56کمپنیوں میں ”صاف پانی کمپنی“(آخری حصہ)

یہ وہی چیف ایگزیکٹو آفیسر صاف پانی کمپنی کیپٹن (ر) عثمان ہیں جن کے بارے میں رواں سال اپریل میں کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے تھے کہ پنجاب حکومت کے اپنے محکمے موجود ہونے کے باوجود ایسی کمپنی کیوں بنائی گئی؟ چیف جسٹس نے کیپٹن ریٹائرڈ محمد عثمان سے سرکاری نوکری کا ریکارڈ طلب کیا، جس پر انہوںنے بتایا کہ وہ 2000ءسے سروس میں ہیںاور سندھ میں اسسٹنٹ کمشنر ، ڈی ڈی او، سیکرٹری داخلہ گلگت بلتستان، سیکرٹری ورکرز ویلفیئر بورڈ کے عہدوں پر تعینات رہ چکے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سابق تجربے کی روشنی میں آپ کا صاف پانی سے کیا تعلق ہے؟ آپ نے ابھی اس میں کیا کیا ہے ؟چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ میں کیا خوبیاں ہیں جو پنجاب حکومت نے آپ کو اس کمپنی میں لگا دیا ہے اور 14 لاکھ روپے تنخواہ دی جارہی ہے؟ بلٹ پروف گاڑیاں دی جا رہی ہیں، اس وقت آپ کونسی گاڑی استعمال کر رہے ہیں ؟ کیپٹن ریٹائرڈ محمد عثمان نے بتایا کہ 2 فارچونر گاڑیاں بلٹ پروف کروانی تھیں تا ہم سپریم کورٹ کے حکم کے بعد بلٹ پروف نہیں بنوائی گئیں ، ایک فارچونر گاڑی میرے زیر استعمال ہے۔
مجھے اس حوالے سے چیف جسٹس آف پاکستان کو داد دینے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ اُن کے پاس معلومات کا حیران کن ذخیرہ ہوتا ہے۔ انہوں نے صاف پانی کمپنی کے موجودہ CEO کیپٹن عثمان کو یہ بھی بتا کر حیران کر دیا کہ انکے ٹیکنیکل آفیسر کی اس کمپنی کے متوازی پرائیویٹ کمپنی ہے جس کا نام واٹر 2000 ہے اور وہ ٹیکنیکل آفیسر کمپنی سے آٹھ لاکھ روپے ماہوار تنخواہ لے رہے ہیں۔ اس طرح سابق CEO نے بتایا کہ بورڈ آف ڈائریکٹرز میں اکثریت ایسے افراد کی ہے جن کی اپنی کمپنیاں ہیں اور وہ سب کنٹریکٹ کیلئے بڈنگ میں بھی شامل ہوتے ہیں۔ آج ابن خلدون کا قول درست دکھائی دیتا ہے کہ جب حکمران حکومت کے ساتھ کاروبار بھی کریں تو پھر ریاست اور ذاتی مفادات کا ٹکرا¶ ضرور ہوتا ہے اورصاف پانی کمپنی اس کی ایک چھوٹی سی مثال ہے۔
خیرواپس آتے ہیں صاف پانی کمپنی کی ٹائم لائن پر کہ کب کب کس کس نے کرپشن پر ہاتھ صاف کیے۔ 2017 کے اختتام پر مالی سال 2017-18کے لئے صاف پانی کمپنی کے بجٹ میں سے دس ارب روپے نکال کر لاہور اور دیگر بڑے اضلاع میں سڑکوں کی تعمیر پر لگا دیئے گئے۔اس دوران ڈوبتے منصوبے مشہور زمانہ ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ جو اب پاکستان ایڈمنسٹریٹر گروپ کہلاتا ہے کے افسر وسیم اجمل کے حوالے کردیاگیا۔موصوف نے 12جنوری 2017ءکو دو روزہ بین الاقوامی سیمینار لاہور کے پانچ ستارہ ہوٹل میں کرایا جس پر تین کروڑ روپے خرچ کئے گئے لیکن اس منصوبہ کے لئے غیرملکی سرمایہ کے حصول کا منصوبہ ناکامی سے دوچار ہوا۔