لاہور ہمیشہ ہی سے علم وادب کا گہوارا رہاہے۔ آج سے قریباً پچاس ساٹھ سال پہلے اسی مہذب شہر پر غیرمسلموں کی اجارہ داری تھی۔ ہر کاروبار پر وہی چھائے ہوئے تھے۔ رائے صاحب منشی گلاب سنگھ،عطر چند کپور،دوبڑے نام آج بھی ذہنوں سے محو نہیں ہوتے اور لاتعداد چھوٹے چھوٹے اشاعتی اداروں پر بھی غیر مسلموں کا عمل دخل تھا۔۔۔۔۔۔!گورنمنٹ کالج لاہور میں زمیندار گھرانے کا ایک سپوت چودھری برکت علی ذہین ہونہار طالبعلم اپنا آبائی کام کھیتی باڑی چھوڑ کر حصول علم میں سرگرداں تھا۔ یہ وہ دورتھا کہ مسلمان خال خال ہی اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکتے تھے۔ چودھری برکت علی کے ساتھیوں میں ایک نام سید فداحسن کا بھی تھا۔ علاوہ تعلیم کھیل کودمیں بھی نمایاں۔ انہوں نے روزاول ہی سے اپنے لیے تجارت اور وہ بھی نشر واشاعت کو منتخب کیاتھا کہ اس زمانے میں اس کاروبار پہ کاملا غیر مسلموں کی اجارہ داری تھی۔ گھر سے کچھ رقم حاصل کی اور بھاٹی دروازہ کے باہر ڈاکٹر سید طفیل حسین بخاری کے مطب کے ساتھ والی بڑی دکان کرایہ پر حاصل کے پنجاب بک ڈپو درسی کتابوں کی اشاعت کا ادارہ قائم کیا۔
چودھری برکت علی لگن کے پکے،جستجو کے سچے اور ارادے کے دھنی تھے۔ سخت محنت کوشش کی اور خاصی درسی کتابیں چھاپ کر مارکیٹ میں لے آئے۔ ان کے مقابل غیر مسلمان پہلے ہی کاروبار پر چھائے ہوئے تھے لہذا مقابلہ سخت ہوا اور یہ نڈر اور بے باک مسلمان چودھری برکت علی کامیاب ہوا۔خواجہ دل محمد،چودھری محمد طفیل، سیدنا ظر حسین قدوسی، مرحومین اور لاتعداد مسلم اساتذہ کی درسی کتابیں میسر آئیں اور انہیں نہایت ذوق شوق سے چھاپا۔ علاوہ نام کے مل بھی کمایا۔ چودھری برکت علی صاحب نے اپنا سکہ جمالیا۔ کام میں وسعت ہوئی۔ مددگاروں کی ضرورت محسوس ہوئی۔ گاؤں جاکر بڑے بھائی کے بڑے بیٹے چودھری نذیر احمد کو لے آئے۔ پنجاب بک ڈپو خوب پھلا پھولا۔ سینکڑوں کی تعداد میں درسی کتابیں چھاپ کر طلبا کی ضرورتوں کوپوراکیا۔ مستحق طلبہء کی امداد بھی کی۔
کاروبار کو نہایت احسن طریقے سے چلایا۔ درسی کتب کے ساتھ ساتھ ادبی کتابوں کی طرف بھی توجہ دی۔ ایک الگ ادارہ مکتبہ اردو قائم کیا اور اس دور کے ہر بڑے نام کی کتابوں کی قطار لگادی ۔عصمت چغتائی،منٹو،کرشن چندر،راجندرسنگھ بیذی، ممتاز مفتی ، بلونت سنگھ اور نہ معلوم کن کن ادیبوں کو گوشئہ تنہائی سے نکالا اور ادبی حلقوں سے متعارف کرایا۔اپنے برادر نسبتی چودھری عبدالکریم کو نظم و نسق کا انچارج بنایا۔ اپنی انتھک کو ششیں اورچودھری نذیر احمد کی جواں ہمتی سے ان سب کو چار چاند لگادئیے۔ پھر خیال آیا کہ ایک ادبی مجلہ بھی ہونا چاہیے۔ چناچہ’ ادبِ لطیف‘ ماہنامہ 1935ء میں شائع کیا۔ اس دور میں اور بھی پرچے نکل رہے تھے۔’ نیرنگِ خیال‘ ان سب میں سرفہرست تھا کہ اس پرچے کو بھی ایک کہنہ مشق ادیب حکیم محمد یوسف حسن نکال رہے تھے۔’ادب لطیف‘روزاول ہی سے جدید ادب کا نقیب اور نئے لکھنے والوں کا رفیق کہلایا۔ کل کے بڑے نام بھی قلمی معاونین تھے اور ادب میں بلند ترین نام’ادب لطیف‘ کی ادارت سے وابستہ اور منسلک رہے۔ ان میں فیض احمد فیض ، میرزاادیب، فکر تونسوی،عارف عبدالمتین، انتظار حسین، کشور ناہید، حمید اختر اور بے شمار ادیب شاعر، صحافی ادب لطیف کی ادارت کرتے رہے۔ کاروبار پھیلا یا۔ پنجاب بک ڈپو کی کوکھ سے مکتبہ اردو نے جنم لیا اور مکتبہ اردو نے مکتبہ جدید کو جنم دیا۔
