پیر،   27 ربیع الاول    1444ھ،  24اکتوبر  2022ء

پی ٹی آئی کے ایم این اے کی گرفتاری والی تصویر جاری کرنے پر 2پولیس اہلکار معطل
احتیاط اور اختیار نجانے کیوں ایک دوسرے کی ضد بن جاتے ہیں۔ اختیارات ہوں تواحتیاط کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جاتاہے۔ یہاں سے خرابی وجود میں آتی ہے۔ اب اگر صاحب اختیار باوردی ہوں تو پھر سونے پہ سہاگہ والی بات سامنے آتی ہے۔ احتیاط بے چاری کہیں کسی گوشئہ تنہائی میں بیٹھی آنسو بہا تی رہ جاتی ہے اور اختیارات رانی کسی کے قابو میں نہیں آتی ۔ گذشتہ روز اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی صالح محمد کے گارڈ نے گولی چلادی یا اس سے چل گئی حالات نازک تھے معاملہ خطرناک تھا اس لیے اسے اسلام آباد پولیس کے اہلکاروں نے پکڑ لیا۔ اب یہ گارڈ جو ایم این اے کے ساتھ آیا تھا اچانک جذباتی ہوگیا اور عمران خان کے حق میں نعرے لگانے لگا۔گارڈ کی اس حرکت پر ایم این اے اور ان کے ساتھ آئے دونوں گارڈ گرفتار ہوئے۔ یہاں تک تو معاملہ سادہ رہا مگر ایم این اے صالح محمد کی حوالات میں گلے میں سلیٹ ڈال کر تصویر جنہوں نے کھینچی اور وائرل کی وہ دونوں پولیس اہلکار وں کی یہ نہایت مکروہ حرکت تھی۔ جس سے عوام میں اشتعال پھیلا اور کوئی بھی باہوش اس کی حمایت نہیں کرتا یہ الگ بات ہے کہ چچاغالب ایسے موقعوں پر’’بدنام جو ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا‘‘ کہہ کر دل پشاوری کرتے تھے۔مگر صالح محمد کے لیے ایسا کرنا شاہد ممکن نہ ہو۔بہرحال ایک عوامی نمائندے کی اس تذلیل پہ شکر ہے اسلام آباد پولیس نے دونوں اہلکاروں کو معطل کردیاہے مگر انہوں نے یہ حرکت کیوں کی کس کے کہنے پر کی اسکا سراغ لگانا بھی ضروری ہے۔ اگر از خودکی توانہیں واقعی سزا ضروردی جائے محض معطلی کافی نہیں۔۔۔۔۔۔
٭٭٭٭
بھارت آئے یا نہ آئے ایشیا کپ پاکستان میں ہی ہوگا۔پی سی بی
یہ ہوتی ہے بات مردوں والی۔ جو فیصلہ ہوچکا اس سے ہٹنا کیسااور کیوں۔ اور کسی کو فکر نہیں پریشانی نہیں مگر بھارتی کرکٹ بورڈ کونجانے کیوں پاکستان میں ایشیا کپ مقابلوں سے تن بدن میں آگ لگی ہوئی ہے۔ اسے یہ غم ہے کہ اس طرح کروڑوں کی کمائی پاکستان کو ہوگی۔ یہ بات بھارت والوں سے برداشت نہیں ہورہی ۔ خود انڈین کرکٹ بورڈ عالمی مقابلے بھارت میں کراکر خوب پیسے کمارہاہے۔ اس پر توپاکستان نے کبھی اعتراض نہیں کیا۔ عالمی سطح پر پاکستان سے زیادہ بھارت کو خطرناک ملک سمجھاجاتاہے۔ دنیا کے کئی ممالک نے اپنے شہریوں کو وہاں سفر کرنے سے محتاط رہنے کی ہدایات جاری کی ہیں مگر بھارت والے الٹا چور کوتوال کوڈانٹے کی پریکٹس کررہے ہیں۔ گذشتہ برس سے آج تک دنیا بھرسے کئی عالمی ٹیمیں پاکستان کرکٹ کھیلنے آئیں کسی نے کوئی شکایت نہیں کی۔ کسی کو کوئی مسلہ نہ ہوا۔ صرف یہی نہیں کھلاڑیوں نے شاپنگ کی فوڈ سٹریٹ گئے۔ انہیں عزت ملی محبت ملی۔ اب تک آنے والی ٹیمیں پاکستانیوں کی محبت اور کھانوں کی تعریف میں رطب السان ہیں۔ پی سی بی نے بہت اچھا کیا ہے کہ وہ اپنے فیصلے پہ ڈٹ گیاہے۔ اگر ہربات پر ہم سرتسلیم خم کرنے لگے تو یہ بکری خودشیر بننے کی کوشش کرتی رہے گی۔ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل بھارت کی اس ھٹ دھرمی کا نوٹس لے اور اسے کھیل میں اپنی منفی سیاست کو گھسیٹنے سے باز رہنے کا کہے۔۔۔۔
٭٭٭٭
25اکتوبر کو سورج گرھن پر بھارتی ریاست میںعام تعطیل کا اعلان
یہ ہوتی ہے توہم پرستی۔ جو انسان کو آہستہ آہستہ خوفزدہ کرکے بزدل بنادیتی ہے۔ جسکی وجہ سے وہ کبھی حجر کبھی شجر کبھی ستارے کبھی سیارے کے سامنے اپنا سرجھکاتاہے۔ اور اسکے خوف سے لرزاں رہتاہے۔ سیاروں اور ستاروں کی پر ستش کی کہانی لاکھوں سال پرانی ہے جب کم ذہن والے خوفزدہ انسانوں نے ان کے تغیر اور تبدیلی کو ان کا غصہ یا خوشی سمجھتے ہوئے ان کو خوش کرنے کے لیے ان کی پوجا شروع کی۔ ان میں سورج اور چاند سب سے اہم ہیںکیونکہ زمین پر رہنے والے براہ راست ان کا مشاہدہ کرتے تھے۔ سورج گرہن ہو چاند گرہن اس سے خوفزدہ ہوجاتے تھے۔ یہاں پر چالاک مذہبی پروھتوں نے اپنی دھاک بٹھانے کے لیے دیوی دیوتاؤں کی ناراضی ختم کرنے کے لیے بھینٹ اورچڑھاوے چڑھانے کی رسم بنائی تاکہ ان کوآرام سے بیٹھے بٹھائے مال ملتارہے۔ یہ تو قدیم دور کی بات ہے اس جدید دور میں بھی دیکھ لیں بھارت جوخود کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کا مرکز قرار دیتاہے وہاں کے صوبے اوڑ یسہ میں توہم پرست حکمرانوں نے سورج گرہن کے دن پوری ریاست میں چھٹی کا اعلان کردیا۔ ستاروں پر کمندیںڈالنے والاانسان اتنا بودا ہوگیا کہ وہ ان توہمات اور خرافات پر ایمان رکھتاہے۔ ہمارے مذہب اسلام میں اسے اللہ تعالیٰ کی نشانیاں قراردیاگیاہے۔ اس موقع پر صرف اللہ کریم کی عبادت کے لیے نفلی نماز کسوف اداکی جاتی ہے۔ مگر اس کے باوجود ہمارے ہاں بھی اس موقع پر بہت سی توہمات کو جگہ دی جاتی ہے اورخرافات کیے جاتے ہیں۔ خاص طورپر جعلی ٹھگ جوتشی ،عامل اورپیر اس موقع سے خوف کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور توہم پرست خواتین بھی خاصی پریشان رہتی ہیں۔۔۔۔