مطلوبہ نتائج دینے میں ناکامی پر اس کمپنی کے پانچ سی ای اوز کو ہٹا دیا گیا۔جن میں وسیم مختار ، فراست اقبال، وسیم اجمل، خالد شیر دل اورنبیل جاوید شامل ہیں اور وسیم اجمل سابق چیف ایگزیکٹو آفیسر صاف پانی کمپنی ، سیدہ شبنم نجف سابق چیف کنٹریکٹ اینڈ پروکیورمنٹ ، کرنل ریٹائرڈ طاہر مقبول سابق جنرل منیجر پروکیورمنٹ اور دیگر افسران کو معطل کردیا۔ بعد ازاں محکمہ اینٹی کرپشن نے تحقیقات کیں اور 22 افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔25 اکتوبر 2017 کو درج کی گئی ایف آئی آر میں CEO وسیم اجمل، سابق چیف ایگزیکٹو افسر سیدہ شبنم نجف ، جنرل منیجر پروکیورمنٹ کرنل ریٹائرڈ طاہر مقبول کنسلٹنٹ کمپنیاں اور دیگر عہدیدار شامل تھے۔ مقدمے میں ان افراد پر الزام عائد کیا گیا کہ 121 ارب کے منصوبے کی لاگت 190 ارب 40 لاکھ تک پہنچا دی گئی۔ اسی مقدمے کی بنیاد پر کمپنی کے ایک ملازم کو گرفتار کیا گیا، جبکہ باقی ابھی بھی قانون کی گرفت سے باہر ہیں۔صاف کمپنی کے سابق چیئرمین، سیکرٹری پبلک ہیلتھ خرم آغا اور دیگر افسران نے تھائی لینڈ، دبئی اور چین میں روڈ شوز کے نام پر دورے کئے۔ جس پر کروڑوں روپے خرچ ہوئے۔پنجاب اسمبلی کے ارکان نے بھی اس بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے۔2 نومبر 2017 کو پنجاب حکومت نے صاف پانی کمپنی میں کرپشن کا اعتراف کیا اور تحقیقات کا اعلان کیا۔
صاف پانی کمپنی میں ایک نہیں، کئی بے ضابطگیاں سامنے آتی رہیں۔ اس کمپنی کے افسران نے چارج پہلے سنبھالا جبکہ نوٹی فکیشن بعد میں جاری ہوا۔ میرٹ نظر انداز کر کے من پسند کمپنی کو کنسلٹنسی دی گئی۔ تمام معاملات میں پیپرا اور رولز کی دھجیاں اڑائی گئیں، اس ضمن میں، 84 کروڑ کی مبینہ کرپشن کے معاملات بھی سامنے آئے۔ واٹر پلانٹس 20 سے 35 فیصد مہنگے لگائے گئے ، ان پلانٹس کی استعداد کار کب تک ہے ، یہ بھی نہیں بتایا گیا ۔ اگر یہاں ملزم انجینئر قمر الاسلام جنہیں جنرل الیکشن سے پہلے گرفتار کیا گیا تھا بھی اس کار خیر میں آگے آگے پائے گئے موصوف پر 84واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس کا ٹھیکہ غیر قانونی طورپر مہنگے داموں دینے کا الزام ہے۔واٹر پلانٹس میں 56ریورس اساماسز پلانٹس تھے جبکہ 28الٹرا فلٹریشن پلانٹس شامل ہیں۔واٹر پلانٹس چار تحصیلوں میں لگائے جانے تھے، جن میں حاصل پور، منچن آباد، خان پور اور لودھراں شامل ہیں۔ملزم انجینئر قمرالسلام راجہ نے بڈنگ کے کاغذات میں مالی تخمینہ بڑھا کر ظاہر کیا،ملزم کی جانب سے کے ایس بی پمپس نامی کمپنی کو مہنگے داموں ٹھیکہ دیا گیا۔
