سائفرکیس، ریاستی مہمان کا بیانیہ اور بلوچستان عوامی پارٹی کا اعلان !!!!!

سائفر کیس ایک ایسا کیس ہے جس میں کسی کے ساتھ کوئی رعایت نہیں ہونی چاہیے۔ بنیادی طور پر سائفر کیس اور اس کے بعد نو مئی ہونے والے واقعات ایک ہی سلسلے کی کڑی ہیں۔ سائفر کو لہرانے اور اس کاغذ کو عوامی جذبات بھڑکانے کے لیے استعمال کیا گیا۔ سادہ لوح لوگوں کی معصومیت سے فائدہ اٹھانے کی کوشش ہوتی رہی۔ کاغذ تماشے کے نام پر لوگوں کی ذہن سازی کا سلسلہ شروع ہوا اور نو مئی کو پاکستان کے شہریوں نے اپنے ہی اداروں پر چڑھائی کی۔ یہ سارا کام باقاعدہ منصوبہ بندی کا حصہ تھا اور سائفر اس کی بنیاد ہے۔ تکلیف دہ امر یہ ہے کہ پاکستان کی ایک سیاسی جماعت اور ایک ایسے سیاسی رہنما نے اقتدار کی ہوس میں ملک کو آگ میں جھونک دیا۔ حالات کا سیاسی حل موجود تھا، معاملات سیاسی انداز میں بہتر کیے جا سکتے تھے لیکن بدقسمتی سے اداروں کی حمایت کو کمزوری سمجھ کر ملکی سلامتی کو داﺅ پر لگانے کی کوشش ہوتی رہی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک اچھی بھلی سیاسی جماعت جس میں ملک کی خدمت کا جذبہ رکھنے والے کئی باصلاحیت افراد تھے، ایسے لوگوں تھے جو ملک و قوم کی خدمت کے جذبے سے سرشار تھے انہیں پاکستان تحریک انصاف سے اپنی راہیں جدا کرنا پڑیں۔ یہ لوگ ایسے ہی تو الگ نہیں ہوئے حقائق سے واقف اور باخبر ہیں، جانتے ہیں کہ اصل میں کیسے عوام کو اندھیرے میں رکھ کر کیا کھیل کھیلا گیا ہے۔ ایسا تو نہیں کہ دہائیاں سیاسی میدان میں گذارنے اور بھاری سرمایہ خرچ کرنے کے بعد الگ ہونے والے لوگوں کے پاس کوئی ٹھوس وجہ نہیں ہو گی۔ یہ سب باخبر لوگ تھے اور ان میں سے کئی باصلاحیت ایسے بھی ہیں جنہیں پی ٹی آئی نے اپنے دور حکومت میں جان بوجھ کر فیصلہ سازی اور اہم عہدوں سے دور رکھا۔ اس دوران اصل نقصان تو پاکستان کے عام آدمی کا ہوا ہے کیونکہ زندگی اس کی مشکل ہوئی ہے، قابو میں عام آدمی آیا ہے، اس کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے، پاکستان کے دشمنوں کو باتیں بنانے کا موقع ملا ہے۔ اس لیے کوئی شک نہیں کہ سائفر کیس اور نو مئی کے مرکزی کرداروں کے ساتھ کوئی رعایت نہیں ہونی چاہیے ۔
سائفر کیس میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی سب سے زیادہ اہم ہیں۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے امریکا میں پاکستانی سفیر کے مراسلے یا سائفر کو بنیاد بنا کر ہی اپنی حکومت کے خلاف سازش کا بیانیہ بنایا تھا کہ ان کی حکومت کے خاتمے میں امریکا کا ہاتھ ہے۔ اس حوالے سے عمران خان اور ان کے سابق سیکرٹری اعظم خان کی ایک آڈیو لیک سامنے اآئی تھی جس میں عمران خان کو کہتے سنا گیا تھا کہ "اب ہم نے صرف کھیلنا ہے، امریکا کا نام نہیں لینا، بس صرف یہ کھیلنا ہے کہ اس کے اوپر کہ یہ ڈیٹ پہلے سے تھی جس پر اعظم خان نے جواب دیا کہ میں یہ سوچ رہا تھا کہ اس سائفر کے اوپر ایک میٹنگ کر لیتے ہیں"
یہ یاد رہے کہ اعظم خان پی ٹی آئی کے دور حکومت میں وہ وزیراعظم کے انتہائی قریب سمجھے جاتے تھے۔ انہیں پی ٹی آئی کے کئی رہنماو¿ں کے وزیراعظم کے ساتھ اختلافات کی وجہ بھی قرار دیا جاتا رہا ہے۔ اس سائفر کیس کو منطقی انجام تک پہنچنا چاہیے۔ اس سازش کے بیانیے کے پیچھے واقعی اگر کوئی سازش تھی اور اس کے نام پر پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کھیل کھیلا گیا ہے تو اس کھیل کے کرداروں کو بھی سامنے آنا چاہیے۔ 
پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان شعیب شاہین  نے مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کی وطن واپسی پر کہا ہے کہ "مجرم اور مفرور شخص کو ریاستی مہمان کا درجہ دیا گیا ہے۔ نواز شریف اور شہباز شریف نے گزشتہ سولہ ماہ میں ملک کو بد ترین مہنگائی دی، آج شریف برادران عوام کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔ نواز شریف ڈیل کرکے اور اپنا بیانیہ تبدیل کرکے پاکستان واپس آئے۔ ہمیں جلسے کی اجازت دیں تو وہ ن لیگ سے بڑا جلسہ کر کے دکھائیں گے۔"
یہ ایک طرف کی سوچ ہے کہ میاں نواز شریف ڈیل کر کے آئے ہیں اور انہیں ریاستی مہمان کا درجہ دیا جا رہا ہے دوسری طرف کی سوچ یہ کہ وہ سب کو اتحاد کا پیغام دے رہے ہیں، ملک کو مسائل سے نکالنے کا عزم کر رہے ہیں، ملک کو بہتری کی طرف لے جانے کا پیغام دے رہے ہیں۔ اگر پی ٹی آئی یہ سمجھتی ہے کہ دو ہزار اٹھارہ میں حکومت سنبھالنے کے بعد جن مشکلات کا انہیں سامنا کرنا پڑا اس کی وجہ ن لیگ کی بدانتظامی تھی تو پھر اس فارمولے کے تحت تو گذشتہ سولہ ماہ کی مشکلات کی ذمہ داری بھی پاکستان تحریک انصاف پر عائد ہوتی ہے کیونکہ جو ن لیگ پی ٹی آئی کو دے کر گئی تھی اس سے بری حالت میں ملک عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے میاں شہباز شریف اور ان کے ساتھیوں کو واپس کیا۔ سو ہمیں حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے عدم برداشت کے روئیے کو ترک کرنا ہو گا۔ پی ٹی آئی کے بڑے جلسوں سے نہ تو ملک کو کچھ فائدہ ہوا اور نہ ہی کسی اور سیاسی جماعت کے بڑے جلسوں سے کوئی فائدہ کبھی ہو سکتا ہے۔ پی ٹی آئی کے ترجمان اب بھی سمجھ نہیں سکے کہ کوئی ایک جماعت ملک کے مسائل حل کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی یہاں سب کو مشترکہ کوششیں کرنا ہوں گی اور جو ملک کے لیے کام کر رہا ہے اس کا ساتھ دینا ہو گا ۔ حکومت میں رہتے ہوئے عوامی جذبات کو بھڑکانے اور نفرت پھیلانے کے بعد آج بھی اسی نفرت کے پیغام کو پھیلانا کہاں کی عقلمندی ہے۔ خودپسندی سے باہر نکلیں اور ملک کا سوچیں ۔ میاں نواز شریف کی طرف سے اتحاد کا پیغام خوش آئند ہے لیکن انہیں بھی اس پر عملدرآمد کرنا چاہیے یہ صرف اعلانات کی حد تک نہیں ہونا چاہیے۔ ویسے رانا ثنااللہ نے وضاحت کر دی ہے کہ اتحاد والے بیانیے میں پی ٹی آئی شامل ہے ۔ جہاں تک پی ٹی آئی کی طرف سے میاں نواز شریف کو ریاستی مہمان کا درجہ دینے پر اعتراض ہے تو پھر پاکستان تحریک انصاف کو ماضی میں اپنی اتحادی جماعتوں سے بھی ناراض ہو جانا چاہیے کیونکہ بلوچستان عوامی پارٹی  نے آئندہ الیکشن میں مسلم لیگ ن کے ساتھ چلنے کا اعلان کر دیا ہے۔ترجمان بلوچستان عوامی پارٹی سینیٹر کہدہ بابر نے اپنے بیان میں کہا کہ ن لیگ کے اتحادی تھے، مستقبل میں بھی ساتھ مل کر چلیں گے۔ نوازشریف کی وطن واپسی کا خیرمقدم کرتے ہیں، ان کی واپسی خوش آئند ہے۔ ملک سیاسی و معاشی استحکام کی طرف بڑھے گا۔ تمام سیاسی جماعتوں کے لیے بہتر یہی ہے کہ زمینی حقائق کا جائزہ لیں اور ملک میں اتحاد کو فضا کو برقرار رکھنے کے لیے کردار ادا کریں ۔
آخر میں فیاض ہاشمی کا کلام
آج جانے کی ضد نہ کرو
یوں ہی پہلو میں بیٹھے رہو
آج جانے کی ضد نہ کرو
ہائے مر جائیں گے، ہم تو لٹ جائیں گے
ایسی باتیں کیا نہ کرو
آج جانے کی ضد نہ کرو
تم ہی سوچو ذرا کیوں نہ روکیں تمہیں
جان جاتی ہے جب اٹھ کے جاتے ہو تم
تم کو اپنی قسم جان جاں
بات اتنی مری مان لو
آج جانے کی ضد نہ کرو
یوں ہی پہلو میں بیٹھے رہو
آج جانے کی ضد نہ کرو
وقت کی قید میں زندگی ہے مگر
چند گھڑیاں یہی ہیں جو آزاد ہیں
ان کو کھو کر مری جان جاں
عمر بھر نا ترستے رہو
آج جانے کی ضد نہ کرو
کتنا معصوم رنگین ہے یہ سماں
حسن اور عشق کی آج معراج ہے
کل کی کس کو خبر جان جاں
روک لو آج کی رات کو
آج جانے کی ضد نہ کرو
یوں ہی پہلو میں بیٹھے رہو
آج جانے کی ضد نہ کرو

ای پیپر دی نیشن