نوازشریف معاملہ لیول پلیئنگ سے جوڑنے والوں کو 2018 یاد ہے؟، الیکشن شیڈول کا اعلان جلد ہو گا: وزیراعظم

Oct 24, 2023

اسلام آباد(خبرنگارخصوصی) نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے دورہ چین کو مثبت اور تعمیری قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان سی پیک کا تسلسل جاری رکھنے کیلئے پرعزم ہے، سی پیک منصوبوں کی رفتار تیز ہونے سے معاشی و معاشرتی ترقی میں بہتری آئے گی، حالیہ دورہ چین میں صدر شی جن پنگ سے ملاقات انتہائی مثبت رہی، مشرق وسطی کی صورتحال پر بھی عالمی رہنماﺅں سے تبادلہ خیال ہوا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو نگراں وفاقی وزرا جلیل عباس جیلانی، مرتضی سولنگی، سرفراز بگٹی، گوہر اعجاز، فواد حسن فواد کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ چین کے صدر شی جن پنگ کی دعوت پر چین کا اہم دورہ کیا، چینی اور روسی صدور سمیت اہم رہنماﺅں کے ساتھ تعمیری ملاقاتیں ہوئیں، توقع ہے کہ بی آر آئی کے دوسرے مرحلے میں یہ کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری میں حصہ لیں گی۔ انہوں نے کہا کہ اس موقع پر مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا گیا جس میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیر کے تنازعہ کے حل کی حمایت کی گئی، چین کے ساتھ الیکٹرانک و ڈیجیٹل میڈیا، فلم سمیت دیگر شعبوں میں تعاون کے وسیع مواقع ہیں، ان سے فائدہ اٹھایا جانا چاہئے۔ ایک سوال کے جواب میں نگراں وزیراعظم نے کہا کہ چین سے ہونے والے معاہدوں سے پاکستان میں ہونے والی سرمایہ کاری سے اقتصادی ترقی آئے گی۔ روسی صدر سے ملاقات گرمجوش اور اچھے ماحول میں ہوئی، ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع ملا، روس اس خطے کا اہم ملک ہے، ہمیں اس کا ادراک ہے، اس پورے خطے کو ایک دوسرے کے ساتھ مزید جڑنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی فرد کو کسی بھی جماعت میں شامل ہونے کی مکمل آزادی ہے، بطور نگراں حکومت ہمارا اس سے کوئی واسطہ نہیں۔ پاکستان عالمی برادری کا ایک ذمہ دار ملک ہے، افغان شہری اگر پاکستان کے راستے امریکہ سمیت کسی ملک جانا چاہیں تو انہیں اس کی اجازت ہے، ہم غیر قانونی افغانوں کو وطن واپس بھیجنا چاہتے ہیں، عرصہ دراز سے پاکستان میں غیر قانونی مقیم افغانوں کو اپنا دشمن نہیں سمجھتے۔ عام انتخابات کے حوالے سے سوال کے جواب میں نگراں وزیراعظم نے کہا کہ انتخابی گہما گہمی شروع ہو چکی ہے، توقع ہے کہ جلد انتخابی شیڈول کا اعلان ہو جائے گا، نادرا کی جانب سے بائیو میٹرک ایک قانونی حق ہے، نواز شریف کے پاکستانی ہونے کے ناطے ان کی بائیو میٹرک ایک تقاضا تھا، ایئرپورٹ پر بائیو میٹرک کی سہولت معمول کی کارروائی ہے جو ہر پاکستانی کو حاصل ہے، اس اقدام کو لیول پلیئنگ فیلڈ سے جوڑنا مناسب نہیں، ہمارا کام تمام جماعتوں کو مساوی مواقع فراہم کرنا ہیں، ہم نہیں چاہتے کہ کوئی سیاسی جماعت یا سیاسی رہنما سیاسی عمل سے باہر ہو تاہم اس حوالے سے عدالتی فیصلوں پر عمل کرنا ہے، ہر سیاسی جماعت کو اپنے بیانیہ پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے، وہ اپنی معاشی و سکیورٹی پالیسیوں سمیت ادارہ جاتی چیلنجوں سے نمٹنے کے حوالے سے اپنا موقف دیں، اس مباحثہ پر انتخابات ہوں تو وہ مفید ہوں گے۔