اب جبکہ اس کمپنی کی کرپشن کے تمام کیسز عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ شہباز شریف سمیت کئی بیوروکریٹس سے تفتیش جاری ہے،شہباز شریف اور سابق سی ای او وسیم اجمل آمنے سامنے ہیں دونوں ایک دوسرے پر الزامات لگا رہے ہیںشہباز شریف نے کہا پراجیکٹ کی لاگت118 ارب سے191ارب ہونے کا ذمہ دار وسیم اجمل ہے۔ وسیم اجمل نے 37 تحصیلوں میں صاف پانی کمپنی کا ٹھیکہ ایسی کمپنیوں کو دیا جن کو تجربہ ہی نہیں تھا۔ وسیم اجمل نے کے ایس بی کمپنی سے 20فیصد منافع کا موقع ضائع کیا۔دوسری طرف وسیم اجمل اس سارے عمل کا قصور وار شہباز شریف کو ٹھہرا رہے ہیں۔ حالانکہ اُس وقت اجمل نے یہ کہتے ہوئے منصوبے کو بچانے کی عاجزانہ کوشش کی کہ ٹھیکیدار زہریلے ذرات سے پاک پانی کے ٹریٹمنٹ پلانٹس لارہے تھے اور شمسی توانائی کا انتظام کر رہے تھے۔ وزیرِ اعلیٰ نے ان کی بات یہ کہتے ہوئے رد کردی تھی کہ یہ پورا منصوبہ پرانے طریقہ کار پر مشتمل ہے جسے کسی دور میں پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ڈپارٹمنٹ نے بھی اختیار کیا تھا، وہی طریقہ جسے وہ پنجاب صاف پانی کمپنی کے ذریعے ختم کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے اجمل کو حکم دیا کہ سب کچھ دوبارہ سے شروع کیا جائے اور دنیا میں موجود پانی کی بہترین کمپنیوں کے ذریعے جدید اور ماڈرن طریقہ کار حاصل کیا جائے اور اختیار کیا جائے۔اُس وقت دونوں کی ہم آہنگی دیکھ کر یہی لگ رہا تھا کہ منصوبے کو جان بوجھ کر التواءمیں ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
بہرکیف اس پوری اندرونی گرما گرمی کا بڑا ہی بدترین اثر پنجاب کے لوگوں پر پڑا جو صاف پانی کے لیے ترس رہے ہیں۔ پنجاب صاف پانی کمپنی کو قائم ہوئے 5 برس سے زائد عرصہ گزر چکا ہے۔ صاف پانی کی فراہمی کی اسکیموں کی تعمیر کے لیے کمپنیوں کو مدعو کرنے اور انہیں شارٹ لسٹ کرنے کے مرحلے کو شروع ہوئے 30 ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ کنسلٹنٹ فیس کے طور پر لاکھوں ڈالرز ادا کیے جاچکے ہیں۔ لاکھوں روپے بیرون ملک دوروں اور روڈ شوز پر خرچ کیے جاچکے ہیں۔ کروڑوں روپے اسٹاف کی تنخواہوں اور اس کے ساتھ ساتھ دفتر اور انتظامی لاگت پر خرچ کیے جاچکے ہیں۔ اب تک صاف پانی کمپنی کے ریکارڈ کے مطابق مجموعی طور پر 3 ارب ڈالر سے تھوڑا سا کم خرچہ ہوچکا ہے، لیکن کمپنی کے پاس اتنی رقم کے بدلے میں دکھانے کو کچھ بھی نہیں ہے۔سابقہ پنجاب حکومت کے ذرائع اس کا ذمہ دار کمپنیوں کو ہینڈل کرنے کے وزیر اعلیٰ کے انوکھے طرزِ انداز کو ٹھہراتے ہیں۔ ابھی کام ہو رہا ہوتا کہ وہ مقاصد بدل دیتے اور ابھی منصوبہ دستاویزی اور تیاریوں کے مراحلے سے آگے بڑھا ہی نہیں تھا کہ بیرونی کنسلٹنٹ کی جانب سے جائزوں اور مانیٹرنگ کی ایک کے بعد دوسری تہہ چڑھتی چلی گئی۔ایسا کرنے کے پیچھے نہ جانے اُن کے کیا مقاصد ہوتے تھے مگر یہ بات تو طے ہے کہ بے ضابطگیاں تو عروج پر تھیں، اور میرے خیال میں اس بار بیل منڈھے چڑھنی چاہیے تاکہ کرپشن کرنے والوں کا کوئی نہ کوئی نتیجہ ضرور نکلے اور انہیں واقعی سزا ملے جو دوسرے کے لیے عبرت بن جائے!

ای پیپر دی نیشن