔چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف کو امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن کے دورہ پاکستان کے حوالے سے25اکتوبر2017ء ایوان بالا میں اپوزیشن کے ارکان کو آگاہ کرنے کے لئے بلا لیا اپوزیشن نے نئے این ایف سی ایوارڈ کا اعلان نہ کرنے پر حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے معاملہ ایوان بالا کی کمیٹی آ ف دی ہول میں پیش کرنے کا مطالبہ کردیا ۔
اکثریت کے بل بوتے پر ترمیمی بل منظور اپوزیشن کا ’’کھسیانی بلی کھمبا نوچے ‘‘ کا کردار
Oct 24, 2017