بنی اسرائیل پر انعامات : سورہ بقرہ میں بنی اسرائیل سے خطاب کرتے ہوئے انھیں وہ نعمتیں اورانعامات یاد دلائے گئے، جن سے اللہ رب العزت نے انھیں دنیا کی دیگر قوموں کے مقابلے میں برتری اورفضیلت عطاء فرمائی ۔ ان میں کثرت سے انبیاء کرام کو مبعوث کیاگیا ۔ انھیں عقیدہ توحید اورایمان کی نعمت عطاء کی گئی ، غلامی کے بعد انھیں فرعون کے مظالم سے نجات ملی، فرعون نے ان کے تعاقب کی کوشش کی تودریائے نیل میں ان کے لیے راستے کشادہ کردیے گئے اورفرعون کو اس کے لائو لشکر سمیت غرق کردیاگیا، وہ صحرائے سینا میں بڑی بے سروسامانی کے عالم میں تھے کہ ان کے لیے آسمان سے من وسلویٰ اتاردیاگیا اورٹھنڈے اورخنک بادل ان پر سایہ فگن ہوگئے ۔ ان کی بار بار کی نافرمانیوںکے باوجود انھیں مستحکم حکومت عطاء کی گئی اورانھیں آسودگی اورخوشحالی سے نوازاگیا۔
بنی اسرائیل کا کفران نعمت: ان نعمتوں اورفراوانی کے باجود اورباربار معافی ملنے پر بھی بنی اسرائیل نے اللہ رب العزت کی فرمانبرداری نہ کی اوربتدریج کفران نعمت کا راستہ اختیار کیا، قرآن نے ان کی گذشتہ تاریخ کے کئی ایک واقعات میں ان کے سرکش طرز عمل کا ذکر بھی کیا اورحجاز میں مقیم ان کے قبائل کی موجود روش کو بھی بیان کیا، ان کے وہ نمایاں جرائم جن کی وجہ سے ناپسندیدہ قوم بن گئے ہیں درج ذیل ہیں : وہ دیدہ دانستہ حق سے اغماض کررہے ہیں اسے چھپارہے ہیں اورختم النبین علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نبوت سے انکار کررہے ہیں ، وہ یاد کریں کہ انھوںنے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کوہ طور پر حاضری کے دوران سامری کے فریب میں آکر بچھڑے کو اپنا معبود بنالیا تھا۔ دشت سینا میں بے صبری ،حرص اورطمع کا مظاہرہ کیا، فتح کے بعد انھیں اریجا شہر میں عاجزانہ داخلے کا حکم تھا، لیکن وہ بڑے متکبرانہ انداز میں داخل ہوئے وہ انبیاء کرام کے ناحق قتل کے مرتکب ہوتے رہے۔
اللہ سے باربار عہدشکنی کرتے رہے، ان کے دل پتھر سے زیادہ سخت ہوگئے ، وہ کلام اللہ میں لفظی اورمعنوی تحریف کرنے لگے ، انھوںنے اسیر اورغریب کے لیے علیحدہ علیحدہ فتویٰ دینے شروع کردیے ، شریعت کے بعض احکام پر ایمان لاتے اوربعض احکام کا انکار کرنے لگے ، حسد اوربغض ان کا شعار بن گیا ، مادی زندگی سے مبالغے کی حدتک محبت کرنے لگے، اللہ رب العزت کا مقرب فرشتوں خصوصاً حضرت جبرائیل علیہ السلام سے کھلم کھلا بیرازی کا اظہار کرتے ، جادو ، کہانت اورسفلی عملیات میں زیادہ دلچسپی لینے لگے ، ایسے مکروہ عملیات میں پڑگئے جس نے میاں بیوی میں اختلاف پیدا ہوجاتا اورایک ہنستے بستے گھرانے کا سکون غارت ہوجاتا اوران تمام خرابیوں اوربدعملیوں کے باوجود جنت کے واحد ٹھیکیدار ہونے کے بھی دعویدار تھے، یہی طرز عمل نصاریٰ کا بھی تھا، یہ علامات امت مسلمہ کے لیے بھی بڑے غور وفکر کی متقاضی ہیں کہ کہیںیہی خرابیاں ہمارے وجود کو بھی کھوکھلا کرنے کا سبب تو نہیں بن رہیں۔