قومی ایئرلائن کا غم اور گلوبل پیس کانفرنس

ہم باکمال لوگوں کی لاجواب قومی سروس پی آئی اے جس کی اعلیٰ ترین فضائی کارکردگی کی دنیا بھر میں ایک مخصوص مدت تک مثالیں دی جاتی رہیں‘ وہ ایئرلائن جس نے پورے یو اے ای کی امارات ایئرلائن سمیت دنیا کے متعدد ممالک کی فضائی کمپنیوں کو منافع بخش بنانے اوران کے اعلیٰ معیار کو قائم رکھنے کیلئے کئی برس تک اپنی خدمات وقف کیں‘ وہ ایئرلائن جس کی شرمناک حد تک بگڑی مالی حالت کی بہتری کیلئے میں نے انہی سطور میں 12 برس تک ایڑی چوٹی کا زور لگایا‘ اپنی پی آئی اے کے گرتے معیار کو بحال کرنے کیلئے جہاں تک رسائی ممکن ہو سکی‘ ’’ترلے منتیں‘‘ تک کیں مگر افسوس! 
مرے تھے جن کیلئے وہ رہے وضو کرتے۔
ایئرلائن اپنا کھویا معیار بحال نہ کرسکی۔ 1970ء کی دہائی تک پی آئی اے کا شمار دنیا کی انتہائی قابل اعتماد‘ محفوظ اور شہرت یافتہ فضائی کمپنیوں میں ہوتا رہا۔ مہذب دنیا کے بیشتر مسافر اس ایئرلائن پر سفر کرنا اپنا اعزاز تصور کرتے تھے مگر پھر! ہم باکمال لوگوں کی اس لاجواب سروس کو ایسی نظربد لگی کہ آج تک خسارے سے باہر نہیں نکل پائی۔ 2022-23ء کے خسارے ہی کی صرف بات کی جائے تو پی آئی اے کا ماہانہ خسارہ تقریباً 12 ارب اور مجموعی خسارہ 740 ارب روپے تک ریکارڈ کیا گیا۔ دوسری جانب برطانیہ کیلئے فلائٹ اپریشن بند ہونے کے باوجود برطانیہ میں تعینات افسران کو مبینہ طور پر تین کروڑ روپے کے لگ بھگ تنخواہیں ملتی رہیں مگر Great People to Fly کے ماٹو پر برطانوی مسافروں کا اعتماد پھر بھی بحال نہ ہو پایا۔ میرے ذرائع کے مطابق 2023ء کے پہلے ماہ کی مالی رپورٹ میں 6071 ارب روپے سے زائد نقصان کی نشاندہی سامنے آئی مگر برطانوی مسافروں کا اعتماد مزید متزلزل ہوا۔ یہ تو بھلا ہو ٹرکش ایئرلائن کا جس نے   Share Codeکے تحت پی آئی اے سے ہم وطنوں کا رشتہ برقرار رکھا۔ ادھر لندن میں پی آئی اے کے سابق آٹھ ملازمین نے مبینہ طور پر اپنی غیرمنصفانہ برطرفی کا کیس بھی جیت لیا ہے۔ عدالت نے پانچ لاکھ پونڈ جرمانے کا حکم دیا ہے۔ شرمناک حد تک خسارے میں جانے والی پی آئی اے کو ماضی میں متعدد بار نجی شعبے میں دینے کی منصوبہ بندی کی گئی مگر افسوس! معاملہ ہر مرتبہ التواء کا شکار ہوتا رہا۔ اب جا کر حکومت نے اس سلسلہ میں جب فیصلہ کیا تو خسارہ کئی گنا زیادہ بڑھ چکا ہے۔  
پرائیویٹائزیشن کیلئے نجکاری کمیشن چونکہ اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے تھا‘ اس لئے مبینہ طور پر طے پایا کہ Bidding ماہ اکتوبر کے پہلے ہفتے کی جائے‘ مگر بعدازاں معاہدے کے مسودے پر فوری طور پر کارروائی نہ ہونے کی بناء پر ایئرلائن کی ’’بولی‘‘ کو اب 31 اکتوبر 2024ء تک بڑھا دیا گیا ہے۔ یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ کسی بھی ایئرلائن کو پرائیویٹائز کرنے سے قبل سٹیک ہولڈرز کے تحفظات دور کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ اب جبکہ قومی ایئرلائن کی Bidding کا عمل جاری ہو چکا ہے تو بدقسمتی سے پی آئی اے ملازمین کو مبینہ طور پر انکی ملازمتوں سے فارغ اور پنشن نہ دینے کا سوال بھی اْٹھ چکا ہے۔ توقع ہے کہ سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے نجکاری اجلاس میں ملازمین کی ملازمتوں اور پنشن کے حوالہ سے معاملات طے کرلئے جائیں گے۔ 
لندن میں پت چھڑ کے موسم کے ساتھ ہی جہاں سردی اپنی آمد کی اطلاع دیتی ہے‘ وہیں برطانوی سردی سے لطف اندوز ہونے کیلئے پاکستان سے آئے سیاست دانوں‘ قوالوں‘ گلوکاروں‘ پیروں‘ فقیروں اور اللہ والوں کے قافلوں میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ اسی طرح اسلامی احیاء کے فروغ اور امن پسندانہ پیغامات کی ترویج کیلئے بیشتر اسلامی ادارے اور تنظیمیں سپانسرز کے ذریعے دنیا بھر سے مبلغین اور اسلامی سکالرز کو اپنے خرچ پر دعوت دیتی ہیں۔ 
گزشتہ ہفتے اس طرز کی ’’گلوبل پیس فیسٹول کانفرنس‘‘ کا انعقاد لندن کے بین الاقوامی شہرت یافتہ سٹیڈیم Excel میں ہوا۔ اسلام چینل اور دیگر اسلامی تنظیموں کے تعاون سے منعقدہ اس دو روزہ کانفرنس میں 42 ہزار افراد نے شرکت کی۔ شوکت خانم‘ مسلم ہینڈ‘ اسلامک ریلیف اور المصطفیٰ سمیت درجنوں چیرٹی تنظیموں نے اپنے سٹال لگائے جبکہ این ایچ ایس کی جانب سے بزرگوں‘ خواتین اور بچوں کو مفت فلو اور کووڈ بوسٹر انجکشنز کا بھی انتظام کیا گیا تھا۔ اس دو روزہ اسلامی کانفرنس میں پاکستان سے دیگر مندوبین سمیت سابق وفاقی وزیر برائے مذہبی امور اور رکن قومی اسمبلی محمد اعجازالحق کو بھی مدعو کیا گیا تھا مگر اپنی دیگر سیاسی مصروفیات کی وجہ سے وہ کانفرنس میں شرکت نہ کر سکے۔ 
کانفرنس میں ممتاز سکالر مولانا طارق جمیل کے دو اہم لیکچر شامل تھے جن میں برطانوی نئی نسل کا اپنے والدین سے معاندانہ برتائو‘ والدین کے آٹھ گھنٹے کام سے زائد اوورٹائم لگانے کے گھریلو زندگی اور بچوں پر منفی اثرات‘ بیوی اور خاوند کے بنیادی حقوق‘ مائوں کا احترام‘ والد کا مقام‘ بہو اور بیٹیوں کے فرائض دین اسلام سے مکمل آگہی اور طلاق کا انتہائی ناپسندیدہ عمل شامل تھا۔ اسلام چینل کے چیئرمین محمدعلی نے مسلم امہ میں پائی جانے والی عدم یکجہتی اور صہیونی قوتوں کی جانب سے غزہ کے مظلوم مسلمانوں پر کی جانے والی جارحیت کے خلاف اتحاد پر زور دیا۔ دیگر مقررین کے علاوہ ڈاکٹر اسماعیل پٹیل‘ اقبال سکرانی‘ ڈاکٹر فنکیٹسین‘ شیخ ابراہیم گرین اور شیخ نعمان نے بھی خطاب کیا۔ 
کانفرنس میں مسلم ہینڈ انٹرنیشنل کے چیئرمین اور ممتاز عالم دین سید لخت حسنین‘ ممتاز آرتھوپیڈک سرجن ڈاکٹر عدنان مجید خان‘ پاکستان سے آئے معروف قانون دان سید معظم علی شاہ‘ سماجی رہنماء چودھری ذوالفقار اور پریس فوٹو گرافر طارق خان نے بھی شرکت کی۔

ای پیپر دی نیشن