میاں نواز شریف کی خرابی صحت اہم مسئلہ ہے۔ سیاسی اختلاف کو ایک طرف رکھتے ہوئے ہم نے گذشتہ روز کے سائرن میں یہی مسئلہ اٹھایا تھا کہ میاں نواز شریف کی صحت کے مسئلے پر سیاست کے بجائے ان کے علاج پر توجہ دی جائے اور انہیں ہر ممکن سہولیات فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ حکومت کو اس مسئلے کو سیاسی بنانے سے گریز کرنا چاہیے۔ شکر ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے میاں نواز شریف کی صحت کے مسئلے کو انا کا مسئلہ نہیں بنایا۔ انہوں نے وزیر اعلی پنجاب کو فون کر کے میاں نواز شریف کے لیے ہر ممکن طبی سہولت کو یقینی بنانے کے ہدایت کی ہے۔ وزیراعظم نے سابق وزیراعظم کے ذاتی معالج کے ساتھ رابطے میں رہنے کی بھی ہدایت کی ہے۔ عمران خان نے نواز شریف کی صحتیابی کے لیے دعا اور نیک تمناؤں کا اظہار بھی کیا ہے۔ سابق وزیراعظم کے خاندان کی مرضی کے مطابق علاج کی سہولیات فراہم کرنے کی ہدایات بھی جاری کی گئی ہیں۔ میاں نواز شریف کی صاحب زادی مریم نواز کی ملاقات کا حکم بھی جاری کیا گیا ہے۔ وہ ہسپتال اپنے والد کے ساتھ قیام کر رہی ہیں۔یہ تمام اقدامات خالصتاً انسانی ہمدردی، ملکی سلامتی اور امن و امان کی صورتحال کو قابو میں رکھنے کے لیے کیے گئے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کا خود تمام معاملات پر نگاہ رکھنا اور ہدایات جاری کرنا خوش آئند ہے۔ میاں نواز شریف کی صحت کے معاملے کسی قسم کی کوتاہی ان کے خاندان کے ساتھ زیادتی تصور کی جائے گی۔
حالات کا تقاضا ہے کہ حکومتی وزرائ اس نازک مسئلے پر خاموشی اختیار کریں، تلخی کا جواب تلخی سے نہ دیں، تحمل مزاجی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لوگوں کے غصے پر طیش میں نہ آئیں بلکہ نرم زبان استعمال کرتے ہوئے معاملہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کریں۔ اس سلسلہ میں بھی وزیراعظم عمران خان کو احکامات جاری کرنے چاہییں کہ پاکستان تحریک انصاف سے منسلک افراد کسی قسم کی بیان بازی نہ کریں، میڈیکل بورڈ کے علاوہ کسی کو سابق وزیراعظم کی صحت پر کوئی اپڈیٹ دینے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ صوبائی حکومت وزیر صحت یا وزیر اطلاعات یا کسی بھی قابل وزیر کو میاں نواز شریف کی صحت سے متعلق معلومات میڈیا کو فراہم کرنے کی ذمہ داری دے۔ دیگر وزرائ کو اس معاملے سے دور رہنے کی ہدایات جاری کرنے سے افواہوں سے بچا جا سکتا ہے۔ عوام کو بھی چاہیے کہ سوشل میڈیا پر سنی سنائی باتوں کو آگے پہنچانے سے گریز کریں۔ میڈیا کے لیے بھی لازم ہے کہ میاں نواز شریف کی صحت کے بارے سب سے پہلے سب سے آگے کی ریس میں شامل ہونے کے بجائے تاخیر برداشت کر لیں لیکن تصدیق کے بغیر کسی بھی خبر کو نشر یا شائع کرنے سے گریز کریں۔ یہ وقت تحمل مزاجی کا ہے۔ اس وقت ہم سب کو آنکھیں اور کان کھلے رکھنے اور دماغ کو وسعت دینے کی ضرورت ہے۔
میاں نواز شریف ایک بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں، ان کے بھائی میاں شہباز شریف اپوزیشن لیڈر ہیں۔ملک میں بڑی تعداد میں ان کے ووٹرز ہیں اور وہ ایک سیاسی جماعت کے سربراہ کی حیثیت سے عوام میں اپنی جڑیں رکھتے ہیں۔ اس وقت انہیں جس قسم کے حالات کا سامنا ہے قطع نظر اس کے وہ جمہوری و سیاسی طرز حکومت میں عوامی حمایت تو رکھتے ہیں۔ گوکہ انہوں نے اپنے دور حکومت میں جمہوری اقدار کو فروغ دینے کے لیے زیادہ کام نہیں کیا، میاں نواز شریف کے دور حکومت میں جمہوری رویوں کی نشوونما نہیں ہو سکی، ان کے پسند کرنے والے موجود ہیں تو ان کے ناقدین بھی ہیں لیکن اس وقت سب کی توجہ میاں نواز شریف کی صحت اور علاج پر رہے تو زیادہ بہتر ہے۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ میاں نواز شریف کو علاج کے لیے بیتون منتقل کرنے کی ضرورت پیش آ سکتی ہے اگر ان کی زندگی بچانے کے لیے ایسا کرنا پڑے اور ڈاکٹرز یہ تجویز کریں کہ سابق وزیراعظم کو بہتر علاج کے لیے بیرون ملک بھیجالنا ضروری ہے تو اس میں کسی قسم کی تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ وزیراعظم عمران خان نے جیسے اپنے وزیر اعلیٰ کو فون کیا ہے انہیں شہباز شریف یا مریم نواز کو فون کر کے ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کروانی چاہیے بلکہ دو قدم آگے بڑھ کر میاں نواز شریف سے ملنے کے لیے ہسپتال جانے میں بھی کوئج حرج نہیں ہے۔
میاں نواز شریف کے پلیٹ لیٹس خطرناک حد تک کم ہوئے ہیں اس میں بہتری کے لیے عارضی اقدامات تو کیے گئے لیکن ان کے پلیٹ لیٹس کا خود بننے کا عمل شروع ہونا انتہائی اہم ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ میاں نواز شریف کو مکمل صحت عطاء فرمائے۔ آمین