PDMکی احتجاجی تحریک کے آغاز سے لگتا تھا کہ اب اپوزیشن واقعی حکومت کیلئے مشکلات کھڑی کرنے جا رہی ہے، مگر یہ کیاکہ کراچی کے جلسے، اور کچھ اب تک حالات وواقعات سے لگتا ہے کہ معاملاتPDMکے ہاتھ سے نکلتے جا رہے ہیں،ویسے تو پاکستانی سیاست میں یہ کہنا قطعاً غلط نہیںہو گا کہ ’’ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ‘‘جو کچھ ہو رہا ہوتا ہے، اس میں حقیقت اتنی ہی ہے جتنی’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کی۔حقیقت تو یہ ہے کہ یہاںوہ بات اتنی ہی درست ہوتی ہے جس کی جتنی زیادہ تردید کی جائے،دراصل بہت طاقتور انسان بھی اندر سے اتنا کمزور ہوتا ہے کہ وہ بعض حقائق کو ماننے کو تیار نہیں ہوتا، اصل میں وہ اس حقیقت سے جان بوجھ کر نظریں چراتا ہے، بلکہ حقیقت کو camouflage کرتا ہے،ملک کی دونوں بڑی سیاسی پارٹیاں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون اپنی قیادت پرالزامات اور مقدمات کی وجہ سے عوامی مقبولیت کھو چکی ہیں،اندر سے ہر شخص سمجھتاتو ہے کہ ملکی دولت کی لوٹ مار تو ہوئی ہے مگر کوئی ماننے کو تیار نہیں کہ
’’بات تو سچ ہے، مگر بات ہے رسوائی کی‘‘
جب سے موجودہ حکومت برسرِ اقتدار آئی ہے، اس کا جانا سننے میں آ رہا ہے، عجیب اتفاق ہے کہ عمران خان اگست 2018ء میں وزیرِ اعظم بنا، مگر نواز شریف پر ’’پاناما پیپر کیس‘‘ 2016میں اور آصف زرداری پر’’ فیک اکاؤنٹس کیس‘‘اس سے بھی سال پہلے 2015ء میں بنامگرذمہ داری عمران خان پر ڈالی جا رہی ہے کہ وہ انہیں انتقام کا نشانہ بنا رہا ہے، اصل انہوں نے سسٹم کو اس طرح یرغمال بنا رکھا تھا کہ ا نہیں یہ زعم تھا کہ ہمیں کون پوچھ سکتا ہے؟ یہ سوچتے وقت وہ اس حقیقت کو بھلا بیٹھے کہ ’’سو دن چور دے، اک دن سادھ دا‘‘عام شخص بھی اس حقیقت سے نظریںچرا رہا ہے کہ ماضی کی دو حریف جماعتیں آج حلیف کیسے ہیں؟’’میثاقِ جمہوریت ‘‘ کے باوجود دوونوں ایک دوسرے پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں،یاد رہے، جب زرداری نے’’ اینٹ سے اینٹ بجانے‘‘کا اعلان کیا تو نواز شریف نے زرداری کو جھنڈی کرا دی اور اس بیانیے سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے ان سے ملنے سے انکار کر دیاتھا، بالکل اسی طرح زرداری نے نواز شریف کے (گوجرانوالا جلسے میں) اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے سے لا تعلقی کا اظہار کیا ہے، اندر کی اس بے اعتمادی کے باوجود دونوں میں قدرِ مشترک عمران خان ہے کہ دونوں کو وہ ایک آنکھ نہیں بھاتا،(خیربھاتا تو وہ بہت سوں کو نہیں)لگ بھگ دو سال سے عمران خان کو چلتا کرنے کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوتا دیکھ کر اپوزیشن نےPDMکا سہارا لیا۔PDMکی تحریک کا ایجنڈاکیا ہے؟ جو بتایا جا رہا ہے کم از کم وہ ہر گز نہیں، PDMمیں شامل ہر پارٹی کی ترجیحات اپنی ہیں، مثلا اپوزیشن کا یہ کہنا کہ ان کا مینڈیٹ چرایا گیا، دوسری طرف پارلیمانی تحقیقاتی کمیٹی کی تشکیل کے باوجود آج تک نہ اس کا کوئی اجلاس ہوا نہ ہی اپوزیشن کوئی ثبوت پیش کر سکی،عمران خان پر ملکی معیشت تباہ کرنے کا الزام خود ان کے لیے گئے قرضوں کے بوجھ تلے دب کردم توڑگیا، مہنگائی کا موقف بڑا زور دار ہونے کے باوجود بک نہیں سکا کہ عوام بخوبی سمجھتے ہیں کہ خود ان کے ادوار میں کونسا دودھ اور شہد کی نہریں بہتی تھیں؟عوام کو تو سکھ کا سانس ان کے ادوار میں بھی نصیب نہیں تھا۔مارچ سے پہلے حکومت کے خلاف، اپوزیشن کا یہ Do or Dieکا مرحلہ ہے مگر باہمی اختلافات نے انہیںDieکے مقام پر لا کھڑا کردیاہے، گوجرانوالا میں جلسہ اس لیے رکھا گیا کہ وہاں کے تمام ایم این ایز اور ایم پی ایزنون لیگ سے ہیں، توقع تھی کہ یہاں نون لیگ بڑا پاور شو کریگی،کراچی میں جلسہ پیپلز پارٹی نے ہوسٹ کیا، پیپلز پارٹی کو بھی سندھ حکومت کازعم تھا، مگر مبینہ طور پر جلسے میں اندرون سندھ سے لوگوں کو لانا پڑا، نون لیگ کے پاور شو کو نواز شریف کی فوج مخالف تقریر نے زیرو کر دیااورپی پی کو اس تقریر سے لا تعلقی کا اظہار کرنا پڑا، ادھر کراچی میںمبینہ طور پرزرداری کے کہنے پرنواز شریف کو تقریر سے روک کر PDMنے باہمی اختلافات پر مہر ثبت کر دی تو مولانا کی تقریر سے پہلے پنڈال خالی ہونے پر حیرت کیسی؟تحریک کااگلاپڑاؤ 25اکتوبر کو کوئٹہ میں ہے مگر بلاول زرداری کا جلسہ میں شرکت کی بجائے گلگت بلتستان میں انتخابی مہم میں شریک ہونا اندر کے اختلافات کاواضح ثبوت ہے، گویااب کوئٹہ میںصرف ’مولانا شو ‘ہو گا،جنہیں عمران خان ایک آنکھ نہیں بھاتا، بس چلے تو وہ ایک لمحہ ضائع کیے بغیراسے گھر بھیج دیں مگر یہ ان کے بس میں ہے نہیں، مولانا کیلیے یہ پہلا موقع ہے کہ وہ حکومت بلکہ اسمبلی سے ہی باہر ہیں، ہر حکومت کا ساتھ دینے والوں سے یہ حقیقت برداشت نہیں ہو رہی، جبھی وہ اپوزیشن کو استعفوںپر قائل کر رہے ہیں،مگر دال گلتی نظر نہیں آ رہی۔۔!