پاکستان کے کھلاڑی کامیابیوں کے بجائے ناکامیوں اور لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے خوب خبروں میں رہتے ہیں۔ قومی ٹیم کے تازہ واقعہ کو ہی دیکھ لیں اولمپئین محمد ثقلین ٹیم کے کوچ ہیں وہ اپنے ہیڈ کوچ و مینجر حسن سردار سے الجھے ایسا الجھے کہ انہیں ٹورنامنٹ کے دوران ہی وطن واپس بھجوا دیا گیا ہے۔ ٹورنامنٹس کے دوران پلئیرز مخالف ٹیموں کو شکست دینے کے لیے الجھتے ہیں اور ان سے لڑتے ہیں ہمارے شہزادے ہیں کہ آپس میں ہی لڑتے رہتے ہیں۔ ان کی ساری توجہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے پر رہتی ہے یہی وجہ ہے کہ کامیابی ان سے دور ہی رہتی ہے۔ کہیں ہاکی اولمپئنز آمنے سامنے ہیں تو کہیں ہیڈ کوچ اور کوچ آمنے سامنے ہیں۔ اس ساری مشق کا نتیجہ یہ ہے پاکستان ہاکی کو دنیا بھر میں شرمندگی کا سامنا ہے۔ آج استاد محترم مرحوم سید سلطان عارف اور بازید خان برکی زندہ ہوتے تو دیکھتے ان کے پسندیدہ ہاکی کھیل کی کیا حالت ہے۔ مرحوم منیر ڈار کو تو کئی سال پہلے اندازہ ہو گیا تھا کہ بازی الٹ چکی ہے اور اب باتوں سے کام نہیں بنے گا وہ جاتے جاتے ایک اکیڈمی قائم کر گئے تھے آج ڈار اکیڈمی اپنے حصے کا کام کر رہی ہے۔ اولمپئین توقیر ڈار اپنے والد کی قائم کردہ اکیڈمی کی سرپرستی کر کے اپنا فرض نبھا رہے ہیں۔ لگتا ہے اب انہیں ایک اور بھاری ذمہ داری ملنے والی ہے ہو سکتا ہے آنے والے دنوں میں وہ اپنے قریبی دوست حسن سردار کے ساتھ قومی ٹیم کی کوچنگ کرتے دکھائی دیں۔ ماضی میں انہوں نے پی ایچ ایف کے صدر خالد سجاد کھوکھر کی پیشکش پر ذاتی مصروفیات کی بنا پر معذرت کر لی تھی کیا وہ حسن سردار کو انکار کر پائیں گے۔ اگر لڑائی جھگڑوں کی بات کریں تو ہماری قومی ہاکی ٹیم کے کھلاڑی تنازعات میں کسی سے کم نہیں ہیں ایشین گیمز میں جانے سے پہلے پلئیرز نے سٹیڈیم میں کھڑے ہو کر کہا کہ ہمیں ڈیلی الاونس نہ ملے تو ہم نہیں جائیں گے ڈیلی الاونس تو مل گئے لیکن ہدف حاصل نہ ہو سکا۔ فیڈریشن کے سیکرٹری جنرل اولمپئین شہباز احمد سینئر کہتے ہیں کہ ہاکی کو بدنام ہاکی والوں نے ہی کیا ہے۔ کیا ہاکی کو ٹھیک ہاکی والے کریں گے یا اس کام کے لیے باہر سے کسی کو بلانا پڑے گا۔ لڑائیوں کا ذکر ہے تو ویمنز فٹبال چیمپئن شپ کے ایک میچ میں لڑکوں کی لڑائی بھی دلچسپی سے خالی نہ تھی حالانکہ جن حالات میں یہ چیمپئن شپ ہو رہی ہے لڑکیوں کی لڑائی پاکستان فٹبال فیڈریشن سے بنتی ہے۔ فٹبال فیڈریشن کے سیکرٹری احمد یار لودھی کہتے ہیں کہ ملک کے کئی حصوں میں ناہموار میدان پر فٹبال کھیلا جاتا ہے انہوں نے یہ دلیل وویمنز فٹبال چیمپئن شپ میں نامناسب حالات پر پیش کر کے اپنے خلاف چارج شیٹ خود ہی پیش کر دی ہے۔کیا پاکستان بھر میں فٹبال کے انتظامات کو بہتر بنانا پی ایف ایف کے سیکرٹری کی ذمہ داری نہیں ہے۔ ملک میں کسی بھی جگہ اگر فٹبال کے لیے بنیادی سہولیات موجود نہیں ہیں تو کیا فیڈریشن کے سیکرٹری کی ذمہ داری نہیں کہ وہ پلئیرز کو سہولیات فراہم کریں۔چیمپئن شپ میں شریک پلیئرز کا شکوہ ہے کہ میدان اچھا نہیں ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی اس حوالے سے آواز اٹھائی گئی ہے۔ رہائش کے انتظامات کے حوالے سے بھی شکایات ہیں۔ پنجاب فٹبال ایسوسی ایشن کے صدر سردار نوید حیدر خان کہتے ہیں کہ بہت ساری چیزوں کو دیکھنے کے بعد وینیو کا انتخاب کیا گیا ہے۔
ایک جھگڑا کرکٹ والوں کا شروع ہونے کو ہے محکمہ جاتی کرکٹ یا علاقائی کرکٹ اس حوالے سے آئندہ بات ہو گی۔