تھر میں ناچتی موت اورخوفناک حقائق

Oct 24, 2018

تھر میں صحت کی ناکافی صورتحال اورغذائی قلت کے باعث بچوں کی بڑھتی ہوئی اموات کے سبب آج کل ایک بار پھر سندھ حکومت کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑرہاہے ،رواں برس غذائی قلت کے باعث چار سو سے زیادہ بچوں کی اموات ہوچکی ہیں،سندھ اسمبلی میں موجود وزیروں کی شان و شوکت اور ان کے اخباری بیانات دیکھ کر ایسا نہیں لگتا کہ ان کے حلقوں کے لوگ اس قدرنا آسودہ حال بھی ہوسکتے ہیں ،یہ تمام تر وزیر ان ہی علاقو ں سے منتخب ہوکر اپنی پرتعیش زندگی کے مزے لوٹ رہے ہیں جہاں کے لوگ خوراک ،صحت ،معیاری تعلیم سمیت دنیا کی تمام تر سہولیات سے محروم ہیں ،اس کے برعکس سندھ کے حکمرانوں اور ان کے بچوں کے پاس دنیا کی کونسی ایسی نعمت ہے جو موجود نہیں ہے۔ تھرپارکر ڈسٹرکٹ میں 6سالوں کے اندر 365لوگوں نے بیروزگاری اور بھوک سے تنگ آکر خودکشی کی یہاں 287'000خاندانوں میں 12مراحل کے اندر 50کلو مفت گندم فراہم کی گئی، بینظیر ہائوسنگ اسکیم کے تحت 500گھر مستحق لوگوں کو دیئے گئے ،تھرپارکر میں 245ڈسپینسریاں سندھ حکومت کے ماتحت ہیں جن میں صرف 31کا بجٹ جاری ہوتا ہے اور اس 31کے بجٹ کو 90ڈسپینسریوں میں بانٹا جاتا ہے ۔ تھرپارکر ڈسٹرکٹ میں گریڈ 16سے 20تک کے ڈاکٹروں کی 394پوسٹس خالی ہیں مگر موجود صرف 2گائنوکولوجسٹ ہیں ۔ تھرپارکر میں رواں ماہ مرنے والے بچوں کی تعداد 28 ہے۔ 2015میں ڈی سی تھرپارکرنے 17ممبرز جن میں سو ل سوسائٹی ، منتخب نمائندے اورصحافی بھی شامل تھے تھر ڈولپمنٹ کمیٹی بنائی جس نے تھر میں قحط کو ختم کرنے کے حوالے سے ایک ڈرافٹ تیار کرکے سندھ اسمبلی میں بھیجا مگر وہ تاحال کہیں ظاہر نہ ہوسکا ۔یہاں750آر او پلانٹس لگنے تھے جن میں صرف 450 لگ سکے ہیں جن میں 300کے قریب ناکارہ ہیں ۔ عمرکوٹ ڈسٹرکٹ کی 25یوسیز کو قحط زدہ قرار دیا گیاہے یہاں اسپتال میں 28بچے داخل ہیں اور رواں ماہ مرنے والے بچوں کی تعداد 18 ہوچکی ہے ۔یہاں سول اسپتال میں ڈاکٹروں اور ادویات کی شدید قلت کے باعث مریضو ں کو شدید پریشانیوں کا سامناہے۔ سول ہاسپٹل عمرکوٹ کا سالانہ بجٹ تقریبا ساڑھے 4کروڑ ہونے کے باوجود یہاں کوئی ایک سہولت بھی دکھائی نہیں دیتی ،یہاں آر او پلانٹس کی تعداد 10ہے جو تمام کے تمام بند ہیں ۔چھاچھرو کے عوام کی حالت بھی بالکل ایسی ہی ہے یہاں ٹوٹل450 آر پلانٹس لگنے تھے اس وقت 150لگ چکے ہیں مگر اس میں 80فیصد آراو پلانٹ ناکارہ ہیں۔