معیشت کی بحالی کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز کو متحد ہونا چاہیے

Oct 24, 2022

ایک طرف پاکستان کو بڑھتے ہوئے معاشی مسائل نے گھیر رکھا ہے اور دوسری جانب سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ملک اور عوام کی پریشانیوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ سیاسی قائدین کے بیانات اور تقریروں سے ایسا لگتا ہے کہ انھیں ملک اور قوم کی کوئی پروا نہیں، اس لیے وہ پوائنٹ سکورنگ کے لیے ہر وہ بات کہہ رہے ہیں جس سے وہ اپنے سیاسی وابستگان کو خوش اور مطمئن کرسکتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت سے وابستہ افراد اپنے قائد سے یہ پوچھنے کی جرأت نہیں کرسکتے کہ اپنے دورِ حکومت میں اس نے عوامی مسائل کو دیرپا بنیادوں پر حل کرنے کے لیے کون کون سی پالیسیاں بنائیں اور کن کن اقدامات سے اپنی ذات اور اپنے ساتھیوں کو فائدہ پہنچایا۔ سیاسی قیادت عوام کے سامنے خود کو کسی بھی بات کے لیے جواب دہ نہیں سمجھتی اسی لیے ان کی ساری توانائیاں ایسے عناصر کو فائدے پہنچانے کے لیے صرف ہوتی ہیں جو ہر سیاسی جماعت اور قائد کا احتساب کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔
ان دنوں جن موضوعات پر سیاسی رسہ کشی جاری ہے ان میں سے ایک آئندہ عام انتخابات کا انعقاد بھی ہے۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف نے اس حوالے سے واضح طور پر کہا ہے کہ عام انتخابات ابھی نہیں ہوں گے، گیارہ ماہ بعد ہوں گے۔ ابھی ہم نے معیشت ٹھیک کرنی ہے، ہماری حکومت کو آئے ہوئے چھے مہینے ہوئے ہیں یہ سب ماضی کی پالیسیاں ہیں۔ ماڈل ٹائون لاہور میں واقع پارٹی سیکرٹریٹ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ دوست ممالک کے گھٹنوں کو ہاتھ لگا رہا ہوں کہ سستی ترین گیس مل جائے۔ پاکستان کی بہتری کے لیے ہر در پر جانے کے لیے تیار ہوں۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ سے نکلنے پر قوم کو مبارک باد دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس سے پاکستان کی معیشت میں بہتری آئے گی، یہ کامیابی تمام اداروں کی اجتماعی کاوشوں کے طفیل حاصل ہوئی۔ سیاسی معاملات پر بات ہوتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اپنی آنے والی نسلوں اور ملک کی بہتری کے لیے ہر ایک سے بات چیت کے لیے تیار ہیں۔
سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان سے شہباز شریف کا کہنا تھا کہ چھے سال جس نے دن رات الزامات لگائے آج وہ چور نکلا۔ توشہ خانہ کی رپورٹ اچھی نہیں، چیزیں گم ہو جاتی ہیں، عمران نیازی نے الیکشن کمیشن کو بتایا ہی نہیں کہ یہ تحفے میں نے بیچ دیے ہیں۔ عمران خان کی آرمی چیف سے ملاقات کے سوال پرجواب دینے سے گریز کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ میرے عہدے کا تقاضا ہے اس پر بات نہ کروں۔ اس موقع پر انھوں نے مزید کہا کہ پنجاب حکومت گندم کی درآمد نجی شعبے کے ذریعے کرنا چاہتی ہے، عوام پر بوجھ نہیں ڈال سکتے اس لیے اس کی اجازت نہیں دے سکتے۔ وفاق ضرورت کے مطابق گندم درآمد کر رہا ہے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں لوگ بے گھر بیٹھے ہیں، تعلیمی ادارے بند ہیں، کاروبار ٹھپ ہیں، کروڑوں افراد متاثر ہیں۔ ان کے مسائل جلسے جلوسوں اور بدتہذیبی کے کلچر سے حل نہیں ہوں گے، اس کے لیے اتحاد و اتفاق کی ضرورت ہے جس طرح جوہری پروگرام پر ہم نے اتحاد کا مظاہرہ کیا۔ 
دوسری جانب، عمران خان نے حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں کے ساتھ ہونے والے بیک ڈور چینل مذاکرات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ مجھے ان کا کوئی نتیجہ نظر نہیں آرہا۔ جمعرات یا جمعہ کو لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کر دوں گا۔ اسلام آباد میں سینیٹر اعظم سواتی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتیں تو ہمیشہ بیک ڈور چینل سے مذاکرات کرتی رہتی ہیں۔ ہم انتخابات چاہتے ہیں۔ انھوں نے میری پارٹی کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ عوام ہمارے ساتھ نکلے تو ان کو خوف آنا شروع ہوا کہ ہوا کیا ہے۔ لوگ ہمارے ساتھ سڑکوں پر نکل آئے اور ہمارے احتجاج پر انھوں نے جو ظلم کیا، اس پر ہمیں اندازہ ہوا یہاں توجمہوریت سے کوئی تعلق ہی نہیں۔انھوں نے مزید کہا کہ اس کے بعد ہمارے ساتھ ایسے حربے استعمال کیے گئے کہ پاکستان میں اس طرح کی حرکتیں کبھی نہیں دیکھی گئیں۔
ادھر، عمران خان کی نااہلی کے خلاف درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت کے لیے مقرر کردی ہے۔ عمران خان نے بیرسٹر علی ظفر کے توسط سے الیکشن کمیشن کے فیصلے کواسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔ درخواست میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن کرپٹ پریکٹس کا فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتا، اس لیے الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔ درخواست میں سیکرٹری الیکشن کمیشن، قومی اسمبلی کے سپیکر اور سیکرٹری سمیت دیگر فریق بنایا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے اپنے تفصیلی فیصلے میں واضح کیا ہے کہ نااہل قرار دینا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے، الیکشن کمیشن 120 دن بعد بھی اثاثوں کے گوشواروں میں غلط معلومات دینے یا چھپانے اور جھوٹے ڈیکلریشن پر کارروائی کا اختیار رکھتا ہے۔ علاوہ ازیں، پنجاب ، خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان کی اسمبلیوں میں عمران خان کی نااہلی کے خلاف قراردادیں بھاری اکثریت سے منظور کر لی گئی ہیں۔
اس ساری صورتحال سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتیں عوامی مسائل کو پس پشت ڈال کر صرف اس بات پر توجہ دے رہی ہیں کہ ایوانِ اقتدار پر کس کا قبضہ ہونا چاہیے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کے معاشی اور سماجی مسائل اس وقت تک حل نہیں ہوسکتے جب تک ملک میں سیاسی استحکام پیدا نہیں ہوگا اور اس کے لیے تمام سیاسی قیادت کو متحد اور یک جہت ہونا پڑے گا۔ وزیراعظم شہباز شریف کا یہ کہنا درست ہے کہ سب کو ویسے ہی جذبے کے تحت اکٹھا ہونا پڑے گا جس کے تحت پاکستان کے لیے جوہری قوت کا حصول ممکن ہوا تھا لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس سلسلے میں آگے بڑھ کر سب کو ساتھ لے کر چلنے کے لیے مثبت کردار کون ادا کرتا ہے۔

مزیدخبریں