اکتوبر اکتوبر بارہ سال 

ویسے تو ہر مہینہ بارہ ماہ بعد پھر آتا ہے لیکن یہ اکتوبر بارہ سال بعد آیا۔ یہی دن تھے یہی مہنیہ ایسا ہی انگڑائی لیتا موسم،بدلتی رت کی خنکی بھری رات، پاکستان بھر کے میڈیا کے کیمروں کا رخ لاہور میں مینار پاکستان سے متصل اقبال پارک پر تھا اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا اجتماع ماضی قریب میں تو یہاں کبھی دیکھا نہیں گیا تھا۔سیکڑوں ایکڑ پر مشتمل یہ میدان شام ہوتے ہی لوگوں سے بھر چکا تھا۔اس وقت ملک میں دو جماعتی نظام جڑیں پکڑ رہا تھا لیکن ماضی کی یہ شدید ترین مخالف جماعتیں اب برائے نام سیاسی یا یوں کہیں صرف انتخابی حریف ہی بن کر رہ گئی تھیں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی جلاوطن قیادت نے پرویز مشرف کے آمرانہ دور میں ماضی کی غلطیوں کو تسلیم کرتے ہوئے مستقبل میں حکمرانی کے کچھ اصول وضع کئے جنہیں میثاق جمہوریت کا نام دیا گیا اور یوں ان جماعتوں کو دوستانہ مخالف ہی سمجھا جارہا تھا اور یہ بات طے ہوچکی تھی کہ اب یہ دونوں جماعتیں ماضی کی طرح سیاسی مخالفت میں “کسی بھی “ حد تک نہیں جائیں گی۔ تو اب ضرورت تھی ایک ایسی سیاسی قوت کی جو ان دونوں جماعتوں کا توڑ ہو اور اسی تیسری قوت کا جنم ہوا 30 اکتوبر 2011 کے مینار پاکستان جلسے میں،پندرہ سال سے ایک سیٹ کی سیاست کرنیوالی عمران خان کی تحریک انصاف یکدم اتنی بڑی سیاسی قوت بن جائے گی ایسا کم از کم اس جلسے سے پہلے کسی نے نہیں سوچا تھا شاید خود خاں صاحب نے بھی نہیں ، یہ تیسری قوت اگلے انتخابات میں تیسری بڑی پارلیمانی جماعت بھی بنی اور حکومت کے لئے سب سے بڑا پریشر گروپ ثابت ہوئی، پھر اس سے اگلے انتخابات میں اسی تیسری قوت کو سب سے بڑی سیاسی قوت بنا کر حکومت میں لا بٹھایا گیا۔ پھر جو انہوں نے ساڑھے تین سال کے اقتدار میں کیا وہ تاریخ کا حصہ رہے گا ، آج یہ تجربہ کرنے والے بھی مانتے ہیں کہ یہ ایک ناکام تجربہ ثابت ہوا۔ بارہ سال بعد ایک بار پھر اکتوبر آیا ہے اس بار مینار پاکستان یہاں جس جم غفیر کا شاہد بنا وہ غیر جانبدار عینی شاہدین کے مطابق بارہ سال پہلے والے اکتوبر سے بھی بڑا تھا اس بار یہاں کسی نئی سیاسی قوت کا جنم نہیں ہوا بلکہ یہ ہے ایک پرانی سیاسی قوت کا نیا جنم۔ سولہ ماہ گلے میں پڑنے والا حکومت کا ڈھول بجانے والی جماعت کے اپنے گلے بہت کچھ پڑ چکا تھا۔ مہنگائی، بیروزگاری ،بجلی ،گیس کے بھاری بل۔خود کو بری الزمہ کرنے کیلئے عوام کو سمجھانے کی لاکھ کوشش کی گئی کہ یہ سب ہمارا قصور نہیں یہ تو سابقہ حکومت کی پالیسیوں کا خمیارہ ہے لیکن عوام تو بجا طور پر اسے ہی قصور وار ٹھہرائیں گے جو حاکم وقت ہے۔ اب ن لیگ کے پاس آخری پتا تھا قائد نواز شریف کا تو انہیں وطن واپس لایا گیا اور نعرہ دیا گیا کہ 2017 والا پاکستان واپس لائیں گے جب ملک ترقی کررہا تھا ڈالر پیڑول ریٹ سب کنٹرول میں تھا،عوام مطمئن تھے نوکریاں مل رہیں تھیں وغیرہ وغیرہ ،مخالفین اور ناقدین درست طور پر یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ ایک جماعت جو دہائیوں اقتدار میں رہی وہ اس وقت سب ٹھیک نہیں کرسکی اب کیا کرے گی،تو وہ کر سکے یا نہ کرسکے دعوی ضرور کرسکتی ہے اور اس دعوی کا موقع انہیں وہی دیتے ہیں جو یہ حکومتیں چلنے نہیں دیتے۔
 اکتوبر 2011 سے اکتوبر 2023 تک کی ہی بات کریں تو ان درجن بھر سالوں میں نصف درجن بھر وزرائے اعظم اس ملک نے دیکھ لئے ،ویسے تو نواز شریف پاکستان کے تین بار وزیر اعظم رہے لیکن ان تین باریوں کے سال دس بھی بمشکل پورے ہوتے ہیں۔یعنی دراصل دو باریاں وہ بھی ٹکڑوں میں۔اگر وہ اپنی تیسری مدت کے پانچ سال ہی مکمل کرلیتے تو آج ان کے پاس یہ موقع نہ ہوتا کہ وہ اپنی حکومت کے خاتمے کو معیشت کی ترقی رک جانے کی وجہ قرار دیتے پھر یقیناً لوگ انتخابات میں فیصلہ کرتے کہ کیا واقعی انہوں نے معشیت کی ترقی کا ایجنڈا پورا کیا یا نہیں۔ یہ صرف ایک نواز شریف کی بات نہیں پاکستان میں تو کوئی ایک وزیر اعطم بھی حکومت پوری نہ کرسکا اس لئے آج سبھی کے پاس یہ جواز موجود ہے کہ وہ تو ملک کو کہاں سے کہاں لے جاتے اگر انہیں پورا موقع ملتا۔ زیادہ پیچھے نہ بھی جائیں اور سوچیں اگر 2013 میں آنیوالی نواز شریف حکومت پانچ سال پورے کرلیتی تو کیا 2018 کا انتخابی نتیجہ یہی ہوتا اور اگر عمران خان حکومت پانچ سال پورے کرلیتی تو کیا اب بھی وہ مقبول ترین سمجھے جاتے ،تو ملک کے ساتھ بہت کچھ کرلیا بہت سے پارٹیاں بنائی گئیں، لائی گئیں، بہت سے تجربے، جمہوریت ،آمریت ،ہائبرڈ رجیم سب کرکے دیکھ لیا اب کم از کم کسی کو پانچ سال بغیر کسی مداخلت کے پورے کرنے دیں پور دیکھ لیں کیا ہوتا ہے۔ پھر یقینا عوام فیصلہ کریں گے کہ کس کی جلسہ گاہیں بھرنی ہیں اور کس کے بیلٹ باکس۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...