سول اسپتال چھاچھرو کا بجٹ ایک کروڑ ہے میں یہاں خود وزٹ کرکے آیاہوں اس اسپتال میں اس وقت 10بچے داخل تھے اور روز 4سے 5بچے داخل ہوتے ہیں ،گو کہ چھاچھرو میں مرنے والے بچوں کی تعدادکچھ کم ہے مگر حالات اتنے ہی سنگین ہیںجتنے کے دیگر قحط زدہ علاقوں کے ہیں چھاچھرومیں گندم کی تقسیم 8فیز میں کی جاچکی ہے مگر ان میں کسی ایک مستحق کا نام بھی نہیں آتا اب باقی یہ کہاں تقسیم ہوئی یہ ان ہی لوگوں سے پوچھا جائے جو یہ ذمہ داریاں اداکرتے رہے ہیںیہاں بھی ایک سال میں مرنے والے بچوں کی تعداد 350ہے ۔ رواں ماہ مرنے والے بچوں کی تعداد 5ہے ۔ مٹھی سول اسپتال میں میں 45سے 50 بچے داخل ہیں جن میں سے روزانہ تین سے چار بچے علاج کی بہتر سہولیات نہ ہونے کے باعث مررہے ہیں۔ مٹھی سول اسپتال میں ڈاکٹروں اورادویات کی شدید قلت کی گونج سندھ اسمبلی میں بھی سنائی دی ہے میں نے خود ان تمام رپورٹوں کو سندھ کے منتخب نمائندوں اور وزیراعلیٰ کی موجود گی میں پیش کیاہے مٹھی اسپتال کا بجٹ ڈبل کرنے کا اعلان کیا گیا مگر تاحال عملدآمد نظر نہیں آیا ۔اس کے علاوہ مٹھی شہر میں بڑے آر او پلانٹ میں 22ہزار گیلن پانی جمع کرنے کا ٹینک تاحال بن نہیں سکا اس لیے شہریوں کو صاف پانی کی بجائے کڑوا پانی پلایا جارہا ہے ،رپورٹ یہ ہے کہ سندھ حکومت نے کمپنی کو بجٹ کی رقم جاری نہیں کی ہے اس لیے کمپنی نے آر او پلانٹس چلانا چھوڑ رکھے ہیںاس طرح ضلعی حکومت نے بھی بجٹ کی کمی کی وجہ سے انکار کردیا ہے ۔ مٹھی میں گندم کی تقسیم چار فیز میں 50کلو فی گھر کی گئی لیکن دیگر اضلاع کی طرح یہاں بھی متاثرین تک نہیں پہنچ سکی ہے ۔ مٹھی میں بی ایچ یو ز کی تعداد 46 ہے یعنی قحط زدہ قرار دیئے ایک ماہ سے زیادہ گزر چکاہے مگر امدادی سرگرمیاں شروع نہیں ہوسکی ہیں، جبکہ امن وامان کی صورتحال یہ ہے کہ دن دہاڑے اغوا برائے تاوان ،جھوٹی ایف آئی آر سے مزدور اور کسانوں کو ہراساں کرکے ان کی زمینوں پر قبضہ معصوم بچیوں کے ساتھ زیادتیوں کے واقعات سمیت متعدد لخراش واقعات کا ہونا معمول کی بات ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ سندھ میں بھی ابھی تبدیلی کا سفر باقی ہے گزشتہ تین دہائیوں سے مسلسل حکومت کرنے والی سندھ حکومت ان تمام معاملات کو درست کرنے میں آخر کتنا اور وقت چاہتی ہے ؟ کیا یہ تین دہائیاں کم ہیں ؟ باقی عوام خود سمجھدار ہیں ویسے تو یہ ذمہ داری سندھ حکومت کی بنتی ہے مگر خوشی کی خبر یہ ہے وزیراعظم عمران خان اور صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے بھی اس تشویشناک صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے اپنے وزرا کو سندھ میں غذائی قلت سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں جس سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ جو مسائل سندھ حکومت پورے نہ کرسکی ہے وہ وفاقی حکومت ضرور حل کرنے میں کامیاب ہوجائیگی۔

مزیدخبریں