میاں محمد نواز شریف کی واپسی کے لیے جو ماحول بنایا گیا تھا اس میں عوام کی دلچسپی پیدا کرنے کے لیے یہ تاثر دیا گیا تھا کہ میاں نواز شریف اپنے ساتھ ملک بچانے کا فارمولا لا رہے ہیں۔ لوگوں کو بھی تجسس تھا کہ دیکھتے ہیں میاں نواز شریف کے پاس ملک بچانے کی کون سی گیدڑ سنگھی ہے۔ بلا شبہ اپنوں نے اور غیروں نے بڑے انہماک کے ساتھ میاں نواز شریف کی پوری تقریر سنی لیکن انھوں نے اپنے اوپر ہونے والے مظالم کی ساری داستانیں سنا دیں۔ اپنے خاندان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا بھی تفصیل کے ساتھ اظہار کر دیا۔ پھر دبے لفظوں عطار کے لونڈے کا بھی ذکر کر دیا کہ وہ کون ہیں جو بار بار جمہوری حکومتوں کو ڈسٹرب کر دیتے ہیں۔ چونکہ میاں صاحب ایک بار پھر اسی عطار کے لونڈے سے تازہ تازہ دوا لے کر آئے ہیں اس لیے انھوں نے کھل کر اس کا اظہار نہیں کیا لیکن انھوں نے باور ضرور کروا دیا ہے کہ میں بھولا نہیں ہوں میرے دل میں چھبن اسی طرح ہو رہی ہے۔
میاں صاحب کا احساس اپنی جگہ درست ہے لیکن انھیں یہ بھی علم ہے کہ وہ کیا کر سکتے ہیں اور کیا نہیں۔ انھوں نے بھارت کے ساتھ تعلقات کا بھی عندیہ دیا۔ انھوں نے مہنگائی کا بھی ذکر کیا اور معاشی مسائل سے ملک کو نکالنے کی بھی بات کی لیکن اصل سوال اپنی جگہ پر بددستور موجود ہے کہ ان مسائل کا حل کیا ہے۔ لوگ یہ آس لگائے بیٹھے تھے کہ تین دفعہ رہنے والےاس ملک کے وزیراعظم اور 1985 سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پر حکمرانی کرنے والی جماعت کے سب سے زیادہ تجربہ کار سربراہ میاں نواز شریف نے کوئی ہوم ورک کیا ہو گا۔ وہ ایک ایک شعبہ کے حوالے سے عوام کو مطمئن کریں گے کہ اس شعبے میں بہتری کے حوالے سے ہمارے پاس یہ روڈ میپ ہے، اس شعبہ کے لیے یہ روڈ میپ ہے، ہم ان اصلاحات کے ذریعے ملک کی اقتصادیات کو اتنے عرصہ میں درست کر لیں گے۔ سیاسی بحران کے حل کے لیے ہمارے پاس یہ ایجنڈا ہے۔ مہنگائی پر ہم اس طرح قابو پائیں گے۔ انصاف کی جلد فراہمی کے لیے ہم یہ کریں گے، توانائی کے بحران اور بجلی گیس کی قیمتوں میں اس طرح کمی کریں گے، غیر ملکی قرضوں کے گرداب سے اس طرح نکلیں گے، ملک کو کتنے عرصے میں ٹریک پر لے آئیں گے۔ لوگ میاں نواز شریف کے منہ سے یہ باتیں سننا چاہتے تھے لیکن اس حوالے سے عوام کو مکمل مایوسی کا سامنا کرنا پڑا یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ میاں نواز شریف مینار پاکستان پر اپنا منشور پیش کریں گے۔ جن بنیادوں پر میاں نواز شریف کی واپسی کی عمارت کھڑی کی گئی تھی جس کی پورے میڈیا میں مارکیٹنگ کی گئی تھی۔ جو سرخیاں جمائی گئی تھیں ان کا مسودے میں ذکر تک نہ تھا البتہ مسلم لیگ ن والے کئی مہینوں کی دن رات محنت اور ہر طرف سے سہولت کاری کے باعث ایک اچھا سیاسی شو کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔
میاں نواز شریف کو پاکستان میں ایک فاتح کے طور پر لایا گیا اور ن لیگ یہ تاثر دینے میں بھی کامیاب رہی کہ اب اقتدار ہم سے زیادہ دور نہیں۔ پنجاب میں انتخابات میں کامیابی کے لیے ماضی میں یہ تاثر بڑا کارگر ثابت ہوتا رہا ہے لیکن اب بدلے بدلے میرے سرکار نظر آتے ہیں۔ اب نہ روائیتی سیاست رہی ہے نہ روائیتی ہتھکنڈے کارگر رہے ہیں۔ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے۔ میاں نواز شریف کی تقریر بھی روائیتی تھی ان کے جلسے کا انداز بھی روائیتی تھا، لوگوں کو اکھٹا کرنے کا طریقہ کار بھی روائیتی تھا۔ لیکن اصل امتحان تو اب شروع ہونیوالا ہے جب میاں نواز شریف عوام میں جائیں گے تو انھیں عوام کی جانب سے کیسا رسپانس ملتا ہے۔ ایک جلسے یا استقبال سے نہ الیکشن جیتا جا سکتا ہے نہ اس کی مارکیٹنگ کرکے لوگوں کو متاثر کیا جا سکتا ہے کیونکہ ماضی قریب میں ایک دوسری مخالف سیاسی جماعت برق رفتاری کے ساتھ جلسوں کی سیریل کر چکی۔ لوگ روزانہ کی بنیاد پر اتنے بڑے بڑے جلسے دیکھ چکے ہیں۔ وہ اسی قسم کا ایک دن جلسہ لاہور میں دیکھتے تھے اگلے روز کراچی میں اس سے اگلے روز پشاور میں اور پنجاب کے ہر بڑے شہر میں دیکھتے رہے ہیں۔ کیا مسلم لیگ یہ سارا کچھ کر پائے گی۔ وہ عوام کو متاثر کرنے والا بیانیہ بنانے میں کامیاب ہو پائے گی؟ وہ لوگوں کے سلگتے سوالوں کے جواب دے پائے گی؟یہ سب باتوں کا جواب جاننے کے لیے وقت کا انتظار کرنا پڑے گا۔ ابھی تو 24 اکتوبر کا انتظار ہے کہ میاں صاحب کو ملنے والی حفاظتی ضمانت کے بعد ان کی سزا کا کیا بنے گا، ان کی اہلیت کاکیا بنے گا، انتخابات کا کیا بنے گا۔ میاں محمد نواز شریف کی واپسی تک کاسفر تو احسن طریقے سے پایہ تکمیل کو پہنچ چکا۔ چشم ما روشن دل ما شاد ہو چکا۔ میاں نواز شریف کی تقریر کی ٹکر کا شیخ رشید کا انٹرویو بھی زیر بحث ہے خاص کر جو انھوں نے 9مئی کے حوالے سے گرفتار لوگوں کی عام معافی کے ایجنڈے کو لے کر سیاست کرنے کی بات کی ہے اس سے کئی قسم کی نئی اصطلاحیں جنم لے رہی ہیں۔ کیا شیخ رشید اسٹیبلشمنٹ سے عام معافی دلوانے کے کسی نئے ایجنڈے پر کوئی لائن لے کر آئے ہیں۔ کیا شیخ رشید کو کوئی صلح میں کردار دیا جا رہا ہے۔ استحکام پارٹی میں تحریک انصاف کے اہم رہنماوں کی شمولیت سے پنجاب میں مسلم لیگ ن کے لیے نئی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ نئی بساطیں بچھائی جا رہی ہیں اور اندر کھاتے بہت کچھ نیا ہو رہا ہے۔ اب ایک نئی قسم کی کچھڑی پکائی جا رہی ہے جس کے خدوخال چند دنوں تک واضح ہونے شروع ہو جائیں گے۔