شیخ الحدیث والتفسیر خواجہ پیر محمد اکرم شاہ جمالی ؒ

Oct 24, 2020

شریعت و طریقت کی دنیا میں خانوادہ شاہجمالی کسی تعارف کا محتاج نہیں ، پاکستان کے مقتدر علماء و مشائخ اسی خاندان کے سلسلہ تلمذ میں آتے ہیںَ۔ آفتاب طریقت مہتاب شریعت حضور خواجہ پیر محمد اکرم شاہجمالی رحمۃ اللہ علیہ اسی خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ جنہوں نے جنوبی پنجاب کے پسماندہ علاقے میں اپنی روحانی و فلاحی خدمات سے اس خاندان کی عزت و شہرت کو عروج بخشا۔ آپ کی 78 سالہ زندگی ایام طفولیت کے بعد سرکار دو عالم ؐ کے دین کو پڑھتے گذری یا پڑھاتے ۔ 18 سال کی عمر میں علوم دینیہ سے خوب سیراب ہونے کے بعد آپ آستانہ عالیہ سندیلہ شریف تشریف لائے۔ تمام عظیم لوگوں کی طرح آپ کی زندگی غربت اور جہد مسلسل ، انتھک محنت اور استقامت سے عبارت تھی، مگر جذبوں خوابوں کی پرواز آسمانوں تک تھی۔ غربت کا یہ عالم تھا کہ جب آپ پہلے پہل مانہ احمدانی میں تشریف لائے تو کرایہ پر مکان لینے کیلئے بھی پیسے نہ تھے۔ بعد میں آپ نے ایک چھپر سے دارالعلوم صدیقیہ شاہ جمالیہ اکرم المدارس کی 1960 میں بنیاد رکھی اور مسند تدریس کو خوب رونق بخشی۔ حضرت شاہ جمالی کریم فرمایا کرتے تھے کہ مجھے کبھی بھی اس بات کا احساس نہیں ہوا کہ میرے پاس مال و دولت نہیں۔ اور نہ کبھی بھی اس بات کی خواہش پیدا ہوئی کہ اللہ تعالیٰ مجھے مال و دولت دے یا شہرت دے بس ایک ہی لگن تھی کہ اللہ تعالیٰ کے دین کیلئے اپنی توانائیاں صرف کی جائیں۔ 
اس علاقہ میں دین کا کام کرنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ جنوبی پنجاب کے اس علاقہ میں دین کے کام کو چلانا کس قدر مشکل ہے۔ ایک طرف غربت کی انتہاء دوسری طرف سرداروں وڈیروں کا تسلط ،پھر مرکز میں بیٹھے لوگوں کی اس علاقے سے عدم توجہی ، ان تمام منفی اسباب کے باوجود آپ نے اسی علاقے کا انتخاب فرمایا۔ اور سب سے بے نیاز ہو کر اللہ اور اس کے رسول ؐ کے سہارے دین کی اشاعت اور ترویج کے کام کا آغاز فرمایا۔ باوجود اس کے کہ آپ کو مختلف شہروں سے پیشکشیں کی گئیں کہ آپ یہاں شہر میں آکر تدریس فرمائیں مگر آپ نے ہمیشہ انکار فرمایااور فرماتے تھے مجھے اپنے علاقے کی خدمت کرنی ہے جہاں میرے والد محترم نے پوری زندگی دین کی آبیاری کی۔ آپ کی زندگی کا صرف ایک پہلو نہیں تھا کہ آپ ایک مستند مدرس تھے بلکہ آپ شریعت پر عمل کرنے والے زاہد، متقی انسان تھے۔ تقوی آپ کی حیات مبارکہ کا اہم خاصہ تھا۔ آخر وقت تک آپ وظائف ، تہجد ، اشراق ، اوابین پر پابند رہے۔ سادگی کا یہ  عالم تھا کہ کھانے، پینے ، پہننے کی ذرہ بھر خواہش بھی آپ کے دل میں نہیں تھی۔ خوف خدا اور حفظ امانت کا اتنا پاس تھا کہ ذاتی اور مدرسہ کی چیزوں میں حد درجہ احتیاط فرماتے  پوری زندگی آپ کی جیب مبارک میں دو شاپر الگ الگ رہے ایک پر لکھا ہوتا لنگر دوسرے پر مدرسہ۔ حتی کہ اگر کوئی شخص آپ کی خدمت میں کچھ پیش کرتا تو آپ پوچھتے یہ لنگر کا ہے یا مدرسہ کیلئے پھر جواب کے مطابق اہتمام فرماتے۔ آپ فقط ایک جید عالم نہ تھے بلکہ آپ عظیم عاشق رسول ؐتھے جس پر آپ کی عملی زندگی  شاہد ہے، آپ فقط ایک مستند مدرس نے تھے بلکہ عظیم مربی بھی تھے ، آپ نے فقط شریعت کے درس نہیں دئے بلکہ طریقت و معرفت کے ساتھ لوگوں کے دلوں کا تزکیہ فرمایا۔ خالق و مالک ذات نے آپ کو علوم شریعت ، معرفت ، طریقت اور اپنی محبت سے بھی گرانقدر حصہ عطا فرمایا تھا۔ آپ پر شان فقر بھی جچتی تھی اور شان بے نیازی کے بھی کامل پیکر تھے۔ سینکڑوں ، ہزاروں مربعوں کے مالک اور مسند اقتدار پر جلوہ افروز سرداروں ، وڈیروں کے  اس علاقہ میں کبھی یہ ثابت نہیں آپ نے کسی کے دروازے پر دستک دی ہو۔ ہاں ! یہ تو بارہا ہوا کہ یہ لوگ آپ کی خدمت اقدس میں دعا کرانے کیلئے حاضر ہوا کرتے تھے۔ آپ خانقاہ میں بیٹھنے والے اللہ اللہ کرنے والے فقط صوفی نہیں تھے بلکہ دین کی غیرت رکھنے والے عظیم جرنیل تھے۔ جب بھی  مسلک کو اغیار اور اہل باطل نے للکارا آپ نے رسم شبیری کو ادا کیا جہاں بھی عزت و ناموس رسالت پر حملہ ہوا آپ جرات و شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہاں پہنچے۔ مدرسہ شاہ جمالیہ اس علاقے میں ایک دین کی چھاؤنی کی حیثیت رکھتا تھا۔ اور جہاں توحید و رسالت ، شان اہل بیت ، شان صحابہ ، شان اولیاء  پر ہونے والے ہر حملے کا جواب موجود تھا اس حوالے سے آپ نے مجاہدانہ زندگی گذاری۔ اللہ تعالیٰ نے اس مرد مجاہد کو ہمت بھی خوب عطا فرمائی تھی ، انتھک انسان تھا وہ! حالات کے نشیب و فراز، موسم کے اتار چھڑہاؤ، شب و روز کے قیود سے آزاد انسان تھا وہ!
وہ رعب جھاڑنے والا نہیں بلکہ محبتیں ، شفقتیں بکھیرنے والا انسان تھا وہ! اخلاقیات میں امیر و غریب ، گورے و کالے میں امیتاز کرنے سے پاک انسان تھا وہ! روز بروز بڑھتی دولت، شہرت ، عزت سے تکبر میں آنے والا نہیں بلکہ تواضع، عاجزی ، انکساری کا پیش آنے والا  انسان تھا  ، ہر مسلک کے لوگوں کا احترام کرتے ، اچھے نام سے ذکر کرتے  جو بھی در اقدس پر آ جاتا انتہائی اخلاق اور محبت سے پیش آتے، یہی وجہ ہے کہ دوسرے مسالک والے بھے آپ کے وجود کو اس علاقے کیلئے رحمت خداوندی سمجھتے تھے۔ کہ آپ کے ہوتے ہوئے کبھی بھی کوئی فساد اس علاقہ میں نہیں ہوا۔ آپ کا یہی خلق حسنہ تھا کہ دوسرے مسالک کے لوگ بھی آپ سے دعائیں کرانے کیلئے حاضر ہوا کرتے تھے۔ اور اسی اخلاق کا نتیجہ ہوتا کہ بہت سے لوگ بعد میں آپ کو ہی اپنا مقتدا بنا لیتے۔ آپ کی ذات اقدس ہمہ جہت ، ہمہ پہلو تھی۔ آپ نے پوری زندگی سیاست سے کنارہ کشی اختیار فرمائی مگر ایک موقع پر جب نظام مصطفیٰ ؐ کی بات چلی تو آپ نے اس میدان میں یادگار قدم رکھا۔ 1970 میں جب تحریک نظام مصطفیٰ ؐچلی اور کئی سجادگان اپنی خانقاہوں سے نکل کر اس تحریک میں شامل ہوئے تو حضور خواجہ قمرالدین سیالوی کے حکم پر آپ نے ایم۔ پی۔ اے سیٹ پر الیکشن لڑا۔ جس طرح میرے آقا ؐ نے فرمایا: "خیرکم خیرکم لاھلہ"  تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کیلئے بہتر ہے۔ حضرت شاہ جمالی کریم اس حدیث کا عملی نمونہ تھے۔ گھر والوں کے ساتھ بہت شفقت و محبت سے پیش آتے ہر دکھ سکھ میں شریک ہوتے۔ ہر ایک کو سنبھالتے بچے بچے کی دلجوئی فرماتے ، عائلی لحاظ سے آپ کی شخصیت کو دیکھا جائے تو آپ گھر کی رونق تھے، رحمت کاایک سائبان تھے ، کڑی دھوپ میں ٹھنڈی چاؤں کی طرح تھے۔ 
آپ کی ذات مبارکہ میں سیرت کے مختلف پہلوؤں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ حضرت بایزید بسطامی فرماتے ہیں۔ میں نے تیس سال مجاہدہ کیا میں نے علم حاصل کرنے اس ہر عمل کرنے سے زیادہ کوئی مشقت نہیں پائی۔ یہی آپ کی حیات مبارکہ کا سب سے بڑا خاصہ تھا، آپ کی اسی خوبی نے آپ کو محبوب العلماء  والصلحاء  بنا دیا۔ حضرت خواجہ نظام الدین تونسوی  آپ سے اتنا محبت فرماتے کہ اپنے آخری وقت میں ملتان شریف میں کسی خاکوانی مرید کے گھر میں آپ  نے اپنے بیٹوں خواجہ قمرالدین تونسوی اور خواجہ معین الدین تونسوی کو فرمایا یہ تمہارا بڑا بھائی ہے۔ آپ نے اپنے وصال کے متعلق چند دن پہلے خود ہی اشارے فرما دئے تھے۔ جس رات فالج کا اٹیک ہوا اس دن 11 بجے اپنے  چند مریدین کو جمع فرمایا اور پانچوں صاحبزادوں اور مرید و شاگرد خاص علامہ مفتی محمد قاسم فیضی کو خلافت کی دستار اپنے دست مبارک سے باندھی۔ آپ نے دس منٹ کا خطبہ ارشاد فرمایا جس میں پہلی مرتبہ وصیت کے الفاظ ارشاد فرمائے۔ ایک لفظ کے استعمال پر محفل پر ایک رقت طاری ہو گئی۔ آنکھیں پر نم ہو گئیں، آپ کے اشارے کو بآسانی سمجھا جا سکتا تھا اور پھر اسی رات فالج کا سخت اٹیک ہوا۔ اس کے علاوہ اپنے ایک شاگرد اور مرید کو مکہ مکرمہ  میں فرما دیا تھا کہ میرے بچوں کو نہ بتانا یہ میرا الوداعی عمرہ ہوگا۔پھر شاید زندگی مہلت نہ دے۔ بعد از وصال آپ کے چہرہ مبارک پر ایک حسین سی مسکراہٹ تھی جسے دیکھ کر عنداللہ آپ کے مقام کا بخوبی اندازہ لگایاجا سکتا ہے۔ علامہ اقبال نے واقعی خوب فرمایا :
نشان مرد مومن با تو گویم 
چوں مرگ آید تبسم بر لب اوست
آپ کا جنازہ اس علاقے کا تاریخی جنازہ تھا، کم و بیش ایک لاکھ افراد نے عقیدت و محبت کے ساتھ آپ کے جنازے میں شرکت کی جس میں علماء کرام ، مشائخ عظام ، حفاظ ، قراء طلباء کے علاوہ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے ساتھ ساتھ عوام الناس کا جم غفیر تھا۔ نمازہ جنازہ مانہ احمدانی میں جانشین حضور غزالی زماں رازی دوراں سید مظہر سعید شاہ کاظمی نے پڑھائی اور فرمایا حضرت شاہ جمالی کے جنازے میں شرکت ہم سب کیلئے ذریعہ مغفرت بنے گی ۔ امت مسلمہ ایک عظیم علمی و روحانی شخصیت سے محروم ہو گئی۔ اللہ تعالیٰ حضرت شاہ جمالی کریم کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ لمحہ با لمحہ آپ کے درجات بلند فرمائے اور آپ کے حقیقی و روحانی جانشینو ں کو یہ توفیق دے کہ وہ آپ کے مشن خدمت دین مصطفیٰ ؐ کو بہتر انداز میں چلاتے رہیں اور اسے ترقی دے سکیں۔آپ کا عرس مبارک 26،27 اکتوبر کو آستانہ عالیہ شاہ جمالیہ مرشد آباد شریف نزد عالی والا ضلع ڈیرہ غازیخان میں نہایت تزک و احتشام سے منعقد کیا جا رہا ہے۔

مزیدخبریں