پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو گیا ہے جب کہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے حکومت کا پسپائی پر مجبور کر دیا قومی اسمبلی میں گذشتہ جمعہ سے اب تک ہونے والے چاروں اجلاسوں میں اپوزیشن نے کورم کی نشاندہی کر کے قومی اسمبلی کا اجلاس نہیں چلنے دیا اپوزیشن پوری تیاری کر کے ایوان میں آتی ہے حکومتی ارکان کی ایوان میں ’’غیر حاضری‘‘ کی وجہ سے کورم کا مسئلہ پیدا ہو رہا ہے جب کہ عام تاثر یہ ہے کہ حکومتی ارکان ایوان کی کا رروائی میں دلچسپی نہیں لے رہی ایک دور کوشش کر کے حکومتی ارکان کو ایوان میں حاضر ہونے پر مجبور کیا گیا لیکن یہ تعدا 90سے اوپر نہ بڑھ سکی لیکن اس کے باوجود کورم کا مسئلہ پیدا ہو گیا جمعہ کو تو قومی اسمبلی کا اجلاس17منٹ تک جاری رہا اور اپوزیشن کی جانب سے کورم کی نشاندہی پر سپیکر کو ایجنڈا نمٹائے بغیر ہی قومی اسمبلی پیر کی شام تک ملتوی کرنا پڑا اپوزیشن اور سپیکر کے درمیان ’’سرد جنگ‘‘ کے نتیجے میں اجلاس ایجنڈا نمٹائے بغیر ملتوی کرنا پڑ رہا ہے قومی اسمبلی ایک روز کے اجلاس پر قومی خزانے سے لاکھوں روپے خرچ کرنا پڑتے ہیں اپوزیشن کے رہنما نے نوائے وقت سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ جب تک سپیکر اپنے طرز عمل میں تبدیلی نہیں لاتے وہ قومی اسمبلی کے27ویں سیشن کو چلنے نہیں دیں گے پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین رانا تنویر حسین نے کہا ہے قومی اسمبلی قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کے بغیر نامکمل ہے سابق قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ تاحال قید ہیں ان کا پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کیا جا رہا جس ملک کا وزیر اعظم یہ کہتا ہے پروڈکشن آرڈر جاری نہیں ہونے دوں گا اس قومی اسمبلی کے سپیکر کی کیا حیثیت رہ جا تی ہے جمعہ کو اپوزیشن نے ایوان سے واک آئوٹ کیا اس کے ساتھ ہی کورم کی نشاندہی کر دی جب کورم کی نشاندہی کی گئی تو ایوان میں 57ارکان تھے متحدہ اپوزیشن نے فیصلہ کیا ہے اس وقت قومی اسمبلی کے اجلاس کی کارروائی کا حصہ نہیں بنے گی جب تک سپیکر اپنے آپ کو پورے ایوان کا کسٹوڈین بن کر نہیں دکھائیں گے ایوان میں ہنگامہ آرائی ، شور شرابہ اور نعرے بازی کے پس منظر میں پارلیمنٹ سے باہر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تلخی کا تعلق بھی ہے حکومتی ارکان کی بڑی تعداد کے ایوان سے غیر حاضر ہونے بارے میں سوالات اٹھ رہے ہیں۔