قدرت ایسے لوگوں کے لئے پوری دنیا کو ان کی مجلس بنا دیتی ہے ، دنیا کو انکی" اسیرـ" اور انہیں انکا"امیر" بنا دیتی ہے۔تاریخ نام ہے رونما ہوئے واقعات اور ان سے وابستہ افراد کا ،اس کے ساتھ انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ اس میں سچ کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی قسم کی تحریف و ترمیم نہ ہو اور جھوٹ سے ایسے ہی پاک ہو جس طرح شبنم کے قطرے شفافیت کا نمونہ ہوتے ہیں۔اس تمہید کا بنیادی مقصد تاریخ کی عظمت اور ایک ایسی شخصیت کا ذکر خیر اور اس کے محاسن ،خوبیوں ،جہتوں اور جرأتوں کا تذکرہ ہے جو تاریخ بسالت کا اچھوتا،نایاب اور انمٹ باب ہے۔
جسارتوں کے جزیرے میں آخری حد تک
لکھی گئی ہے بسالت کی داستاں مجھ سے
میری مراد حضرت آغا شورش کاشمیری ؒسے ہے۔ جن کی آج 46 ویں برسی منائی جارہی ہے ۔
میرا حافظہ اگر غلطی نہیں کر رہا تو 1967ء ،یوم اقبال کا موقع وائی ایم سی اے ہال لاہور انسانوں سے بھرا ہوا ہے جبکہ شہر لاہور اپنے سیاسی ، سماجی اور ادبی سر گرمیوں کے نقطہ عروج پر ہے۔ میں اس وقت چوتھی جماعت کا طالبعلم تھا اپنے چند بزرگ عزیزوں کے ساتھ والدِ محترم کی تقریر سننے کے لئے ایک دیوار کے ساتھ چپک کے کھڑا ہوں آمریت کے گھٹن زدہ ماحول، آمرانہ اور تکبرانہ حکمرانی کے دور میں عاشقانِ محمدﷺ کے جاہ و جلال اور نعرہء مستانہ کا اپنا ہی ایک رنگ، انداز، اسلوب اور نشہ ہوتا ہے مجھے ان تمام راز و رموز کی کوئی اتنی آگاہی تو نہیں تھی مگر نسل در نسل جسم میں خون کی جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عشق دوڑ رہا ہے وہی جذبہ مجھے " دیوانہء محمدﷺ "کی تقریر سننے کو لے گیا۔
والدِ محترم کا خطاب کیا تھا اس کا احاطہ کوئی شخص نہیں کر سکتا ان کے ہم عصر بھی بہت پیچھے تھے سچ تو یہ ہے کہ ان کی خطابت، شاعری، انشاپردازی، ادبی اور سیاسی زندگی پر ان کے اساتذہ ہی بہتر لکھ پاتے اور بیان کر سکتے تھے۔کیونکہ ان کے بقول ’’تقریر نام ہے دماغوں کو اُجالنے، دلوں کو بھڑکانے اور طبیعتوں کو اٹھانے کا‘‘
اسی تقریر میں انہوں نے اپنا برجستہ شعر کہا جس کی باز گشت آج بھی میرے وجدان میں گھوم رہی ہے
ہم چراغِ آخرِ شب ہیں عزیزانِ وطن
پھر کہاں زورِ خطابت پھر کہاں نقدِ سخن
بہرحال میں اپنی کم علمی، کم فہمی اور کم نظری کو قبول کر تے ہوئے حضرت شورش کاشمیریؒ پر کچھ لکھنے کی جرأت کر رہا ہوں حقیقت یہ ہے کہ آج اپنے اردگرد دیکھتا ہوں معاشرے پر نظر دوڑاتاہوں تو مصنوعی اور نام نہاد بڑے لوگوں کا ہجوم نظر آتا ہے جو خود کو کسی نہ کسی طریقے سے بڑا ظاہرکرنے کے خبط میں مبتلا نظر آتے ہیں تو پھر مجھے حضرت شورش کاشمیریؒ کا یہ فقرہ یا د آجاتا ہے ’ ’وہ خوبی بھی کیا خوبی ہے جس کے لئے انسان اشتہار بن جائے‘‘۔ 