بدھ ‘ 14؍ صفر المظفر1440 ھ ‘ 24اکتوبر 2018ء

مسلم لیگ (ن) والے احتجاج سیکھنے کیلئے پی ٹی آئی سے رابطہ کریں: فیاض الحسن چوہان
بات تو سچ کی ہے صوبائی وزیر اطلاعات نے واقعی مسلم لیگ (ن) والوں کا پھسپھسا سا احتجاج دیکھ کر تو سب حیران کم پریشان زیادہ ہیں کہ نہ قومی اسمبلی میں کوئی رنگ جم سکا نہ صوبائی اسمبلی میں سوائے اس کے کہ ’’کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے‘‘۔
اب یہ بارہ آنے کے ٹوٹے ہوئے گلاس کی قیمت حکومت والے اپوزیشن یعنی مسلم لیگ (ن) والوں سے وصول کرنے پہ تلے ہوئے ہیں۔ اب مسلم لیگ (ن) والوں کو چاہئے کہ وہ صوبائی وزیر اطلاعات کی بات پر کان دھریں اور غور سے سنیں وہ کیا فرما رہے ہیں۔ عقل کی بات جہاں سے ملے گرہ میں باندھ لینی چاہئے۔ جیسے کشمیری کشمیری کی گردان آزاد کشمیر والوں نے گرہ سے باندھ لی ہے اور وہاں آج کل فیاض الحسن چوہان کیخلاف خوب محاذ گرم ہے۔ اگر مسلم لیگی کند ذہن نہ ہوتے تو وہ خود ہی پی ٹی آئی کی سابقہ بطور اپوزیشن احتجاجی سیاست کے اسرار و رموز سیکھ لیتے۔ مگر یہ ازلی ڈرائنگ روم کی سیاست کرنے والوں کے ہاتھ آچکی ہے اور اشرافیہ کے لئے سب سے مشکل کام عوامی سطح پر آکر گلی کوچوں میں مار کھانا ہوتا ہے۔ اس لئے مسلم لیگ (ن) والے بھی فی الحال اسمبلی کے اندر اور سیڑھیوں پر بیٹھ کر واویلا کرنے کو ہی احتجاج سمجھ رہے ہیں۔ جس پر لوگ ہنس رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) والوں کو تو فیاض الحسن کا مشکور ہونا چاہئے کہ وہ ان کو مفت مشورے دے رہے ہیں۔ ورنہ کون سقراط ہو گا جو اپنی ہی حکومت کیخلاف تحریک احتجاج کامیاب بنانے کے لئے حزب اختلاف والوں کو مشورے دے یہ حقیقت میں جنون والوں کا ہی حوصلہ جو ببانگ دہل کہہ رہے ہیں
ادھر آ ستمگر ہنر آزمائیں
تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں
٭…٭…٭
گورنر سندھ کا تھر کے بعد سکھر میں بھی شاہانہ پروٹوکول
ایک طرف حکومت سادگی اور عوامی انداز اپنانے پر زور دے رہی ہے شاہانہ حکومتی اخراجات اور پروٹوکول ختم کر رہی ہے۔ اس کے برعکس سندھ کے گورنر نے ان تمام باتوں کی طرف سے کان بند کر رکھا ہے یا وہ اپنے آپ حکومت سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ گذشتہ دنوں گورنر سندھ تھر کے دورے پر گئے جو مصائب اور آلام میں ڈوبا سندھ کا وہ بدنصیب خطہ ہے جہاں ہر موسم میں بھوک، ننگ، بیماری اور موت کی فصل اگتی ہے۔ اس خستہ حال علاقے کے دورے پر گورنر سندھ کی شاہی سواری جس پروٹوکول کے ساتھ آئی اس نے تو مغلیہ دور کی یاد تازہ کر دی۔ کیونکہ صاحب سلامت کے لئے گاڑی سے لے کر ہسپتال یا جن جن جگہوں کا انہوں نے دورہ کرنا تھا قالین بچھائے گئے کہ کہیں صاحب سلامت کے پائے نازک کو تکلیف نہ ہو۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں کے مرد وزن اور بچے برہنہ پا پھرتے ہیں۔ اسے ہم ریڈ کارپٹ استقبال بھی کہہ سکتے ہیں۔ ہسپتالوں میں بچے بھوک اور ادوایات نہ ملنے کے سبب مر رہے ہیں، گندم فراہمی مراکز میں گھپلے ہو رہے ہیں، پانی کی فراہمی کے ڈرامے جیسے مراکز ہر جگہ دکھائے جا رہے ہیں۔ ان حالات میں تو گورنر سندھ کو چاہے تھا کہ وہ اچانک خاموشی سے چھاپہ مار قسم کا دورہ کرتے تا کہ اصل حقائق سامنے آتے۔ جس کے بعد وہ سندھ حکومت کی کلاس لیتے مگر وہ تو جس تام جھام کے ساتھ نکلے اس پر ماہر فنکار انتظامیہ نے تو پہلے ہی ہر جگہ سب ٹھیک کا بندوبست کر لیا ہو گا اور گورنر صاحب فرحاں و شاداں واپس آئے ہوں گے کہ سندھ کے اندر تھر میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے۔ جس پر وہاں کی انتظامیہ نے سکون کا سانس لیا ہو گا۔
