بے روزگاری کی ڈسی ہوئی نوجوان نسل

میرے خیال میں اگر عوام کو درپیش مسائل کی درجہ بندی کی جائے تو بے روزگاری کا مسئلہ یقیناً پہلے درجے پر آتا ہے جس میں حکمران طبقات کی اپنی پالیسیوں کا عمل دخل ہے۔ یہ مسئلہ نہ صرف غربت کو بڑھا رہا ہے بلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں اور ان کے سہانے مستقبل کے خواب دیکھنے والے ان کے والدین کو بھی عملاً ذہنی مریض بنا کر سماجی رہن سہن اور شرفِ انسانیت  کو الٹاتے ہوئے پورے سماجی معاشرے کو جرائم کی آماجگاہ بنانے کے راستے نکال رہا ہے۔ پچھلے دنوں ایک معروف کلینیکل سائیکاٹرسٹ صبا شبیر شیخ سسٹم کے ساتھ مایوسی اظہار کرتے ہوئے بتا رہی تھیں کہ جن اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کے ساتھ ملازمت کے حصول کے معاملہ میں ناانصافی ہو رہی ہے اور میرٹ کے ڈھکوسلے کے تحت انہیں این ٹی ایس اور پبلک سروس کمشن کے تحت ملازمت کے ہر اشتہار میں چار سو سے سات سو روپے کی فیس کے ساتھ تحریری ٹیسٹ اور انٹرویو کے لئے نتھی کیا جا رہا ہے اور اس بار بار کی ایکسرسائز کے باوجود یہ نوجوان ملازمت کے حصول میں کامیاب نہیں ہو پاتے تو صرف وہی ذہنی دباؤ کا شکار نہیں ہوتے بلکہ ان کے والدین بھی بار بار کی فیسیں ادا کرکے ذہنی تناؤ میں مبتلا رہتے ہیں اور پھر مستقل ذہنی مریض بن جاتے ہیں۔ صبا شبیر کے بقول ان کے پاس کونسلنگ کے لئے آنے والے نفسیاتی مریضوں میں بھی اکثریت انہی مضطرب طبقات کی ہے۔ میں خود بھی اسی ناطے سے پڑھی لکھی نوجوان نسل میں پائے جانے والے اضطراب کا مشاہدہ کرتی رہتی ہوں۔ یہ نوجوان خواتین و حضرات اور ان کے والدین ایک ایسے کرب میں مبتلا نظر آتے ہیں جس کا ردعمل اتنا خوفناک ہو سکتا ہے کہ وزیر اعظم  میاں شہباز شریف کے خونیں انقلاب کو آتا دیکھنے والے فیشنی بیانات کے عملی قالب میں ڈھلنے سے بھی شائد ہمارے معاشرے میں اتنی خوفناک صورتحال پیدا نہیں ہو گی۔مجھے حیرت ہوتی ہے کہ موجودہ حکمران طبقات اپنے ہاتھوں سے انسانی معاشرتی ڈھانچے کی تباہی کا اہتمام کر رہے ہیں اور انہیں اس پر کسی قسم کی فکر بھی لاحق نہیں۔ حکمران طبقات بجٹ میں موجود اعداد و شمار کے نہ جانے کون سے ہیر پھیر سے نتیجہ اخذ کرکے قوم کو یہ خوشخبری سناتے رہتے ہیں کہ حکومتی اقدامات سے اتنے لاکھ افراد کو روزگار ملے گا۔ بھئی یہ روزگار زمین کے کس حصے پر اُگے گا اور کس کے ہاتھ کیسے آئے گا؟۔ سالہا سال سے روزگار کی تلاش میں دھکے کھاتے، رسوا ہوتے، میرٹ کی دھجیاں بکھرتے اور دستیاب ملازمتوں کے دروازے اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے اشرافیاؤں کے پسندیدگان کے لئے کھلتے دیکھ کر مایوسیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں گرنے والے اس معاشرے کے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بچوں بچیوں اور ان کے مایوس والدین کو بھی اس سے آگاہ کر دیجئے۔ ورنہ ایک مایوسی تو ہے سو ہے۔ اور وہ ساری انسانی معاشرتی اقدار کو کھا رہی ہے تو کیا اس معاشرے پر نازل ہونے والی وحشتوں کو ٹالا جا سکے گا؟
