لاہور (نامہ نگار + نوائے وقت رپورٹ + این این آئی) پیپلز پارٹی کے چیئرمین، وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ کسی بھی وزیراعظم کو ہٹانے کا جمہوری طریقہ عدم اعتماد ہے۔ آپ کو یہ بات پسند آئے نہ آئے وزیر اعظم کو ہٹانے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے عدم اعتماد۔ عمران خان سلیکٹڈ وزیراعظم تھا لیکن پارلیمان نے اسے جمہوری طریقے سے آئینی عدم اعتماد سے گھر بھیجا۔ ماضی میں پھانسی،خودکش حملے، گیٹ نمبر 4 اور عدلیہ کے ذریعے وزیراعظم گھر اور باہر بھیجے گئے۔ ہمیں عدلیہ اور گیٹ نمبر4 کی طرف نہیں دیکھنا چاہیے۔ مستقبل میں کسی وزیراعظم کا احتساب کرنا ہو تو جمہوری طریقے سے ہو۔عمران خان پہلے وزیراعظم تھے، جنہیں جمہوری طریقے سے گھر بھیجا گیا۔ ان خیالات کا ظہار انہوں نے گزشتہ روز لاہور کے ایک ہوٹل میں عاصمہ جہانگیر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا عمران خان نے معیشت کو نقصان پہنچایا، جس کا بوجھ آج پاکستان کے عوام بھگت رہے ہیں۔ عمران خان نے اپنے ہی ملک پر خود کش حملہ کر کے وزیر اعظم کا دفتر چھوڑا۔ تمام سیاسی جماعتوں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ عمران خان اپنی ہی معیشت پر خودکش حملہ کردیں گے۔ ہم نے پاکستان کی معیشت کو بچایا، عوام کو مشکلات سے بچایا، ہم نے سیاسی قیمت ادا کرکے پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچایا۔ ملک کو ڈیفالٹ سے بچایا تو سیلاب آگیا، سیلاب متاثرہ علاقوں میں آب بھی لوگ پریشان ہیں، مل کر سیلاب متاثرین کی مدد کرنا ہوگی۔ سیلاب متاثرین کی بحالی ہماری ترجیح ہونی چاہیئے ،لیکن ایسا نہیں ہے۔ ہم بحالی کے مرحلے میں داخل ہوں گے تو پاکستان کو مثال بنائیں گے، میری اپیل ہے سیاسی ایشوز میں سیلاب متاثرین کو نہ بھولیں۔ہم ملکر پاکستان میں جمہوریت کا دفاع کریں گے، ہم کوشش کریں گے نئی نسل کو انتہاپسندی سے بچانا ہو گا۔ مذہبی اور سیاسی انتہاپسندی کا مقابلہ کریں گے۔ بھارت، امریکا اور یورپ میں بھی سیاسی انتہاپسندی کا مقابلہ کیاجاہارہاہے، پاکستان میں اسلام آباد کا گھیرائو سیاسی انتہاپسندی کے نشانے پر ہے۔ پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں جمہوریت پریقین رکھتی ہیں، عاصمہ آج ہوتیں تو پوچھتیں کہ ڈیل کرکے وزیرخارجہ تو نہیں بنے؟ میں انہیں جواب دیتا کہ بالکل نہیں۔سابق وزیر اعظم ،مسلم لیگ (ن) کے رہنما شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ سیاسی، عسکری جوڈیشل اور بزنس لیڈر شپ کو چاہئے کہ ملک کے مفاد کے لئے مل کر معاملات حل کریں، کسی بھی سیاسی جماعت میں سکت نہیں کہ وہ ملکی مفادکی خاطر اپنا سیاسی مفاد مدنظر نہ رکھے۔ ہمیں پاکستان کے سیاسی مفاد کا خاکہ بنانا پڑے گا۔ سیاست پیچھے‘ ریاست کو آگے رکھنا ہو گا۔ یہ سیاسی، عسکری جوڈیشل قیادت کے لئے چیلنج ہے۔ اس بات سے باہر نکلیں کہ اگلاآرمی چیف کون ہو گا،کون سا جج پرموٹ کرنا ہے۔ جس ملک کا چیف جسٹس انصاف نہ دے سکے۔نیچے سے جج اٹھا کر پرموٹ کئے جائیں، جوڈیشل سسٹم نہ بنا سکیں وہ کس کام کے؟۔ ایک دوسرے کو پسند کریں نہ کریں، مگر ذاتی مفاد کو چھوڑ کر ملک کے مفادکی خاطر باہر نکلیں گے تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال کا کہنا ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ معاہدہ سیلاب زدہ علاقوں میں بحالی کی کوششوں میں رکاوٹ ہے، کیونکہ یہ حکومت کو سال کی آخری سہ ماہی میں ترقیاتی فنڈز کا صرف 40 فیصد خرچ کرنے کا پابند کرتا ہے۔ حکومت، آئی ایم ایف کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہی ہے کہ یہ حالت انسداد پیداواری ہے اور اسے دوسری اور تیسری سہ ماہی کے دوران اخراجات کی اجازت دینی چاہیے کیوں بحالی کی کوششوں کے لیے اس کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا پاکستان میں غریب لوگ اس معیار زندگی کی قیمت ادا کر رہے ہیں۔ جس سے جی 10 ممالک کے شہری لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں سیلاب کی وجہ سے جو موسمیاتی تباہی آئی وہ ترقی یافتہ دنیا کی کرنی ہے، اب انصاف کا تقاضہ ہے کہ وہ ریکوری کے لیے فنڈز فراہم کریں اور لازمی کریں۔ یہ وہ معاملہ ہے جسے حکومت نومبر میں بین الاقوامی ڈونرز کانفرنس میں لے جائے گی۔ وفاقی وزیر نے مقامی سطح پر عطیات کی اپیل کی اور اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ عطیات میں تیزی سے کمی آئی ہے کیونکہ لوگوں نے سوچا ہوگا کہ سانحہ ختم ہوگیا ہے۔ حکومتی ادارے سیلاب کے بعد کی کوششوں میں ڈینگی، ملیریا اور ہیضے کے پھیلاؤ پر قابو پانے میں کامیاب رہے، جو کہ انسانی جانوں نقصان کئی گنا بڑھ سکتے تھے۔ مزید برآں بلاول بھٹو نے کہا ہم سب کیلئے سیلاب اور سیلاب متاثرین ہمارا پہلا ایشو ہونا چاہئے۔ سیلاب متاثرین کی بحالی کیلئے ہم سب کو حصہ ڈالنا چاہئے۔ کلائمیٹ چینج کے معاملے میں سیاسی جماعتوں کو ایک پیج پر ہونا چاہئے۔ نئی نسل کو مذہبی اور سیاسی انتہا پسندی سے بچانا ہو گا۔ اسلام آباد میں جو سیاسی لڑائیاں چل رہی ہیں وہ چلتی رہیں گی۔ پاکستان میں کلائیمیٹ چینج کا پائلٹ پراجیکٹ بنائیں گے۔ ہم پاکستان کو بہتر انداز میں تعمیرنو کریں گے۔ امید ہے لوگ ایک شخص کی انا کو شکست دیں گے‘ ہم امید کرتے ہیں نئی نسل جمہوریت کو پسند کریں گے اور انتہا پسندی کو رد کریں گے۔ پی ڈی ایم جماعتوں نے سیاسی قیمت تو ادا کی لیکن عوام کو مشکلات سے بچایا‘ جیسے ہی ہم نے ملک کو ڈیفالٹ سے بچایا تو تاریخی سیلاب نے عوام کو ایک اور مشکل میں ڈال دیا۔ بلاول بھٹو کا کہنا تھا ہماری سیاست اور میڈیا سب کے لئے سیلاب میں ایشو ہونا چاہیے۔ اسلام آباد میں سیاسی لڑائیاں چل رہی ہیں یہ تو چلتی رہیں گی۔ سب کو مل کر سیلاب متاثرین کی مدد کرنی چاہیے‘ موسمی تبدیلی کا بوجھ ہماری عوام اٹھا رہی ہے جو نا انصافی ہے‘ جب تک ایک ہوکر مقابلہ نہیں کریں گے اس کا حل نہیں نکلے گا۔ ہم انشاء اللہ پاکستان کو ٹیسٹ کیس اور پائلٹ پروجیکٹ بنائیں گے۔ ہم ایگری کلچر، اری گیشن سسٹم کو بہتر کریں گے۔ سیاسی ایشوز چلتے رہیں گے‘ سیلاب متاثرین کو نہ بھولیں۔ وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال کا کہنا ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ معاہدہ سیلاب زدہ علاقوں میں بحالی کی کوششوں میں رکاوٹ ہے، کیونکہ یہ حکومت کو سال کی آخری سہ ماہی میں ترقیاتی فنڈز کا صرف 40 فیصد خرچ کرنے کا پابند کرتا ہے۔ عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں 'پوسٹ فلڈز ری کنسٹرکشن' کے سیشن سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حکومت، آئی ایم ایف کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہی ہے کہ یہ حالت انسداد پیداواری ہے اور اسے دوسری اور تیسری سہ ماہی کے دوران اخراجات کی اجازت دینی چاہیے کیوں بحالی کی کوششوں کے لیے اس کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اس تاثر کو بھی زائل کیا کہ حکومت عالمی برادری سے سیلاب سے نمٹنے کی کوششوں کے لیے فنڈز مانگ رہی ہے، ان کا کہنا تھا کہ یہ بھیک نہیں ہے لیکن موسمیاتی انصاف اس کا مطالبہ کرتا ہے۔ احسن اقبال نے کہا کہ پاکستان میں غریب لوگ اس معیار زندگی کی قیمت ادا کر رہے ہیں جس سے جی 10 ممالک کے شہری لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں سیلاب کی وجہ سے جو موسمیاتی تباہی آئی وہ ترقی یافتہ دنیا کی کرنی ہے، اب انصاف کا تقاضہ ہے کہ وہ ریکوری کے لیے فنڈز فراہم کریں اور لازمی کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت اسی چیز کی درخواست کر رہی ہے، یہ وہ معاملہ ہے جسے حکومت نومبر میں بین الاقوامی ڈونرز کانفرنس میں لے جائے گی۔ وفاقی وزیر نے مقامی سطح پر عطیات کی اپیل کی اور اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ عطیات میں تیزی سے کمی آئی ہے کیونکہ لوگوں نے سوچا ہوگا کہ سانحہ ختم ہوگیا ہے۔ ان کا کہنا تھا موسم سرما کی آمد کے ساتھ ہی مدد کی نوعیت بدل گئی ہے، کھلے آسمان تلے زندہ رہنے والے لوگوں کو گرم کپڑوں، کمبلوں اور بستروں کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اپیل کی کہ براہ کرم یہ چیزیں بھیجنا جاری رکھیں، جو سیلاب زدہ علاقوں کے بھائیوں کے لیے ضروری ہیں، حکومت کے وسائل بدلتے موسم میں درکار ضروریات سے مطابقت نہیں رکھتے۔ احسن اقبال نے کہا کہ کسی کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ ایک تہرا سانحہ تھا، جب سیلاب آیا تو ملک بدترین معاشی بحران اور دیوالیہ ہونے کے خطرے سے نبرد آزما تھا۔ انہوں نے کہا کہ سیلاب نے ان معاملات کو بدترین بنا دیا اور غریب ترین غریبوں کو متاثر کیا، قومی ترقی کے اشاریہ پر 20 غریب ترین اضلاع میں سے سیلاب سے 16 متاثر ہوئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومتی ادارے سیلاب کے بعد کی کوششوں میں ڈینگی، ملیریا اور ہیضے کے پھیلاؤ پر قابو پانے میں کامیاب رہے، جو کہ انسانی جانوں کے لحاظ سے کئی گنا بڑھ سکتے تھے۔ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی نے عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدی اور انصاف کی فراہمی کے موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ عدالتوں کی وجہ سے مقدمات اور قیدیوں کی تعداد بڑھی ہے۔ عدلیہ کے ذمہ داروں کی کوشش ہوتی ہے وہ سائلوں کو فوری ریلیف دیں۔ مقدمات کی پیچیدگیاں بھی بعض اوقات تاخیر کا باعث بنتی ہیں۔ جسٹس شاہد کریم نے کہا ہے کہ ہمارا آئین عوام اور ریاست کے درمیان سوشل رابطہ ہے۔ آئین کا آرٹیکل 9 زندگی گزارنے کی ضمانت دیتا ہے۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے عملی طورپر کچھ کیا جائے۔ مساجد کے پانی کے ضیاع پر نوٹس لیا، اس پانی کو محفوظ کیا گیا۔ ہائوسنگ سوسائٹیوں سے واسا کو پیسہ دلوایا۔ زیر زمین واٹر ٹینک بنایا گیا۔ اینٹوں کے بھٹوں کو اڑھائی سال میں زگ زیگ ٹیکنالوجی پر مشتمل کرایا۔ بطور عدالت ہم نے پلاسٹک بیگز پک پابندی لگائی۔ روڈا کے فیصلے میں ہم نے قرار دیا کہ نیشنل سکیورٹی اب فوڈ سکیورٹی سے نیشنل سکیورٹی کا نیا نام اب فوڈ سکیورٹی ہے۔ میں نے روڈا کیس میں زرعی زمین کا حصول روکنے کا حکم دیا۔ ہم نے قدیم کالونی قانون کا اقدام کیا۔ قدڈیم کالونی قانون کے تحت انفراسٹرکچر کے نام پر زرعی زمین لی جاتی تھی۔ این این آئی کے مطابق جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ عدالتوں کے کئی فیصلے اچھی سی پینٹنگ کے سوا کچھ بھی نہیں،ہمیں ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں سکولوں کے نصاب، پاکستان اور بھارت سے متعلق سیشن میں بھارتی مصنفہ ریٹا منچندہ نے بھارت میں تعلیم سے متعلق اظہارِ خیال کیا۔ سنیٹر بیرسٹر علی ظفر نے عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں آئین اور اداروں کے کردار پر سیشن سے خطاب کرتے کہا کہ چدلیہ‘ پارلیمنٹ اور مقننہ کو اپنے دائرہ کار میں رہنا ہوگا۔ وقت کے ساتھ عدلیہ کا ادارہ زیادہ مضبوط ہوا ہے۔ ہمیں ججز اور عدلیہ پر تنقید کی بجائے ان کے فیصلوں پر تنقیدذ کرنی چاہئے۔ سنیٹر کامران مرتضیٰ نے عاصمہ جہانگیر کانفرنس سے خطاب میں کہا ہے کہ ٹرانس جینڈر بل کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے اظہار خیال کرتے کہا کہ تاریخ مسخ کرکے بچوں کا ذہن اپنے مطابق بنایا جا رہا ہے۔ سارا نصاب اکٹھا کرنے سے سکول او مدارس ایک ہوتے جا رہے ہیں۔ افغانستان میں پڑھائی جانے والی کتابیں پاکستان کی نسبت بہتر ہیں۔ گلگت بلتستان کے ایکٹوسٹ بایا جان نے کہا ہے کہ گلگت بلتستان کے متعلق نہ سوچا تو یہ علاقہ بنجر ہو جائے گا۔ جی بی میں پہاڑیوں میں برف کی جیھلیں بن رہی ہی۔ گلگت بلتستان میں تھرمل پر پابندی ہونی چاہئے۔ ایم پی اے سردار رمیش سنگھ اروڑا نے کہا ہے کہ ننکانہ صاحب ہمارے لئے بہت مقدس مقام ہے۔ ہمارے نصاب تعلیم میں بہت سے مسائل ہیں۔ پاکستان میں 531 میں سے صرف 31 گوردوارے آپریشنل ہیں۔ اس طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔دریں اثناء وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کے عاصمہ جہانگیر کانفرنس سے خطاب میں کہا ہے کہ جبری گمشدگی ہمارے معاشرے کے میرے پر بدنما داغ ہے۔ پاکستان کا آئین اور قانون شخصی آزادی کی ضمانت دیتے ہیں۔ جبری گمشدگی کا مسئلہ سکیورٹی کے معاملات سے جڑا ہوا ہے۔ یہ مسئلہ پارلیمنٹ میں بھی زیربحث رہا۔ جبری گمشدگی کو قومی اسمبلی نے جرم کا درجہ دینے کا بل پاس کر لیا ہے۔ جبری گمشدگی کا مقدمہ ثابت نہ کرنے والے کے خلاف 5 سال قید سزا کی شق ختم کر دی ہے۔ معاملے پر حکومت قانونی اور عملی اقدامات کر رہی ہے۔