انوار الحق نے کہا کہ آپ نادرا جائیں تو کیا ایسا ہوتا ہے کہ بائیو میٹرک کیلئے وزیراعظم آفس کی ہدایت درکار ہوگی، نواز شریف پیدائشی پاکستانی شہری ہیں تو بائیو میٹرک ا±ن کا حق ہے، نواز شریف کیلئے نادرا کو ہدایت دے کر حکومت نے کوئی اضافی کام نہیں کیا، ان کی ضرورت تھی، اس سے انہیں کیا سیاسی فائدہ حاصل ہوا، ایک معمول کا ڈیٹا کا طریقہ کار تھا۔انہوں نے کہا کہ نواز شریف پاکستان آچکے یہ ایک حقیقت ہے، اس سیاسی حقیقت کا ان کے سیاسی حریفوں نے سامنا کرنا ہے، سیاسی میدان میں ایک دوسرے سے مقابلہ کریں۔انہوں نے مزید کہا کہ کوئی کہے پارلیمنٹ کو آگ لگاو¿ں گا، وزیراعظم ہاو¿س پر دھاوا بولوں گا، اور جمہوریت کا چمپئین بھی بنوں گا، قانون کی نظر میں یہ پرامن احتجاج نہیں، اسے قانون کا سامنا کرنا ہوگا، کوئی یہ سمجھے کہ نگراں حکومت ان تمام چیزوں کو ختم کرکے لوگوں کو آگ لگانے کا لائسنس دے دیں تو یہ نہیں ہوسکتا، اگر یہ کام جے یو آئی، ن لیگ یا پی پی پی کرتی تو کیا تب بھی لوگوں کا یہی سوچ ہوتی جو آج ایک مخصوص جماعت کے متعلق ہے، بلکہ ان پر ایف 16 سے بمباری کا مطالبہ کرنے لگتے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہمارے دور میں پٹرول کی قیمت اور ڈالر کی قدر میں نمایاں کمی ہوئی ہے، اس کے ثمرات عوام تک پہنچانے کیلئے صوبوں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ مشرق وسطی کی صورتحال پر فلسطینی صدر محمود عباس سے بات ہوئی ہے، انسانی امداد مصر کے ذریعے غزہ بھیجے جانے کے حوالے سے یقینی بنائیں گے، او آئی سی سمیت تمام فورم استعمال کریں گے، ہماری پہلی کوشش ہے کہ جنگ بندی ہو، امدادی سامان کی فراہمی کے حوالے سے بھی کام ہو رہا ہے، اس تنازعہ کے حل کیلئے پاکستان مختلف ممالک سے مل کر کاوشیں کر رہا ہے۔ ارشد شریف کے معاملہ پر دفتر خارجہ کی جانب سے کینیا کے صدر سے ملاقات میں یہ نکتہ شامل کیا گیا تھا، کینیا کے صدر نے اس پر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا، انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ ہم ان شرپسندوں کو تلاش کریں گے جو اس میں ملوث ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا کو اشتہارات عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے دیئے جاتے ہیں اس میں شفافیت ہونی چاہئے، آزادی صحافت اور جمہوریت کی جنگ حکومتی سرمائے سے نہیں لڑی جا سکتی، اگر کسی پارلیمنٹیرین کی دوہری شہریت ہے تو یہ معاملہ سپریم کورٹ لے جائیں، بغیر تحقیق الزام تراشی یہاں کلچر بن چکا ہے۔ علاوہ ازیں نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ خسارے کا شکار سرکاری اداروں کی جلد نجکاری کرکے عوام کے ٹیکس کے پیسوں کو ضائع ہونے سے بچائیں گے۔ وزیرعظم نے کہاکہ پی آئی اے کی نجکاری کا عمل مکمل ہونے تک حکومت اس کی ہر ممکن معاونت کرتی رہے گی، انہوں نے ہدایت کی کہ پی آئی اے کی نجکاری کے عمل کو تیز کرکے جلد از جلد مکمل اور نجکاری کے عمل پر پیشرفت سے باقاعدگی سے آگاہ کیا جائے۔ دوسری طرف نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ خطے کو مشترکہ چیلنجز کا سامنا ہے جن سے نمٹنے کے لئے اجتماعی ترقی اور خوشحالی کے مواقع پیدا کرنے کی ضرورت ہے، پاکستان اقتصادی تعاون تنظیم کے ہر رکن ملک کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کا خواہاں ہے۔ وزیراعظم ہاﺅس میں ای سی او رکن ممالک کے رہائشی سفیروں سے ملاقات کی۔ انہوں نے کہاکہ ای سی او کے رکن ممالک کی تاریخ اور ثقافت مشترکہ ہے،آج خطے کو مشترکہ چیلنجز کا سامنا ہے جن سے نمٹنے کے لئے اجتماعی ترقی اور خوشحالی کے مواقع پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان ای سی او کے ہر رکن ملک کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کا خواہاں ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ8 سے9 نومبر 2023 تک تاشقند، ازبکستان میں 16ویں ای سی او سربراہی اجلاس کے موقع پر ای سی او کے رکن ممالک کے سربراہان مملکت کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کے متمنی تھے۔