ہمیں روزانہ ایسے مایوس  بچوں بچیوں  کی  آہ و بکا سننا پڑتی ہے اور چلتے پھرتے مشاہدے میں بھی آہ و بکا کے ایسے مناظر روح تک کو کرب میں ڈبو جاتے ہیں مگر حکمران طبقات کے کانوں پر جوں تک رینگتی نظر نہیں آتی۔ حکمران طبقات میں ’’پڑھا لکھا پنجاب‘‘  اور ’’پڑھو، بڑھو، مقدر سنوارو‘‘ جیسے دلفریب نعروں سے  اپنی اپنی  سیاسی دکانداری سجانے، چمکانے کی ریس لگی تو نظر آتی ہے مگر آگے بڑھنے کی تمنا میں پڑھے لکھے نوجوان طبقات اپنے اچھے مستقبل کے  جتن میں راندہ درگاہ ہوتے جا رہے ہیں اور مایوسی اوڑھے بیٹھے ہیں جنہیں اوورایج ہونے کا غم بھی کھائے جا رہا ہوتا ہے۔ کیا کبھی جائزہ لیا حکمران طبقات نے معاشرے میں پھیلنے والی اس مایوسی کے ممکنہ مضر اثرات کا؟ اگر جائزہ لے لیں تو انہیں رات کو چین سے نیند بھی نہ آنے پائے۔
 کچھ عرصہ پہلے پنجاب پبلک سروس کمشن نے لیکچرار کی پندرہ سو کے قریب آسامیاں مشتہر کیں۔ کیا ہمارے وفاقی اور صوبائی حکمرانوں کو اس کی رپورٹ ملی  کہ ان اسامیوں پر سروس کمشن کو دو لاکھ درخواستیں موصول ہوئی تھیں۔ یہ سارے درخواست گزار خواتین و حضرات علم و استعداد کے حوالے سے اپنے تئیں میرٹ پر پورا اترتے تھے مگر ان میں سے 15سو نے تقرر پانا تھا اور دیگر ایک لاکھ 98 ہزار پانچ خواتین و حضرات نے ملازمت کے حصول کے جتن میں جتے ہی رہنا تھا۔ کیا ملازمت کا حصول ان سب کا حق نہیں اور جن کو جس طریقے سے ملازمت ملتی ہے اس کی سرعام چلتی پھیلتی داستانیں سن کر سر چکرانے لگتا ہے۔ آپ فیسیں بھرو، این ٹی ایس کے انٹری ٹیسٹ کی تیاری کرو مگر ارکان اسمبلی و سینٹ کی سفارشات پر لسٹیں پہلے سے تیار شدہ ہوتی ہیں جو مقتدر حلقے کی جس شخصیت کی جانب سے فراہم کی جاتی ہیں اور پھر ایسی لسٹوں میں نام شامل کرنے کے لئے بھاؤ تاؤ والی داستانیں زیادہ المناک ہیں۔  آپ تصور کیجئے کہ کسی پوسٹ کی دستیاب اسامیوں پر این ٹی ایس کے انٹری ٹیسٹ میں 90 فیصد تک نمبر لینے والے ہی تقرر کے مستحق ٹھہریں گے اور اتنے نمبر لینے کا نسخہ میدان عمل میں موجود کمیشن ایجنٹوں اور خود ساختہ تعلیمی اکیڈمیوں کے پاس موجود ہے جن کے متعلقہ ادارے میں کس کے ساتھ رابطے ہوتے ہیں، ایسی کسی اکیڈمی اور کمیشن ایجنٹ کو دھر کر اس سے اگلوا لیجئے۔ مگر کوئی یہ جستجو کیوں کرے گا کہ خود ہی تو ایسا کام کرایا جاتا ہے۔ اگر حکومت کی خصوصی مہربانی سے ایک ادارہ انٹری ٹیسٹ کی فیس کی مد میں اربوں روپے کما رہا ہے تو وہ کسی حکومتی شخصیت کی فراہم کردہ لسٹوں سے باہر بھلا کسی کو آنے دے گا۔ اس لئے ادارے کی ویب سائٹ پر صرف کامیاب امیدواروں کے نام دئیے جاتے ہیں اور وہ بھی صرف متعلقہ امیدوار ہی دیکھ سکتا ہے۔ جو ٹیسٹ میں ناکام ہوئے انہوں نے کتنے نمبر لئے مجال ہے اس کی بھنک بھی پڑنے دی جائے۔ مقصد صرف یہ ظاہر نہ ہونے دینا ہے کہ کامیاب ہونے والوں نے کیسے کامیابی حاصل کی۔یہ حساب لگانا یقیناً مشکل نہیں کہ سب درخواستیں این ٹی ایس کے ذریعہ وصول کی جاتی ہیں۔ یقیناً ان کی تعداد لاکھوں میں ہے اور یہ مذاق نہیں، حقیقت ہے کہ نائب قاصد اور کانسٹیبل کی اسامیوں پر بھی پوسٹ گریجویٹ نوجوان درخواستیں دے رہے ہیں اور وہاں بھی ان کا کوئی چارہ نہیں بن رہا۔اگر پہلے سے تیار شدہ لسٹوں پر ہی ملازمتیں دی جانی ہیں تو پھر این ٹی ایس اور سروس کمشن کے ذریعے میرٹ کے ڈھنڈورے پیٹنے کی کیا ضرورت ہے۔ صاف کہہ دیا جائے کہ ملازمتیں صرف ’’صاحب سلامت‘‘ کی نظر کرم سے ہی ملنی ہیں۔ کوئی میرٹ پر اس کی توقع نہ رکھے۔ اہل اقتدار سے بس یہی کہنا ہے کہ اپنے معاملات درست کر لیجئے ورنہ اب اقتداری اشرافیاؤں کی ناانصافی سے پیدا ہونے والا اضطراب طوفان اٹھانے کو تلا بیٹھا ہے۔ ایسے  بے رحم طوفان سے بھلا کوئی بچ پائے گا؟۔ نوجوان نسل کو مطمئن کرنے کے لیئے آپ کچھ کر گذریئے تو یہی آپ کے لیئے بہتر ہوگا۔

ای پیپر دی نیشن