آج کی شخصیت۔۔۔۔۔ عامر عسکری

تحریر : ڈاکٹر زرقاغالب

مہندی بھرے ہاتوں سے بچھڑ کر ہمیں عامر
محسوس یہ ہوتا ہے قیامت کی گھڑی ہے
اس خوبصورت شعر کے خالق عامر عسکری صاحب کا شمار ان محترم شخصیات میں ہوتا ہے جو سراپا محبت و احساس ہیں فیس بک سے شناسائی ہوئی پھر وٹس اپ گروپ میں صبح و شام آپ کا دعا و کلام کا میسج جو آج تک جاری و ساری ہے اس طرح بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا آپ کی ذات میں جو نمایا ں خوبی دیکھی وہ ادب سے لگاو¿ اور ان سے محبت و احترام کا جزبہ ہے آپ براڈ کاسٹر ریڈیواسلام آباد ہیں ہمیشہ شعراءکرام کے کلام کو آپ نے پڑھا اور سراہا اس خود پرستی کی دنیا میں ایسے انسان خال خال ہیں جو دوسروں کو پزیرائی دیں یہ بڑے ظرف کی بات ہے یہ خوبیاں ہر ایک کے حصہ میں کہاں آتی ہے راقمہ کی پہلی غزل 
"میرے دل کی دھرکنوں سے تیرا پیار کم نہ ہوگا" بھی آپ نے ریڈیو پر پڑھی خود کال کی اور
غزل طلب کی کہ زرقا اپنی غزل بھیجیں آج ریڈیو پر آپکی غزل پڑھونگا اور پھر کءمیرے کءکلام آپ نے ریڈیو پر پڑھے 6 ستمبر کے سپیشل پروگرام میں بھی اس حوالہ سے لکھا کلام آپ نے شامل کیا اور پڑھا میں یہ کبھی نہ بھلا پاونگی ادب نگر کی نگری بھی عجیب ہے یہاں شاعر دوسرے شاعر کے کلام کو پڑھنا تو دور سراہتے بھی نہیں بلکہ شاعر مانتے ہی نہیں خود کو عقل۔ کل سمجھتے ہیں آپ نے ہمیشہ دوسروں کو عزت دی عزت والا ہی دوسروں کو عزت دیتا ہے یہ آپ نے ثابت کیا۔ اب اس پیاری شخصیت کے بارے میں مختصر سا تعارف تحریر کرنے لگی ہوں یہ تحریر ادبی ہیرے میں شائع ہورہی ہے۔عامر عسکری صاحب بین الاقوامی شہرت یافتہ پاکستانی ریڈیو براڈ کاسٹر ہیں۔ بینظیر بھٹو، پرویز مشرف، مہدی حسن، امیتابھ بچن و دیگر نامور شخصیات سے انٹرویو کرنے کا اعزاز حاصل ہے یہ اعزاز صد افتخار ہے ۔آپ کی والدہ محترمہ سعیدہ ناز صاحبہ اور نانا جان پروفیسر ادیب نگینوی شاعر تھے۔قرت العین حیدر صاحبہ اور سجاد حیدر یلدرم صاحب قریبی رشتہ داروں میں سے تھے ۔
محترم عامر عسکری ریڈیو براڈکاسٹنگ، شوبز اینڈ بزنس میں قابل رشک کی حد تک وسیع تجربہ رکھتے ہیں شعر و ادب سے تعلق ہے۔ عامر عسکری صاحب کا اصل نام سید عسکری یحی عامر ہے لیکن وہ " عامر عسکری " کے قلمی نام سے مشہور و معروف ہیں۔ عامر عسکری صاحب 28 فروری 1957 میں مراد آباد ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ والد صاحب کا نام سید محمد یحی ہے وہ پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر تھے اور ڈاکٹر سید محمد یحی کے نام سے جانے جاتے تھے۔ عامر عسکری صاحب کے والدین کے 4 بچے پیدا ہوئے جن میں وہ 3 بھائی اور ایک بہن ہیں۔ عامر عسکری ابھی ایک سال کی عمر میں تھے کہ 1958 میں ان کے والد صاحب ہندوستان سے ہجرت کر کے کراچی پاکستان منتقل ہو گئے۔ عامر عسکری نے جناح کالج سے گریجویشن کیا جبکہ کراچی یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کیا۔ عامر عسکری کی والدہ محترمہ سعیدہ ناز صاحبہ شاعرہ تھیں اور نانا جان یعنی سعیدہ ناز صاحبہ کے والد صاحب بھی شاعر تھے ادیب نگینوی ان کا قلمی نام تھا وہ عربی اور فارسی زبان کے پروفیسر تھے جبکہ برصغیر کی معروف ادیبہ قرت العین حیدر صاحبہ عامر عسکری کی والدہ سعیدہ ناز صاحبہ کی خالہ زاد بہن تھیں اور سجاد حیدر یلدرم صاحب ان کے خالو تھے یعنی ان کا خاندان ایک بہت بڑا ادبی گھرانہ تھا ایسے ماحول میں عامر عسکری کی شعر و ادب سے دلچسپی لازمی امر تھی، سو انہوں نے شاعری میں بھی طبع آزمائی کی اور اپنی والدہ محترمہ سعیدہ ناز صاحبہ سے اصلاح لیتے تھے ان کی وفات کے بعد فیروز ناطق خسرو صاحب سے شاعری میں اصلاح لینے لگے۔ 
عامر عسکری صاحب 1974 میں ریڈیو پاکستان کراچی میں براڈ کاسٹر کی حیثیت سے تعینات ہو گئے۔ بہترین پرفارمنس کی بناء پر 10 سال بعد وہ 1984 میں امریکہ منتقل ہو گئے جہاں انہوں نے 1985 میں ریڈیو امریکہ ڈیلس کو جوائن کیا جس کے بعد ہوسٹن اور لاس اینجلس ریڈیو میں بھی اپنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ 30 سال کے طویل عرصہ بعد وہ 2015 میں امریکہ سے وطن واپس آ گئے اور یہاں 2016 میں ریڈیو پاکستان اسلام آباد کو جوائن کیا اور اس وقت وہ ریڈیو ایف ایم 102 اسلام آباد میں اپنی خدمات سرانجام دے رہیں ہیں 
آپ کا کلام بھی آپکی شخصیت کی طرح خوبصورت ہے 
قارئین کی خوبصورت بصارتوں کی نذر 
جمنا کے کنارے پہ میں ارتھی کا دھواں ہوں.. 
اور ساحلِ راوی پہ میں قبروں کا نشاں ہوں.. 
لوگو مجھے مت پوچھو میں کیا ، کون ، کہاں ہوں
پوشیدہ میری ذات ہے.. میں پھر بھی عیاں ہوں
بھٹکیں گے مجھے دیکھ کے. راہی نہ سرِ راہ
امید کی دہلیز ہوں منزل کا نشاں ہوں
محفل میں ہوں محروم ابھی. جام و سبو سے 
ہر چند کہ اس دور کا میں. پیرِ مغاں ہوں
عامر کی آہوں کا یہ اعلان ہے اب تک۔۔۔
مظلوم کی آواز ہوں اور اس کی زباں ہوں
خوبصورت کلام تخیل و قوافی بھی خوب ہیں

ای پیپر دی نیشن