’’ نا دِیدہ قوتیں اوؔر مولانا کے دِیدے ؔ؟‘‘ 

Oct 24, 2020

اثر چوہان

 معزز قارئین! سپریم کورٹ کی طرف سے تاحیات نااہل ؔہونے والے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے اپنا  اپنے خاندان اور مسماۃ مسلم لگ (ن) کا سیاسی مستقبل تاریک دیکھتے ہُوئے 5 مئی 2018ء کو سپریم کورٹ اور پاک فوج کا نام لئے بغیر اِن دونوں اداروں کو ’’ خلائی مخلوق‘‘ کا نام دِیا تھا اور اُن کی پیروی میں اُن کے نامزد (His Master's Voice ) وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور مسلم لیگ (ن) کے ہر چھوٹے بڑے نے میاں نواز شریف کے ’’ بولی چُک‘‘ کا کردار اداکرنا شروع کردِیا تھا ۔ اِس پر 7 مئی کو میرے کالم کا عنوان تھا ۔ ’’ کیوں کریں زحمت ، خلائی مخلوقاتؔ ِ مُک مُکا؟‘‘۔ 
مَیں نے لکھا تھا کہ ’’ مخلوقات سے مُراد ہے دُنیا ۔ اہلِ دُنیا ۔ مخلوقاتِ ارضی۔ زمین پر بسنے والی مخلوقات اور’’ مخلوقاتِ سماوی ‘‘ کو ’’ خلائی مخلوقات ‘‘ کہا جاتا ہے ۔میرے نزدیک میاں نواز شریف کی کیفیت ہارے ہُوئے جواری کی سی ہے یا اُس عاشق ِناکام کی سی اور اُن کے پیرو کاروں کی بھی ۔مَیں نے اپنے دوست ’’ شاعرِ سیاست‘ ‘ کی نظم کے یہ سات شعر بھی شامل کئے تھے ، ملاحظہ فرمائیں …؎ 
’’ارضِ پاکستان کی ہیں ، شَش جہاتِ مُک مُکا!
ہے شریفوں ؔکی سیاست، تجرباؔتِ مُک مُکا!
… O…
خواہشِ زرداری ؔہے ، آبِ حیاتِ مُک مُکا!
پَر، بلاولؔ کے لئے، نا ممکناتِ مُک مُکا!
…O…
اچکزؔئی ، اسفند یاؔری ، تسلیماتِؔ مُک مُکا!
اور امیرؔ جے یو آئیایف ، شاملاؔتِ مُک مُکا!
…O…
اُوڑھ کر عباسی ؔبھی، زرّیں قَناتِؔ مُک مُکا!
کیا کریں شہبازؔو مریمؔ ، وارداتِ ؔمُک مُکا؟
…O…
ایم کیو ایمؔ اور ایم ایم اے ۔لات ومناؔت ِ مُک مُکا!
توڑیں گے عمران ؔخاں ہی ، سومناتِؔ مُک مُکا!
…O…
چیف جسٹس ؔتو نہیں ، رکھتے صِفاتِؔ مُک مُکا!
اور سپہ سالارؔ بھی چاہیں ، نجاتِؔ مُک مُکا!
…O…
ڈُوبنے والی ہے دیکھو! کائناتِ ؔمُک مُکا!
کیوں کریں زحمت، خلائی مخلوقاتِؔ مُک مُکا؟
…O…
’’ نادِیدہ قوتیں ؟ ‘‘ 
’’ نو دو ۔گیارہ ‘‘ اپوزیشن پارٹیوں کی تنظیم ’’ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ‘‘ کے سربراہ امیر جمعیت عُلماء اسلام (فضل اُلرحمن گروپ ) نے 22 اکتوبر کولاڑکانہ میںمیڈیا سے خطاب کرتے ہُوئے کہا کہ "N.R.O" ہم (یعنی ’’ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ ‘‘ کے قائدین ) نہیں بلکہ وہ، ( یعنی عمران خان ‘ اُن کے ارکانِ حکومت ) ہم سے مانگ رہے ہیں۔ اُنہوں نے ( سپریم کورٹ اور پاک فوج کا نام لئے بغیر کہا کہ ’’ ہمیں ( یعنی ’’ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ ‘‘ کے قائدین کو) ’’نادِیدہ قوتوں ‘‘ کی بالا دستی کسی طور پر قبول نہیں!‘‘۔ 