15 ستمبر 1970 ء میں اپنے ہفت روزہ چٹان میں سیاست اور سیاستدانوں کے عنوان سے لکھتے ہیں ’’ جس طرح ٹھہرا ہوا پانی بالآخر گندہ اور بدبودار ہوجاتا ہے اسی طرح سیاست کے میدان میں خود رو پودوں کے بھر مارنے قدآور درختوں کی امتیازی حیثیت ختم کردی ہے‘‘۔جب میں شورش کاشمیری کی پوری زندگی کا مطالعہ کرتا ہوں تو ان کی جد و جہد آزادی اور جمہوریت کی بقاء کے تقریبا 18 برسوں پر محیط قید و بند کا لامتناہی سلسلہ مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ آخر یہ کون لوگ تھے؟ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس سر زمین میں اس لئے بھیجا کہ وہ اس کے محبوب آخری نبی الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت، ناموس اور حرمت کے لئے اپنی زندگیوں کو وقف کر دیں اور دنیاوی خداؤں، آمروں اور سیاسی مجرموں کو للکارتے ہیں۔
یہاں مجھے والدِ محترم کی ایک نظم بہت یاد آ رہی ہے جو آپ کے لئے پیش خدمت ہے ۔
زور بیان و قوت اظہار چھین لے
مجھ سے میرے خدا ! میرے افکار چھین لے
کچھ بجلیاں اتار قضا کے لباس میں
تاج و کلاہ و جبہ و دستار چھین لے
عفت کے تاجروں کی دکانوں کو غرق کر
نظارہ ہائے گیسوو رخسار چھین لے
میں اور پڑھوں، قصیدہِ ارباب اختیار
میرے قلم سے جرآت رفتار چھین لے
ارباب اختیار کی جاگیر ضبط کر
یا غم زدوں سے نعرہ ٔ پیکار چھین لے
آغا شورش کاشمیریؒ کی زندگی کا ایک پہلو انتہائی نمایاں اور طاقتور ہے وہ ختمِ نبوت کی حرمت اور آقائے دو جہاں حضرت محمدﷺ سے عشق اور انگریز سامراج کے تخلیق کردہ فرقے مرزائیت سے سخت نفرت تھی ۔
فرمایا کرتے تھے جو لوگ کسی جمال و کمال کے بغیر اپنے خدا ہونے پر اصرار کریں اور پھر گماں ہو کہ بڑے آدمیوں میں سے ہیں، انہیں نہ تو ذہن قبول کرتا ہے او ر نہ دل مانتا ہے اور نہ قلم کے ہاں ان کے لیے کوئی عزت ہے۔ میں نے اس قسم کے خداؤں اور انسانوں سے ہمیشہ بغاوت کی ہے۔حضرت شورش کا شمیریؒ کے متعلق کچھ کہنے، لکھنے اور بیان کرنے کے لیے انہی کے پا ئے کا ادیب، انشا پرداز، صحافی، شاعر، مورخ اور سیاست دان ہونا شرطِ اول بھی ہے اور تقاضہ زبان و بیان بھی نقل اصل کو ادا تو کر لیتی ہے مگر اس سے وفا نہیں کر سکتی۔ میں نے بہت سے لوگوں کو ادب و انشا، صحافت، خطابت اور سیاست میں شورش کا شمیریؒ کے انداز کی چغلی کھاتے دیکھا ہے لیکن کہیں نہ کہیں ایک ایسا مقام بھی آتا ہے جہاں ان کی شخصیت کا بھرم کھل جاتا ہے ۔شورش کاشمیریؒ ہونے کے لیے ’’اقتدار اور سرکارسے انکار کرنا پڑتا ہے‘‘ جبکہ’’ قلم سے فساد نہیں جہاد کرنا پڑتا ہے ۔
٭…٭…٭