٭…٭…٭
سرحدی علاقوں میں بھارت نے مونجی کی باقیات جلانا شروع کر دیں
ابھی حکومت پنجاب نے سموگ نہ ہونے کے سبب اینٹوں کے بھٹوں کو بند کرنے کی مہلت میں توسیع کی ہی تھی کہ بھارت کے پیٹ میں مروڑ کے آثار پیدا ہونے لگے ہیں۔ بھارت نے پاکستانی سرحدی علاقوں میں اطمینان کی کیفیت بھانپتے ہی اپنے سرحدی علاقوں میں مونجی کی باقیات کو قبل از وقت ہی جلانے کا آغاز کر دیا ہے۔ اس طرح ایک بار پھر پاکستان کے سرحدی علاقوں کے قریب بڑے شہروں میں سموگ (دھند) کا راج شروع ہونے کو ہے۔ حکومت پنجاب نے بھی اگرچہ احتیاطی تدابیر اختیار کی ہوں گی مگر ظاہر ہے بھارت جا کر وہ آگ بجھا تو نہیں سکتی۔ اسی طرح بھارت نے جان بوجھ کر سرحدی علاقوں میں تھرمل کول پاور پراجیکٹس بھی لگائے ہیں۔ ان سے اٹھنے والا دھواں بھی پاکستان میں سموگ اور بیماریوں کا باعث بن رہا ہے۔ اب ہم لاکھ بھٹے بند کریں، کسانوں کو مونجی کی باقیات جلانے سے روکیں اس سے کیا ہو گا۔ بھارت کی طرف سے شروع کی گئی اس ماحولیاتی جنگ سے نمٹنے کے لئے ہمارے ماہرین کو بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے رکھ کر بیٹھنے کی بجائے فوری ایکشن والے پروگراموں پر عمل کرنا چاہئے تاکہ جدید ٹیکنالوجی اور مہارت کے ساتھ ہم یہ ماحولیاتی آلودگی والی جنگ بھی بھارت سے جیت سکیں اور وہ اپنی مونجی کی جلائی آگ میں خود جل مرے۔ سموگ کی وجہ سے دو تین ماہ پنجاب اور سندھ میں زندگی متاثر ہو جاتی ہے۔ صرف یہی نہیں امراض بھی سر اٹھاتے ہیں یہ سب کچھ بھارت کی شرارت کی وجہ سے شدت اختیار کر لیتے ہیں اس لئے اس کا تدارک ضروری ہے۔
٭…٭…٭
ڈیموں سے غافل رہنے والا واپڈا قومی مجرم ہے، کالاباغ ڈیم متنازعہ منصوبہ ہے: اسفندیار
تو جناب عالیٰ پھر یہ بھی ذرا بتائیں کہ کالا باغ ڈیم کیا کسی سرکس کا نام ہے یا تھیٹر کا جس پر آپ نے متنازعہ ہے متنازعہ ہے کی رٹ لگا رکھی ہے۔ بے شک واپڈا کی نااہلی ہے کہ وہ دیگرچھوٹے بڑے ڈیم اب تک کیوں نہ بنا سکا۔ اگر وہ قومی مجرم ہے تو کالا باغ ڈیم کی مخالفت کرنے والے بھی تو قومی مجرم ہی ہیں۔ ہم انہیں قومی ہیرو تو قرار نہیں دے سکتے۔ واپڈا اور آپ دونوں کی مہربانیوں کی وجہ سے ڈیموں کی تعمیر کا کام شروع نہیں ہو سکا۔ اگر مخالفین نے یہ نوٹنکی نہ رچائی ہوتی تو کالا باغ ڈیم کب کا بن چکا ہوتا اور ملک میں توانائی کے بحران کا خاتمہ ہو چکا ہوتا۔ مگر وطن دشمنوں کو یہ منظور نہیں۔
اب بھی اسفندیار ولی نہایت مہارت سے اپنی گردن بچا کر ڈیموں کی تعمیر میں تاخیر کی ذمہ داری واپڈا پر ڈال رہے ہیں۔ دیکھتے ہیں اب واپڈا میں کون شمس الحق جیسا مرد دانا اٹھتا ہے جو ڈیم کے مخالفین کو کھل کر بے نقاب کرکے اور ان کی گوشمالی کرے۔ خواہ اس کے صلے میں اسے اپنی نوکری سے ہی کیوں نہ ہاتھ دھونا پڑے۔ کالا باغ ڈیم کوئی گڑا مردہ نہیں یہ ایک زندہ حقیقت ہے جسے اکھاڑہ نہیں سامنے لایا جانا ضروری ہے تاکہ دوستوں اور دشمنوں کا پتہ چل سکے۔

ای پیپر دی نیشن