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+نمائندہ خصوصی) وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی زیرصدارت پٹرولیم مصنوعات پر اجلاس ہوا۔ اجلاس میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے اثرات عام آدمی تک پہنچانے پر غور کیا گیا۔ حکام نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ کمی پربریفنگ دی۔ اجلاس کو سمگلنگ و بجلی چوری کیخلاف آپریشن کے نتائج سے متعلق آگاہ کیا گیا۔ بریفنگ میں بتایا گیا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہونے سے مہنگائی کی شرح میں 1.7 فیصد کمی ہوئی۔ نگران وزیراعظم نے کہا کہ پٹرول کی قیمت میں 12.38 فیصد اور ڈیزل کی قیمت میں 4.7 فیصد کمی ہوئی۔ اس کمی کے فوائد عام آدمی تک جلد سے جلد پہنچائے جائیں۔ ڈالر کی قیمت میں استحکام اور پٹرولیم قیمتوں میں کمی سے 41 ارب روپے کی بچت ہوئی۔ پٹرولیم قیمتوں میں کمی کے فوائد عام آدمی تک پہنچانے کیلئے اقدامات تیز کئے جائیں۔ ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔ بجلی چوری کی روک تھام اور سمگلنگ کیخلاف آپریشن سے عام صارف کو فائدہ ہوا۔ انسداد سمگلنگ آپریشن کا براہ راست فائدہ عوام کو ہو رہا ہے۔ بلوچستان میں گندم کی قیمت میں 18 فیصد کمی ہوئی۔نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ سے پرےس کانفرنس مےں میڈیا کے حوالے سے سوالات ہوئے ، ایک موقع پر ان سے پرنٹ میڈیا کے حوالے سے سوال ہوا، اس کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ اس کا جواب دیا تو اپ ناراض ہو جائیں گے۔ میں نے خود بلوچستان ٹائمز میں کام کیا ہوا ہے، باقیوں کو تو آپ متاثر کر سکتے ہیں مجھے نہیں کر سکتے، آپ (صحافت ) آزادی صحافت کی لڑائی لڑنا چاہتے ہیں جمہوریت کی بھی لڑائی لڑنا چاہتے ہیں مگر میرے پیسے پر لڑنا چاہتے ہیں، کوئی کوئی گھی مل چلا رہا ہے تو وہ الیکٹرانک میڈیا میں ہے ، کوئی رئےل اسٹیٹ کا کام کر رہے ہیں تو وہ بھی چینل بنا رہے ہیں، ، ایسا بھی ہے کہ کیمرہ مین اور رپورٹر کو کارڈ دے دیا جاتا ہے، اور وہ کارڈ پر گزارا کر رہا ہوتا ہے، جنرلزم کی عزت کرانا ہے تو وہ اینکر پرسن جس کے ملین فالوورز ہیں اور وہ کیمرا مین جو پےچھے کھڑا ہے ، ان دونوں کی عزت یکساں ہونا چاہیے۔ اےک پارلمےمنٹرےن کی دوہری شہرےت کے حوالے سے کیے جانے والے ایک سوال کے جواب میں نگران وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے ہاں عجیب کلچر بنا ہوا ہے ہم بغیر علم کے اور بغیر کسی بیک گراو¿نڈ کے الزام لگاتے ہےں ، جب صحافےوں کے حوالے سے کمیٹی میں وہاں صحافیوں کا ساتھ دیا تھا اور اس وقت بڑے بڑے مالکان کی مخالفت پہ کھڑے نہیں ہو رہے تھے میں کسی کا نام نہیں لوں گا، مگر میں ورکنگ جرنلسٹ کے ساتھ کھڑا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت جس انداز کی ہمیں کوریج مل رہی ہے ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ اس کی لاگت کیا ہے؟ سوشل میڈیا پر اس کی لاگت کیا ہے؟ اور اس کی پہنچ کیا ہے؟ جس شخصیت کی بات کر رہے ہیں میں ان کو پیدائشی طور پر جانتا ہوں۔ آپ سے سپرےم کورٹ میں جائیں میں بھی آپ کے ساتھ چلوں گا، سپریم کورٹ کوقائل کریں وہاں ڈیٹا بیس رکھیں گے، اگر ویسے نہ ہوا تو پھر کیا ہوگا۔ پارلیمنٹ کے ممبر کو بغیر ٹھوس ثبوت کے ہم نہیں کہہ سکتے کوئی ثبوت ہونا چاہیے۔

مزیدخبریں