پیر طریقت رہبر شریعت حضرت مولانا حامد علی خانؒ

آپ ہندوستان کی ریاست رامپور میں پیدا ہوئے۔ دینی تعلیم مدرسہ عالیہ رام پور سے حاصل کی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد درس و تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا۔ حضرت مولانا سید حسن شبرؒ کی رحلت کے بعد مدرسہ خیر المعاد تنظیمی مسائل سے دوچار تھا۔ حاجی اﷲ دین اور دیگر رہنما حضرت مولانا حامد علی خان کو روہتک لانے میں کامیاب ہو گئے۔ مدرسہ میں آپ نے نہایت جانفشانی سے کام کیا۔ اس مدرسہ کے پہلے عالم فاضل راقم کے والد قاری سید وضاحت حسن تھے۔ آپ اخلاق کے لحاظ سے بہت اونچے مرتبے پر فائز تھے۔ مسلمانوں میں تو آپ مقبول تھے ہی لیکن ہندو بھی آپ کی بہت عزت کرتے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد آپ روہتک چھوڑ کر واپس رام پور تشریف لے گئے اور اپنی پرانی درس گاہ مدرسہ عالیہ رامپور میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا۔ وہاں کے لوگ بھی آپ کے بہت گرویدہ تھے لیکن روہتک والے مریدوں کو آپ کی یاد بہت ستاتی تھی۔ وہ آپ سے رابطے میں رہتے تھے اور آپ سے گاہے بگاہے مطالبہ کرتے رہتے تھے کہ رامپور چھوڑ کر ملتان آ جائیں۔ آپ نے اپنے مریدوں کا کہنا مان لیا اور رامپور چھوڑ کر ملتان تشریف لائے اور یہاں پر اندھی کھوئی میں چوک ملک مراد میں رہائش پذیر ہو گئے اور مدرسہ خیر المعاد کی دوبارہ سے باگ ڈور سنبھال لی۔ آپ کے علم و فضل سے متاثر ہو کر پنجاب کے لوگوں نے خصوصاً اورپاکستان کے لوگوں نے عموماً اس مدرسے میں اپنے بچوں کو داخلہ دلانا شروع کر دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کا شمار ملک کے اہلسنت کے بڑے بڑے اداروں میں ہونے لگا۔روحانی فیض کا یہ عالم تھا کہ کوئی شخص ایک مرتبہ آپ کی زیارت کر لیتا تو اس کا دل چاہتا بار بار آپ کی خدمت میں حاضری دے۔ آپ کے تین صاحبزادے اور چار صاحبزادیاں تھیں۔ ان تمام کی پیدائش رامپور کی تھی۔ راقم نے آپ کے جانشین قاری محمد میاں اور قاری ناصر میاں کے ساتھ زانوئے تلمند طے کئے۔ آپ کی ذات علم کا ایک روشن مینار تھی۔ آپ کے درس دینے کا انداز اتنا دلکش تھا کہ الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ آپ سے جس نے بھی علم حاصل کیا آج تک اس کے ذہن میں وہ منظر نہیں بھولتا۔
آپ کی شخصیت کا دلکش پہلو یہ تھا کہ آپ نہ صرف اہلسنت دیگر مسالک کے لوگوں میں یکساں مقبول تھے۔ آپ نے مختصر عرصے میں نہ صرف ملتان بلکہ پاکستان کے بڑے بڑے شہروں میں اپنی شرافت اور روحانیت کی دھاک بٹھا دی جس کا اثر یہ ہوا کہ لوگ چاہنے لگے کہ آپ سیاست میں حصہ لیں تاکہ ملک کو ایماندار قیادت نصیب ہو۔ آپ نے شروع میں اس سے انکار کیا لیکن شاہ احمد نورانیؒ اور دیگر مسالک کے رہنماؤں کے بہم اصرار پر نظام مصطفیؐ اور قیام مصطفیؐ کیلئے سیاست میں آ گئے۔ آپ فرمایا کرتے تھے فقیروں کو وزارت اور اقتدار کی کوئی ہوس نہیں ہوتی لیکن ملک سے بے ایمانی اور کرپشن دور کرنے کیلئے آگے آنا چاہئے تاکہ روز قیامت اﷲ تعالیٰ ان سے پوچھے گا کہ تم نے غلط لوگوں کا راستہ روکنے کی کوشش کیوں نہیں کی۔ تمام سیاسی جماعتوں نے مل کر آپ کو ذوالفقار علی بھٹو کے مقابلے میں ایم این اے کی سیٹ پر کھڑا کر دیا اور آپ نے بھٹو جیسی عالمگیر شہرت رکھنے والے شخص کو مات دے دی۔ الیکشن میں لاتعداد جگہ پر دھاندلی کی گئی جس کی پاداش میں عوامی اتحاد کے پلیٹ فارم سے جس کی قیادت پیر آف پگارا کر رہے تھے۔ نظام تحریک مصطفیؐ چلائی گئی اور تمام دنیا نے دیکھا کہ وہ شخص جسے کسی بھی عہدے کا لالچ نہیں تھا ایسا عظیم رہنما بن کر ابھرا کہ تمام دنیا کے نشر و اشاعت کے ادارے پکار اٹھے کہ پیر طریقت رہبر شریعت مولانا حامد علی خان وقت کے بے تاج بادشاہ ہیں اور ملتان کے لوگ ان کے اشارے کے منتظر ہیں۔ وقت کی حکومت اس سے گھبرا گئی اس نے آپ کو گرفتار کرنے کیلئے بکتر بند گاڑیاں حسین آگاہی پر لگا دیں لیکن آپ کے مریدین اور عشاق ان گاڑیوں کے سامنے لیٹ گئے۔ انہوں نے کہا کہ یہ گاڑیاں پہلے ہمارے سینوں پر سے گزریں گی اس کے بعد مولانا کو گرفتار کرنا۔ آپ کی ذات نے یہ گوارا نہ کیا آپ کی وجہ سے خون خرابہ ہو اور ملتان کی پرامن فضا خراب ہو ۔ آپ نے اس وقت کمان والے کمانڈر کو پیغام بھجوایا کہ تمہیں ان بکتر بند گاڑیوں سمیت میرے پاس آنے کی ضرورت نہیں کیونکہ بہت خون خرابے کا خطرہ ہے۔ میں خود آکر گرفتاری دے دوں گا اور ایسا ہی ہوا۔ آپ کو بہاولپور کی جیل میں قید کر دیا گیا۔ آپ نے نظام مصطفیؐ کیلئے پیرانہ سالی میں مصیبتیں اور تکلیفیں برداشت کیں۔ جیل میں بڑے بڑے جرائم کی پاداش میں سزا پانے والے مجرم آپ کی سیرت اور کردار سے ایسے متاثر ہوئے کہ وہ نماز کے اوقات میں آپ کی امامت میں نماز پڑھنے لگے۔ اسی جیل کے سپرنٹنڈنٹ کا کہنا تھا کہ میں نے اپنی زندگی میں ایسی نیک اور پراثر شخصیت نہیں دیکھی۔ جیل سے رہائی کے بعد ملتان سے ایک بڑا قافلہ جس میں راقم بھی شامل تھا آپ کولینے کیلئے بہاولپور گیا۔ بہاولپور سے ملتان تک لوگوں نے آپ کے اس قافلے کا شاندار استقبال کیا جو دیدنی تھا۔آپکی قربانی کا یہ فائدہ ہوا کہ دنیا کو پتہ چل گیا کہ سچ اور جھوٹ میں کیا فرق ہے اور اس دور میں میں بھی لوگ جوق در جوق قربانیاں دینے کیلئے تیار رہتے ہیںلیکن آپ کی ذات کو یہ نقصان ہوا کہ اکثر و بیشتر بیمار رہنے لگے۔ آخرکار یہ آفتاب ولایت16 صفر المظفر 1400 ھ کو غروب ہو گیا۔ آپ کے جنازے میں لاکھوں افراد کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا جو کہ زاروقطار رو رہا تھا لیکن آپ کے فیضان آج بھی قاری ناصر میاں اور احمد میاں کی قیادت میں جاری و ساری ہے۔

ای پیپر دی نیشن