پاکستان سٹیٹ آئل (پی ایس او) کی جانب سے ایندھن کی فراہمی میں کمی سے قومی ائیر لائن کا فلائٹ آپریشن شدید متاثر ہوا جس کے باعث مسافروں کو پریشانی کا سامنا ہے۔ ذرائع کے مطابق ملک بھر کے ائیرپورٹس سے پی آئی اے کی 26 پروازیں منسوخ کر دی گئی ہیں۔ کراچی سے مختلف ائیرپورٹس کی 18 پروازیں اور سیالکوٹ سے مسقط جانے اور آنے کی 2 پروازیں منسوخ کر دی گئی ہیں۔ فیول ایڈجسٹمنٹ پلان کے تحت آج کراچی ائیرپورٹ سے اندرون و بیرون ملک کی صرف 3 پروازوں کی آمدورفت ہوگی جن میں کراچی سکھر کی دو طرفہ پرواز، اسلام آباد، دبئی اور جدہ کی ایک ایک پرواز شامل ہے۔ ترجمان پی آئی اے کے مطابق پی ایس او نے پروازوں کو ایندھن فراہم کر دیا ہے۔
ایک دور تھا جب پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) پاکستان کا بہترین قومی ادارہ تھا جو ملکی معیشت میں دوسرے اداروں کی طرح اپنا کثیر حصہ ڈال رہا تھا۔ بدقسمتی سے انتظامی غفلت‘ کرپشن اور سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھ کر یہ ادارہ نہ صرف خسارے کا شکار ہوا بلکہ آج نوبت اسکی نجکاری تک آن پہنچی۔ اسکے طیاروں کی خستہ حالی کے باعث کئی ممالک نے اپنے ہاں اسکے فلائٹ اپریشن پر پابندی عائد کی ہوئی ہے جس کی وجہ سے اس ادارے کو مزید بھاری خسارہ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ اس میں بہتری لانے کے بجائے ہر حکومت اسے فروخت کرنے کی پالیسی پر گامزن رہی۔ ایک رپورٹ کے مطابق پی آئی اے کا ماہانہ خسارہ 12 ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے جس کی وجہ سے کئی جہاز گراﺅنڈ ہو چکے ہیں۔ اس وقت پی آئی اے کئی اداروں کا مقروض ہے‘ اسے ادائیگیوں کے سنگین بحران کا سامنا ہے۔ اس تناظر میں ہی ماہرین اسکی نجکاری کو ضروری قرار دے رہے ہیں۔ خسارے کے باعث اسکی نجکاری کرنا اس کا حل نہیں بلکہ ان خرابیوں کا کھوج لگانے کی ضرورت ہے جنہیں درست کرکے اس ادارے کو دوبارہ اپنے پاﺅں پر کھڑا کیا جا سکتا ہے۔ پی آئی اے اگر کسی انتظامی غفلت‘ کرپشن یا سیاسی مفادات کی وجہ سے اس نہج پر پہنچا ہے تو ادارے کی انتظامیہ کو جوابدہ ٹھہرانا چاہیے جو اس ادارے سے بھاری مراعات وصول کر رہی ہے مگر اسکی بہتری کیلئے کوئی اقدامات بروئے کار نہیں لارہی۔ حکومت کو پی آئی اے اور سٹیل ملز سمیت تمام دوسرے قومی اداروں کی طرف فوری توجہ دینی چاہیے جو اس وقت خسارے میں چل رہے ہیں‘ انکی نجکاری کرنے کے بجائے ‘ انہیں اپنے پاﺅں پر کھڑا کرکے منافع بخش بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