معزز قارئین ! فارسی زبان کے لفظ ’’ نادِیدہ‘‘ کے معنی ہیں ( جس کو نہ دیکھا ہو ، اَن دیکھا ) ۔ سوال یہ ہے کہ ’’جب وہ  قوتیں ؔ اَ ن دیکھی (کسی کو دِکھائی نہیں دے رہیں) تو ’’ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ‘‘ کے قائد فضل اُلرحمن صاحب کو کیسے دِکھائی دے رہی ہیں ؟ کیا اُنکے ’’ دِیدے ‘‘ یعنی دونوں آنکھیں اتنی طاقتور ہیں کہ ’’ اُنہوں نے ( بقول اُن کے ) اُن قوتوں دیکھ اور پہچان بھی لیا ؟ ۔ بہر حال اُنہوں نے ’’ خلائی مخلوق ‘‘ کے بجائے ’’ نادِیدہ قوتوں ‘‘ کی ترکیب استعمال کی ہے۔ اُن قوتوں سے نمٹنے ؔ یا ’’ مُک مُکا ‘‘ کی ترکیب ِ استعمال کی ہے ؟ اُنہوں نے شاید (چُپ چپیتے ) مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری کو بتا دی ہو؟) 
’’عورت کی سربراہی !‘‘ 
 2 جنوری 1965ء کے صدارتی انتخاب میں فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان کے مقابلے میں قائداعظمؒ کی ہمشیرہ ’’مادرِ ملّت‘‘ محترمہ فاطمہ جناحؒ متحدہ اپوزیشن کی امیدوار تھیں تو (فضل اُلرحمن صاحب کے والد مرحوم ) مفتی محمود صاحب نے فتویٰ دِیا تھا کہ ’’ شریعت کے مطابق ، کوئی خاتون ؔاسلامی مملکت کی سربراہ نہیں ہوسکتی !‘‘ لیکن، محترمہ بے نظیر بھٹو دو بار وزیراعظم رہیں تو فضل اُلرحمن صاحب نے اپنی شریعت ؔکے مطابق اُن کی کھل کر حمایت کی‘‘ ۔ 1993ء سے 1996ء تک وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے وزیر داخلہ میجر جنرل (ر) نصیر اللہ خان بابر ؔ نے میڈیا سے کہا تھا کہ ’’ مَیں نے محترمہ وزیراعظم سے کہہ دِیا ہے کہ اگر آپ مولانا فضل اُلرحمن کو ’’ سٹیٹ بینک آف پاکستان ‘‘ کی چابیاں بھی دے دیں تو بھی وہ مطمئن نہیں ہوں گے ؟‘‘ 
پھر کیا ہُوا؟الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ارکان نے فضل اُلرحمن صاحب سے پوچھا کہ ’’ مولانا ؔ آپ وزیر داخلہ پر ہتکِ عزؔت کا دعویٰ کیوں نہیں کرتے؟‘‘۔ تو اُنہوں نے کہا کہ ’’ مَیں نے یہ معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دِیا ہے !‘‘۔ معزز قارئین ! فضل اُلرحمن صاحب 9 ستمبر 2008ء سے 9 ستمبر 2013ء تک صدر آصف زرداری کے حلیف رہے ، 5 جون 2013ء سے 28 جولائی 2017ء تک وزیراعظم نواز شریف کے ، یکم اگست 2017ء سے 31 مئی 2018ء تک وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے حلیف رہے اور اِس وقت "Protocol" کے مطابق اِن تینوں سابق حکمرانوں کے ’’ قائد ِ عوام ‘‘ ہیں ۔ 
19 مئی 2016ء کو ’’ نوائے وقت ‘‘ میں میرے کالم کا عنوان تھا ۔ ’’ زرداری بھاری تھے ، اب مولانا کی باری؟‘‘۔ دراصل ’’ شاعرِ سیاست‘‘ کے دو شعر یوں تھے کہ …؎
’’ پارلیمنٹ، میں جوڑ توڑ ہے، جیسے کاروکاریؔ!
کل جو رقِیب تھے ، اُن میں دیکھو، ہوگئی گوڑھی یاریؔ!
ہوتی رہی ہے ، ہوتی رہے گی ، بھوکے عوام کی خواریؔ!
زرداری بھاری تھے ،اب ہے مولانا کی باریؔ؟‘‘
…O…
سوال یہ ہے کہ ’’ مریم نواز اور بلاول بھٹو کی باریؔ کب آئے گی ؟ ‘‘
٭…٭…٭

مزیدخبریں