ادبی کتابوں کا ایک سیلاب آگیا۔ اگر ایک ادیب کی کتاب آج مکتبہ اردو نے چھاپی توکل دوسرے کی نئی کتاب مکتبہ جدید نے چھاپ کر بازار میں پیش کردی۔ طباعت کا ایک معیار بھی قائم کیا۔ ان اداروں کی شائع کردہ کتب اور وسائل آج بھی اپنی آن بان شان میں منفرد ہیں۔ چودھری برکت علی حلقۂ احباب میں بے حد مقبول تھے۔ قیام پاکستان پر سب سے بڑی خدمت انہوں نے یہ کی کہ ایک ادارہ پبلشر ز یونائیٹڈ قائم کیا۔ اس کے دوحصے تھے۔ ایک حصہ اردو کتب شائع کرتا اور دوسراحصہ انگریزی کتابیں برآمد کرکے فروخت کرتا۔ شیخ عبدالاسلام مشہور پبلشر اردو حصہ کے انچارج اور انگریزی حصہ کے انچارج محمد امین ہوتے۔ اپنے دو اور بھتیجوں کو علمی ادبی کتابوں کی نشر واشاعت کی طرف راغب کیا۔ چودھری بشیراحمد جو ان کے بڑے داماد بھی ہیں اردو ادب کی اشاعت میں ایک بلند مقام کے حامل ہیں۔ اور ان کے چھوٹے بھائی چودھری رشید احمد علاوہ پبلشر کے ایک جدید طباعت کے مرکز کے مالک بھی ہیں۔ محمد حنیف رامے چودھری برکت علی کے بھتیجے ہیں۔ انہوں نے جہاں ادب مصوری صحافت ورثے میں پائی ہے وہاں چچا مرحوم کے مزاج کے عین مطابق سیاست میں بھی مقام حاصل کیا ہے اور پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے چیف منسٹرر ہے ہیں۔ چودھری برکت علی ایک بے قرار روح لیکر آئے تھے۔ علاوہ درسی اور ادبی کتب کے انہوں نے فلاحی کاموں میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی ۔ قیام پاکستان کے یکے بعد دیگر ے کئی مدارس قائم کئے ہائی سکول اور جونئیر ماڈل سکول اپنے پیچھے یاد گار کے طور پر چھوڑ ے۔ چودھری برکت علی کے بڑے صاحبزادے چودھری افتخار علی اپنے باپ کی طرح ایک اعلیٰ ذوق کے ساتھ ساتھ خاندانی شرافت اور نجابت کے بھی علمبر دار ہیں۔ ان کے چھوٹے بھائی بھی اپنے والد کے اپنائے ہوئے پیشہ پبلشنگ سے وابستہ ہیں۔چودھری صاحب کی دوسری صاحبزادی محترم صدیقہ بیگم ایک اعلیٰ ذوق کی حامل ادیبہ ہیں۔ آج کل وہ ادب لطیف کی ادارت سنبھالے ہوئے ہیں۔ انشاء اللہ چودھری برکت علی مرحوم کے قائم کردہ ادارے پنجاب بک ڈپو ۔ مکتبہ اردو اور رسالہ ادب لطیف نئے ولولے ، جذبے اور لگن کے ساتھ ایک بار پھر جلوہ گر ہوکر رہیںگے۔ حال ہی میں میں محترمہ صدیقہ بیگم نے ان ادب لطیف کی پچا سویں سالگرہ کی تقریب منعقد کرکے ادب لطیف کے مداحوں کو چونکا دیا،چودھری صاحب کے تیسرے بیٹے محمد خالد چودھری اپنے ذاتی اشاعتی ادارے چودھری اکیڈمی لاہور اور پرانے ادارہ پنجاب بُک ڈپو کی ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے ہیں۔ ان کے جوان سال بیٹے چودھری محمد طارق بھی اپنے والد کے ساتھ اپنے آبائی کام میں مصروف ہیں اور معیاری ادبی کتب کی اشاعت کا گہرا شعور رکھتے ہیں۔