نگران دور کے وزیر اطلاعات کے ساتھ چائے کی میز پر

ملاقات میں کئی احباب تھے۔ اسٹیٹ بنک کے سابق ایگزیکٹو ڈائریکٹر خالد سلیم، امپورٹ ایکسپورٹ کے سابق ڈی جی وحید رضا بھٹی، عالم اسلام کے اتحاد کے علم بردار منظور احمد،سیکورٹی ایکسپرٹ ڈاکٹر نعمان،فلسفے کے استاد ڈاکٹر جاوید اقبال ندیم،ایک ٹی وی چینل سے شبیر عثمانی،کالم نگار یحیٰی مجاہد۔ ڈاکٹر ندیم جو تازہ تازہ حوالات
کی ہوا کھا کے آئے تھے، پوچھنے لگے کہ آپ وزیر اطلاعات بنے کیسے۔ احمدوقاص ریاض جو کئی برسوں سے اس محفل کا حصہ ہیں اور ہر دوست کے مزاج سے ا ٓشنا ہیں ۔، مسکرا دیئے ،۔ان کا کہنا تھا کہ مجھے معلوم تھا کہ یہی سوال سب سے پہلے ہو گا اور آپ جواب سنیں گے تو حیران رہ جائیں گے۔انہوںنے بتایا کہ وہ کئی برسوں تک نیو یارک میںمقیم رہے اور وہیں کے ایک ا خبار پاکستان پوسٹ میں کالم لکھ رہے تھے۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ پاکستان پوسٹ بیرون ملک اور خاص طور پر نارتھ امریکہ کاایک مقبول ترین اخبار ہے جو امریکہ اور کنیڈا کے کئی شہروں سے بیک وقت شائع ہوتا ہے۔ اسی اخبار میں ڈاکٹرحسن عسکری رضوی بھی لکھتے تھے جن سے پہلے تو ٹیلی فون پر رابطہ رہتا تھا مگر جب سے پاکستان آگیا ہوں تو شب وروز ملنا جلنا رہا۔ ایک دن انہوںنے گھر بلایاا ور کہا کہ اگر وہ نگران وزیر اعلی بنے توا ن کی خواہش ہو گی کہ میں ان کے ساتھ وزیر اطلاعات کے طور پر کام کروں۔ یہ تھا راز جو کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ میں بھی سوچتا تھا کہ وقاص ریاض کی ہمشیرہ جمیل گجر کے ساتھ بیاہی ہوئی ہیں اور عمران ا ور بشری بی بی کا نکاح جمیل گجر کے گھر پہ ہوا، تو ا س طرح وقاص ریاض کا تعلق حکمران خاندان سے ہے۔ وزیر اطلاعات بننا کوئی مشکل نہ تھا مگر اب جو اصل کہانی سا منے ا ٓئی تو اپنے قیافے پر شرمندگی سی محسوس ہوئی۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ نگران دور بڑی خاموشی اور شرافت سے گزر گیا۔ اب کسی پر پنکچر لگانے کی تہمت نہیں لگی۔ویسے نجم سیٹھی بھی باغ وبہار شخصیت ہیں۔ ہمارے ہی قبیلے کے ایک فرد۔ ان پر پنکچرز لگانے کا الزام عقل سے ماورا ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر رضوی کا شعبہ بھی تعلیم و تحقیق کے ساتھ ساتھ لکھنے لکھانے اور بولنے سے تھا ، ان کی ذات میں مشکل ہی سے کیڑے تلاش کیئے جا سکتے ہیں۔ احمد وقاص ریاض تو سراپا شرافت ہیں۔ میںنے اپنے کالموں میں ایک دو بار ان کی چٹکی لی ۔ کالم نگار فقرہ ضائع نہیں کرتا ۔ دوست ضائع کر لیتا ہے۔ وقاص سے میری دوستی کو اٹھارہ برس بیت گئے۔ہم نے مشترکہ طور پر نیویارک سے اخبار نکالا۔ نائن الیون کی وجہ سے یہ بحران کا شکار ہوا تو انہوںنے اکیلے ہمت کی اور ایک ا خبار نکالتے رہے جو امریکہ کا پہلا ملٹی کلر اخبار تھا ورنہ تو سارے ا خبار بلیک اینڈ وائٹ تھے۔ انہوںنے ٹیکنالوجی کے شعبے میں میرے مشورے قبول کئے اور میںنے ان کی مقدور بھر معاونت بھی کی۔کالم نگار کی حیثیت سے وقاص کی اپنی الگ پہچان ہے۔ وہ مختصر لکھتے ہیں لیکن بلاغت سے کام لیتے ہیں۔ ان کے لفظ کاٹ دار ہوتے ہیں اور وہ واقعات پر سرسری تبصرہ نہیں کرتے بلکہ اپنے کالموں میں اکثر بریکنگ نیوز بھی دیتے ہیں۔ ان کے رابطوں کا سلسلہ بہت وسیع ہے اور انہیںمعلوم ہے کہ معلومات کہاں سے مل سکتی ہیں،چنانچہ اپنا وقت یونہی ضائع نہیں کرتے ۔ جس طرح عمران خان کہتے ہیں کہ وہاں جائوں گا جہاں سے ملک کے لئے کچھ ملے گا۔ اسی طرح وقاص صاحب کا شیوہ ہے کہ اسی سے بات کرتے ہیں جو کام کی بات بتا سکے۔وزیر اطلاعات ہونا مشکل کام ہے مگر انہوںنے
