میں نے پاکستان بنتے دیکھا ہے۔ سپہ سالار فیلڈ مارشل ایوب خان‘ جنرل موسیٰ خان‘ جنرل یحییٰ خان‘ جنرل ضیاء الحق اور جنرل قمر جاوید باجوہ کے دور اقتدار کا عینی شاہد ہوں جن کے متعلق ہمارے عوام یوں عقیدت رکھتے ہیں کہ تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد اور اسی طرح بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ‘ شہید ملت لیاقت علی خاں‘ شہید حسین سہروردی‘ محمد علی بوگرہ‘ محمد خان جونیجو‘ آصف علی زرداری‘ میاں نواز شریف اور محمد عمران خان کے دور اقتدار سے اہالیان پاکستان کماحقہ آگاہ ہیں کہ انہوں نے کس قدر ملک و ملت کی خدمت کی ہے۔ 2018 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی نے برسراقتدار آ کر اپنے احتساب کے منشور پر عملدرآمد کا آغاز کیا تو حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے مابین ٹھن گئی اس دوران سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو عدالت عالیہ نے نااہل قرار دیدیا سابق صدر آصف علی زرداری اور سابق وزیراعظم کو احتساب کے عمل میں جیل میں بھی جانا پڑا جس پر پارلیمنٹ ہاؤس فریقین کے درمیان میدان جنگ بن گیا اور فریقین نے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کیں۔ اس دوران میاں نواز شریف کی صحت خراب ہو گئی جن کو ان کی خواہش کے مطابق علاج کے لئے برطانیہ میں منتقل کر دیا گیا انہوں نے چند ماہ تک برطانیہ میں خاموشی سے وقت گزارہ لیکن گوجرانوالہ جلسہ کے موقع پر انہوں نے اپنی ویڈیو تقریر میں اداروں پر ایسے الزامات عائد کئے جس سے ملکی سیاست میں ہلچل مچ گئی کیونکہ ہماری فوج سے بھارت کی فوج تین گنا بڑی ہے لیکن اس کے باوجود ہماری افواج نے ہر بار بھارتی فوجوں کو دندان شکن جواب دیا ہے ہمارے بائیس کروڑ عوام اپنی آرمی کی دل سے قدر کرتے ہیں اس کے علاوہ ہمارے ملک کی آرمی نے سیلاب زلزلہ اور دیگر آفات ناگہانی کے موقع پر بڑھ چڑھ کر عوام کی خدمت کی ہے ‘ ہمارے ملک میں اپوزیشن کے جلسہ میں زیادہ لوگ اس لئے بھی جاتے ہیں کہ ان میں وہ تمام سیاسی لیڈر شامل ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کے خلاف بڑی سخت زبان استعمال کیا کرتے تھے اب عوام ان کا دوسرا روپ دیکھنے کے لئے بے چین ہوتے ہیں لیکن اپوزیشن اس رویہ کو اپنی مقبولیت قرار دیتی ہے۔ گوجرانوالہ جلسہ کے بعد اپوزیشن نے اسے اپنی بڑی کامیابی قرار دیا جبکہ نشریاتی اداروں چینل اور میڈیا کے تبصرے اس سے مختلف تھے‘ سابق وزیراعظم میاں نوازشریف تین بار وزیراعظم رہے ہیں جبکہ وزیراعظم عمران خان کا پہلا موقع ہے سابق وزیراعظم کو موجودہ وزیراعظم کی بہ نسبت زیادہ تجربہ ہے۔ انہوں نے اپنی تقریر کے دوران ایسی باتیں کیں جس سے موجودہ وزیراعظم کے تن بدن میں آگ لگ گئی اور انہوں نے اپنے غصہ کا اظہار کرتے ہوئے آئندہ سخت اقدامات کرنے کا اعلان کیا۔ حالانکہ موجودہ وزیراعظم کو سابق وزیراعظم کی ماضی الضمیر کی آواز سن کر اپنا غصہ پی جانا چاہئے تھا اور خاموشی سے آئندہ ایسے اقدامات کرتے جس سے اپوزیشن کی دل شکنی ہوتی‘ میرے اپنے سابقہ 60 سالہ مشاہدے کے مطابق اپوزیشن کے جلسوں میں حکومت کو رکاوٹیں کھڑی نہیں کرنا چاہئے۔ عوام اپوزیشن میں موجود تمام لیڈروں کے کردار سے پوری طرح آگاہ ہیں اور وہ اس سے بھی بخوبی آگاہ ہیں کہ آزمودہ را آزمودن جہل است۔ وہ سیاسی لیڈر جو انتشار کی بجائے اتحاد کو ترجیح دیتا ہے اور غصہ و جوش میں اپنے اعصاب پر قابو رکھتا ہے وہ کرشماتی نتائج حاصل کر لیتا ہے۔ اور جو سیاستدان اپنی طاقت کا استعمال کرتے ہیں وہ وقتی طور پر تو کامیاب ہو جاتے ہیں لیکن جلد ہی زوال سے دوچار ہو جاتے ہیں موجودہ حکمرانوں کو اپوزیشن سے فی الحال کوئی خطرہ نہیں ہے جتنا ان کو مہنگائی سے خطرہ ہے اگر انہوں نے مزید روز افزوں مہنگائی کی جانب توجہ نہ دی تو عوام نہ چاہتے ہوئے بھی اپوزیشن کی ہاں میں ہاں ملانے پر مجبور ہو سکتے ہیں عوامی حلقے ممبر قومی اسمبلی کیپٹن صفدر کے بانی پاکستان کے مزار پر نعرہ بازی اور ہلڑ بازی پر اس لئے حیران ہیں کہ ہم اپنے عزیزوں کی قبروں پر جا کر بڑی عاجزی سے بارگاہ ایزدی میں مرحوم کی مغفرت کے لئے گڑ گڑا کر دعا کرتے ہیں لیکن یہ پہلی بار دیکھنے میں آیا ہے کہ بابا قائداعظم جو 22 کروڑ پاکستانیوں کے محسن ہیں ان کے مزار پر دعا مغفرت کرنے کی بجائے یہ ناگفتہ بہ رویہ چہ معنی دارد؟ ہمارے سیاستدان کس قدر اقتدار کے بھوکے ہیں کے اقتدار سے جدائی ان کے لئے ناقابل برداشت بن چکی ہے۔ اوپر سے احتساب کی گھنٹی بج رہی ہے تو انہوں نے حکمرانوں کے خلاف احتجاجی تحریک کا آغاز کردیا ہے کہ انہوں نے معیشت کو تباہ کردیا ہے اور عوام بھوک و افلاس سے تنگ آ کر خود کشی کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں اور ہم اب عوام کو ان کا حق دلا کر دم لینگے۔ جبکہ عوام ان لیڈروں کو پہلے ہی کئی بار آزما چکے ہیں کہ انہیں صرف اپنے مفادات عزیز ہیں۔
احتجاجی تحریک کیا گل کھلائے گی؟
Oct 24, 2020