تاریخ کے جھروکوں میں مفادات کی جنگ

Oct 24, 2020

صوفی محمد انور

میاں نوازشریف بمقابلہ محترمہ بینظیر صاحبہ میاںنوازشریف اور اس کے چند حمایتوں نے محترمہ کے بارے میں جو گھٹیا الزامات اور بے ہودہ کہانیاں اور تصویریں شائع کروائیں‘ بہت سے اچھے خیالات کے حامل اور سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والوں نے ان حرکات کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا‘ لیکن مجبوری تھی کہ اس وقت میاں نوازشریف اقتدار کل تھا۔ کوئی چوں چراں نہیں کرتا تھا۔ بہرحال محترمہ بینظیر اقتدار میں آگئیں۔ ان کے ساتھیوں نے مخالفین سے حساب کتاب پورا کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ (جاری) میاں نوازشریف لوگوں کو اس طرح نوازتے‘ صرف دو مثالیں دوں گا۔ میاں نوازشریف وزیرخزانہ پنجاب بنے تو ان کے ساتھ P-S قمر الزمان یا صرف قمر نامی شخص لگایا گیا۔ وہ آ خر تک میاں نوازشریف کے ساتھ اقتدار میں یا اقتدار سے باہر تھا۔ اس کو میاں نوازشریف نے ڈائریکٹر (DG) ایل ڈی اے لگایا اور ان کا ایک پی اے جمشید صدیقی (قمر) تھا۔ اس کو (DG) ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے لگا دیا۔ اس وقت چودھری شجاعت حسین صاحب وزیرداخلہ تھے۔ میرا ڈائریکٹ یا ان ڈائریکٹر ایف آئی اے کے آفیسروں‘ ملازمین سے واسطہ پڑتا تھا۔ بہرحال قمر کو ایل ڈی اے کا ڈی جی اس لئے لگایا گیا کہ لاہور میں میاں نوازشریف نے نئی نئی رہائشی سکیمیں بنوائی تھیں اور ان رہائشی سکیموں میں لوگوں کو نوازنا تھا۔ وہ بھی پردہ داری سے۔ اور جمشید صدیقی کو ایف آئی اے میں لگایا گیا کہ وہ ان کو تمام باتوں سے باخبر رکھے گا‘ لیکن اس نے دوسری طرف توجہ شروع کر دی۔ میاں نوازشریف کی حکومت پر حلوائی کی دکان ماسی کا ختم والی مثال فٹ تھی۔ محترمہ بینظیر صاحبہ شہید ہو گئیں۔ آصف زرداری فرنٹ لائن پی پی پی کے سربراہ بن گئے۔ انہوں نے اپنے اقتدار کے دوران جو کچھ میاں نوازشریف کے بارے میں کہا تھا وہ ریکارڈ پر موجود ہے۔ شہبازشریف نے آصف زداری کے بارے میں جو کچھ کہا وہ بھی ریکارڈ پر موجود۔ ہاں مولانا فضل الرحمن نے عورت کی حکومت محترمہ بینظیر کے خلاف جو کچھ بولا ریکارڈ پر ہے۔ ملک کے حالات بدلتے گئے۔ 2018ء کے الیکشنوں میں عوام نے عمران خان کو حکومت کرنے کا حق دیا۔ ان کو اکثریت ملی۔ سندھ میں پی پی پی‘ کے پی کے میں پی ٹی آئی اور بلوچستان میں مشترکہ پارٹیوں کی اکثریت قائداعظم مسلم لیگ کی تھی۔ عمران خان سے پہلے پی پی پی اور (ن) لیگ کی حکومتیں تھیں۔ ان دونوں حکومتوں میں مولانا فضل الرحمن چیئرمین کشمیر کمیٹی اور پارٹی کی پسندیدہ وزارت ہائوسنگ تھی‘ ان کے پاس تھی۔ اب عمران خان کی حکومت ہے۔ نیب کا چیئرمین پی پی پی اور (ن) لیگ نے بنایا۔ یہ تمام مقدمات دونوں پارٹیوں نے ایک دوسرے کے خلاف بنوائے۔ عمران خان نے تمام عدالتوں کو آزادانہ طورپر کام کرنے کا موقع دیا۔ کسی نے سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ پر حملہ نہیں کروایا۔ تمام کیس میرٹ پر عدالتیں دیکھ رہی ہیں۔ 70 سال سے جو اقتدار میں تھے‘ سرکاری مراعات لیتے تھے۔ وہ اب اقتدار سے باہر ہیں۔ اب یہ عمران خان کو سلیکٹڈ سلیکٹڈ کا طعنہ دے رہے ہیں اور عمران خان پر طرح طرح کے الزامات لگا رہے ہیں۔ ملکی اداروں کے خلاف زہر اگل رہے ہیں۔ سابقہ حکمرانوں کو 5 سال کا عرصہ گزارنا مشکل ہو چکا ہے۔ عمران خان کی حکومت سے پہلے کوئی بڑا آدمی سیاستدان بیورو کریٹ جیل گیا تھا‘ نہیں گیا تھا۔ ملک میں مہنگائی ہے۔ ٹھیک ہو جائے گی۔ کسی شہر کے کسی بازار میں جائیں‘ اتنا رش ہوتا ہے کہ گزرنا مشکل ہوتا ہے۔ گاڑیوں‘ موٹر سائیکلوں کو کھڑی کرنے کی جگہ نہیں ملتی۔ تمام اشیاء ہر روز فروخت ہوتی ہیں۔ معذرت پاکستانی لوگ‘ اکثریت دکاندار یا عوام ڈنڈے کو مانتے ہیں۔ یہ سب مصنوعی مہنگائی ہے۔ انتظامیہ کی کمزوری اور لاپروائی ہے کہ مہنگائی ہے۔ عمران خان کے ساتھ عوام کی اکثریت ہے۔ ملکی ادارے عمران خان کے ساتھ ہیں۔ انشاء اللہ بہت جلد پاکستان ترقی کی طرف چلے گا۔ عمران خان کے مخالف تمام لوگوں کو ایک جگہ اکٹھے ہونا مفادات کی جنگ ہے۔ کے پی کے میں ولی خان صاحب کی اے این پی اور مولانا فضل الرحمن کی جے یو آئی کے درمیان کوئی چیز مذہبی یا دنیاوی مشترکہ ہے۔ بالکل نہیں۔ زمین آسمان کا فرق‘ لیکن عمران خان کے خلاف ایک جگہ۔ پی پی پی اور (ن) لیگ سخت سیاسی حریف اور عمران خان کے خلاف ایک جگہ کیوں۔ مولانا احمد شاہ نورانی مرحوم کے صاحبزادے ماشاء اللہ پی پی پی کے ساتھ حالانکہ ان کی کوئی قدر مشترکہ نہیں ہے۔ صرف شاید وقت آنے پر کچھ مل جائے۔ آخر 70 سال سے کسی نہ کسی طرح اقتدار میں رہنے والے عمران خان کے خلاف کیوں ہیں۔ پاکستان کی خیرخواہ سیاسی پارٹیاں عمران خان کے ساتھ ہیں۔ یہ حکومت صرف پی ٹی آئی کی نہیں ہے‘ اس میں دوسری پارٹیاں بھی حکومت میں ہیں۔ عمران خان کو 2023ء تک حکومت کرنے کا حق ہے۔ حکومت کی اگر کوئی پالیسی غلط ہے تو اس کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ عمران خان وزیراعظم پاکستان کی یہ ذمہ داری ہے کہ اگر کسی بھی صوبے میں عوام کو حقوق نہیں مل رہے‘ امن و امان‘ اشیاء صرف کی شکایت ہے تو اس پر فوری ایکشن لینا چاہئے۔ مہنگائی مصنوعی پیدا کی گئی ہے۔ دکانداروں کو کوئی پوچھتا نہیں۔ اپنی مرضی کے ریٹ لگاتے ہیں۔ یونین بازی‘ فیڈریشن کا نام لیکر عوام اور حکومت پر رعب ڈالا جاتا ہے۔ بہرحال سرکاری اہلکاروں کو مصنوعی مہنگائی کرنے والوں کے خلاف ایکشن لینا ہوگا ورنہ وزیراعظم کو ان کے خلاف ایکشن لینا ہوگا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ پنجاب میں نوازشریف کے ساتھی بیورو کریٹ 15‘ 20سال سے براجمان ہیں۔ وہ عمران خان کے خلاف اقدامات کراتے ہیں۔ عمران خان کو اگر حکومت بچانی ہے تو فرنٹ لائن پر آنا ہوگا۔ عوام کو ریلیف درکار ہے۔ وعدہ کے مطابق کردار اداکرنے کی ضرورت ہے۔ اپوزیشن کی باتوں کا جواب دینے کیلئے حاضر دماغ سوجھ بوجھ رکھنے والوں کی ضرورت ہے۔ اپوزیشن تمام خرابیوںکی ذمہ دار ہے۔60 سال سے برسراقتدار رہی ہے اور دو سال میں حساب مانگ رہی ہے کیونکہ بیورو کریسی کام نہیں کر رہی۔ جو کام کرنا چاہتا ہے اس کے خلاف باقاعدہ مہم شروع کروائی جاتی ہے اور عمران خان کے خلاف تمام مفادات کے حصوں کی جنگ شروع ہے۔ تمام پارٹیوں کے اپنے اپنے منشور ہیں۔ اب ایک منشور پر کہ عمران خان ہٹائو اکٹھے ہو گئے ہیں۔ (ختم شد)

مزیدخبریں