٭٭٭٭
 پنجابی فلم لیجنڈ آف مولاجٹ کی ملک وبیرون ملک پذیرائی
 سنایا رات کو قصہ جوہیر رانجھے کا ہم اہل درد کو پنجابیوں نے لوٹ لیا۔انشااللہ خان انشا کا یہ شعر پنجابی زبان کی رومانویت اور سحر کی بھر پور عکاسی کرتاہے۔ بعض جگہ ’’کہانی ایک سنائی ہے جو ہیررانجھا کی‘‘ بھی درج ہے۔ بہر حال بات ہورہی تھی پنجابی زبان کی جو کم وپیش 18تا 20 کروڑ افراد کے زیر استعمال ہے یوں کہہ لیں انکی ماں بولی زبان ہے۔ اس زبان کے خمیر میں ہی عشق ومحبت کی چاشنی اور حسد ونفرت کی آنچ کچھ اس طرح شامل ہے جس نے اسے دو آتشہ بنادیا ہے۔ ہیر رانجھا میں کید ونہ ہو داستان کا مزہ نہیں آتا اسی طرح پنجابی فلم انڈسٹری میں مولا جٹ کا ذکر نہ ہو تو فلمی تاریخ مکمل نہیں ہوتی۔ جنہوں نے پرانی مولاجٹ دیکھی وہ لوگ ابھی زندہ ہیں۔ کیا کھڑکی توڑ رش رہتا تھا اس سینما میںجہاں یہ لگی تھی۔ پھر مولاجٹ کی شکل میں سلطان راہی اور نوری نت کے کردار میں مصطفی قریشی محبت اور نفرت کی علامت بن کر سامنے آئے یہ پنجابی کی پلاٹینیم جوبلی فلم رہی۔ جسکے فنکاروں کا سحرآج تک طاری ہے۔اب نئی پنجابی فلم’’دی لیجنڈ آف مولاجٹ‘‘ میں جس نئے انداز میں فلم سنیماگھروں کی زینت بنی ہے اس نے پنجابی فلموں کی دم توڑتی صنعت کو پھر سہارا دیاہے۔ فوادخان اور حمزہ علی نے ایک بارپھر دنیا بھر میں پنجابی فلموں کے شائقین کا دل جیت لیاہے۔ کروڑوں پنجابی بولنے والے خوش ہیں کہ بڑے عرصے بعد کوئی پنجابی فلم ملکی وغیر ملکی پنجابی فلم بینوں کے لیے کشش کا باعث بنی ہے۔ پنجابی ایک میٹھی زبان ہے ۔ کیا معلوم کوئی اہل دل ہیر رانجھا کو بھی نئے سیکوئیل کے ساتھ پیش کرکے اہل پنجاب ہی نہیں اہل درد کا دل بھی ایک بارپھرلوٹ لے۔۔۔۔
٭٭٭٭

ای پیپر دی نیشن