درویش کالم نگار رخصت ہوا

 جہان فانی سے ایک اور بڑی شخصیت رخصت ہو گئی ۔ڈاکٹر اجمل نیازی بڑے درویش اور ملنگ انسان تھے۔ وہ اپنے مخصوص لباس بول چال منفرد طرز تحریر اور باکمال شاعری کے سبب اپنی الگ ہی پہچان رکھتے تھے خوش رہنا ان کی طبیعت کا حصہ تھا انہوں نے بھر پور زندگی بسر کی پھر اچانک بیماری نے ایسی پکڑ کی کہ بستر کے ہو کر رہ گئے لیکن کیا مردانہ وار انھوں نے بیماری کا مقابلہ کیا۔ بستر پر بھی ان کا حوصلہ دیدنی تھا۔باوقار اتنے تھے کہ اتنی لمبی بیماری میں بھی نہ کسی دوست احباب اور نہ ہی کسی حکمران کے آگے دست سوال دراز کیا کسی سے اپنے علاج کے لیے بھی نہیں کہا ۔یہی ان کی انا انہیں دوسروں سے منفرد کرتی تھی۔ وہ اردو کے عظیم استاد تھے شاعری بھی کمال کی کرتے تھے ۔باقاعدہ کالم نگاری کا آغاز انھوں نے روزنامہ پاکستان سے کیا اس وقت ہم بھی اسی ادارہ میں تھے ۔پھر روزنامہ دن کے نیوز پیچ پر ان کا کالم شائع ہونا شروع ہوا تو انھیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا لیکن جو عروج انھیں نوائے وقت میں ملا وہ کمال تھا ۔آخری وقت تک نوائے وقت کے ساتھ منسلک رہے نوائے وقت ان کی پہچان بن گیا۔ وہ ٹی وی پروگراموں کی میزبانی بھی کرتے رہے دوران بیماری میں نے اور ناصر اقبال خان نے انہیں کہا کہ آپ بے شک ہفتے میں ایک کالم لکھا کریں لیکن یہ سلسلہ بحال کریں۔ انہوں نے ہمارے کہنے پر چند کالم لکھے لیکن بیماری نے انھیں بے بس کر دیا تھا ۔ان کے اہل خانہ اور رشتہ داروں نے ان کی بڑی خدمت کی اللہ ان کی خدمات کو قبول فرمائے۔ اتنی لمبی رفاقت میں بے شمار یادیں واقعات ان کے کہے ہوئے فقرے انمٹ نقوش ہیں لیکن ان کے ہمراہ ایک سفر بڑا یادگار تھا۔ ہم حسن نثار صاحب کی قیادت میں ڈاکٹر اجمل نیازی صاحب، حفیظ اللہ نیازی صاحب اور توفیق بٹ صاحب کے ہمراہ ترکی کے ایک ہفتہ کے دورہ پر گئے۔ سفر کا ایک ایک لمحہ یادگار تھا ہمارے ترکی کے میزبان لاہور سے ہی ہمارے ساتھ تھے ہم نے مختلف تاریخی مقامات اور اداروں کا وزٹ کیا۔ ڈاکٹر اجمل نیازی صاحب اپنی پگڑی کی بدولت ہر جگہ نمایاں رہے ۔ایک موقع پر ڈاکٹر اجمل نیازی صاحب ایک بحث کے دوران ناراض ہو گئے۔ میں نے زندگی میں پہلی بار حسن نثار صاحب کو کسی کو مناتے ہوئے دیکھا ورنہ وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے لیکن ڈاکٹر صاحب کے معاملہ میں انھوں نے انہیں روٹھے ہوئے محبوب کی طرح منایا۔ ایک دن ہم قونیا سے واپس استنبول پہنچے اور وہاں بھی زبردست مصروفیات کے باعث بہت تھکے ہوئے تھے۔ رات کو ڈاکٹر صاحب اٹھے اور ہمارے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹانے لگے دروازہ کھلنے کے بعد جب ہم نے پوچھا نیازی صاحب خیریت ہے کوئی مسئلہ تو نہیں کہنے لگے میں نے سوچا میں دیکھوں آپ لوگ سو گئے ہیں یا ابھی تک جاگ رہے ہیں ۔ ہم نے کہا ہم تو سو رہے تھے لیکن اب آپ نے اٹھا دیا ہے کہنے لگے اوہو چلو پھر اب سو جائیں۔ ان کا توفیق بٹ سے بڑا گہرا تعلق تھا وہ ان کا دل بہلانے کے لیے اٹکھیلیاں بھی کرتے تھے لیکن ان کا بہت زیادہ احترام کرتے انہیں استاد کا درجہ دیتے۔ نیازی صاحب کی فیملی کے اکثر لوگ شعبہ تعلیم سے وابستہ ہیں بڑوں کا ادب رکھ رکھائو ان کا خاصا ہے۔ ان کے دوبھتیجے اسد ایوب نیازی اور علی میرے چھوٹے بھائیوں کی طرح ہیں۔ ڈاکٹر اجمل نیازی صاحب میانوالی کے رہنے والے تھے لیکن وہ لاہور کی پہچان تھے ۔وہ لاہور کی ادبی، سماجی، سیاسی اور صحافتی محفلوں کی جان تھے ۔نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے ساتھ بھی ان کا خصوصی لگائو تھا وہ لوگوں کی خوشی غمی میں بھی شریک ہوتے تھے۔ اہل لاہور نے بھی ان سے وفات کی ان کے جنازہ میں ہر طبقہ فکر کے لوگ موجود تھے لیکن افسوس کہ وہ خواص لوگ جن کے بارے میں لکھ لکھ کر ان کا قلم گس گیا وہ موجود نہ تھے ۔نہ جانے ہماری سوسائٹی میں اس خاص طبقہ میں یہ خود غرضی کیوں نمایاں ہوتی جا رہی ہے۔ بہت پہلے معروف صحافی پا طارق اسماعیل کی چند ماہ کی بچی کا انتقال ہو گیا تو وزیر اعظم سے لے کر گورنر وزیر اعلی اور پاکستان کی کوئی ایسی سیاسی شخصیت نہ تھی جو ان کے گھر افسوس کے لیے نہ آئی ہو لیکن جب ان کی وفات ہوئی تو ان کے دوستوں کے علاوہ کوئی قابل قدر شخصیت نہ آئی۔ ڈاکٹر اجمل نیازی صاحب جیسے لوگ معاشرے کا اثاثہ ہوتے ہیں۔ ان کی رحلت اہل لاہور اور اہل پاکستان کے لیے سوگ ہے۔

ای پیپر دی نیشن