اپنا وقت کسی مشکل میں پھنسے بغیر گزار لیا۔ وہ حلف لینے کے بعد ہر اخباری ادارے میںگئے اور جن سے ملنا چاہئے تھا، ان سے تفصیلی ملاقاتیں کرتے رہے۔ ان کے دور میں ایک ہی بڑا وقعہ ہوا کہ لاہور بارش میںڈوب گیا۔ وہ لکشمی چوک پہنچے۔ اور کئی گھنٹے وہاںموجود رہے۔ ان کے قریب کھڑا ایک ٹی وی نمائندہ یہ تبصرے کرتا رہا کہ اس قیامت میںکوئی حکومتی اہل کار وہاں نہیں آیا۔ میڈیا کا یہ روپ انہوںنے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سنا۔ الیکشن سے پہلے وہ ہر ضلع میں گئے اور ریٹرننگ افسروں سے خطاب کر کے انہیں یقین دلا یا کہ ان کی حکومت کا کوئی لاڈلا نہیں ، اس لئے اپنے فرائض نیک نیتی اور بے دھڑک طریقے سے انجام دیں۔ نگران وزیر اطلاعات کو اپنی کوریج سے کوئی دلچسپی نہیں تھی ، وہ اخبارات اور میڈیا کے مالکان سے ملتے رہے مگر میںنے ان کی بہت کم تصویریں دیکھیں۔ انہوںنے اپنے محکمے میں بھی قطعی مداخلت نہیں کی۔ کہتے ہیں کہ انہیں بے شمار سفارشیں آتی تھیں کہ فلاں کو ڈی جی پی آر لگا دیں تو ان سفارشوں کی تعداد اور سفارشیوں کے اونچے مرتبوں سے انہیں احسا س ہو اکہ یہ عہدہ کوئی سونے کی کان ہے جس پر ہر کوئی قبضہ جمانا چاہتا ہے۔مگر کیا مجال کہ انہوںنے کسی سفارش یا دبائو کو قبول کیا ہو۔وزیر اطلاعات اپنے منصبی فرائض کے اعتبار سے حکومتی ترجمان بھی ہوتا ہے مگر وقاص ریاض کو یہ کام بھی نہ کرنا پڑا کیونکہ خود وزیراعلیٰ ڈاکٹر حسن عسکری رضوی ہر میڈیا پرسن کی رسائی میں تھے ا ور جس کو جو معلومات درکار ہوتیں،براہ راست وزیر اعلی سے رابطہ کر لیتے۔ اس طرح وقاص صاحب کسی پھڈے میں نہیں پڑے۔ ایک بڑا واقعہ نواز شریف کی وطن واپسی کا تھا۔ اس کا تعلق وزیر داخلہ سے بنتا تھا، اس لئے پریس بریفنگ میں وقاص ریاض بیٹھے ضرور مگر ساری بات شوکت جاوید ہی نے کی۔نگران حکومتیں عام طور پر افسر شاہی کے تبادلوں کے شوق میں مبتلا ہوتی ہیں مگر وقاص ریاض نے کہا کہ ہم نے صرف مہا کرپٹ لوگوں پر ہاتھ ڈالا یا شاہ سے زیادہ شاہ کے وفا داروں کوان کی سیٹوں سے ہٹایا ۔صرف میاں شہباز کے چہیتوں کو ہی نشانہ ہی نہیں بنایا ۔یہی وجہ ہے کہ پنجاب سنسر بورڈ میں شعیب بن عزیز آج بھی کام کر رہے ہیں۔منظوراحمد نے پوچھا کیا کسی کرپٹ کا نام بتائیں گے ۔ تو وقاص ریاض نے ایک نام لیا جس پر وحید رضا بھٹی نے قہقہہ مارا کہ وہ تو میرا شاگرد ہے ا ور ایک پائی تک نہیں چھوڑتا۔اس پر پھر قہقہہ گونجا کہ کیسا استاد ملا۔خالدسلیم نے پوچھا کہ کوئی ایسے دو تین کام بتایئے جو آپ کرنا چاہتے تھے مگر محدود وقت کی وجہ سے ان میں ہاتھ نہیں ڈالا۔ وقاص ریاض اس سوال کا جواب تو گول کر گئے مگر انہوںنے کہا کہ ا س وقت جو کچھ ہو رہا ہے اور جس انداز میںہو رہا ہے، اس پر وہ مشورہ ضرور دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم پچاس لاکھ گھر بنانا چاہتے ہیں مگر دوسری طرف غریب بستیوں کو گرا رہے ہیں ۔کیا ہی ا چھا ہوتا کہ وہ ان کے مکینوں کو پیش کش کرتے کہ وہ معقول رقم دے کر ان گھروں کے مالکانہ حقوق حاصل کر لیں۔ اس طرح یہ گھر بھی ان کے پچاس لاکھ کی گنتی میں شامل ہو جاتے مگر اب تو ہر طرف داد فریاد کے لئے لوگ تڑپ رہے ہیں۔اور حکومت کی بد نامی ہورہی ہے کہ ا س نے کچی بستیوں والوں پر ظلم کی ا نتہا کر دی۔ یہ مفت کی بدنامی ہے حالانکہ اسی کام کو احسن طریقے سے کیا جاتا تو مفت میں کارنامہ بن جاتا۔ دوسرے یہ حکومت مہنگائی کا کوئی سد باب نہیں کر رہی جس کی وجہ سے عوام میںتیزی سے غیر مقبول ہو رہی ہے۔ انہوںنے کہا کہ بطور وزیر اطلاعات وہ سستے بازاروں پر چھاپے مارتے تھے اور پھر دیکھا دیکھی مجسٹریٹوںنے بھی اس مسئلے کی طرف دھیان دیا جس کی وجہ سے نگران دور میںمہنگائی کے مسئلے نے سر نہیں اٹھایا۔ نیک نامی سے نگران دور گزارنے پر ہم سب نے انہیںمبارکباد پیش کی اور انہوں نے جوابی چائے کی دعوت دے دی۔

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...