پارلیمنٹ نے 26 ویں آئینی ترمیم منظور کرلی جس کی بنیاد پر آئینی بنچ کی تشکیل‘ چیف جسٹس آف پاکستان کی تقرری کا طریقہ کار‘ مدت ملازمت‘ ریٹائرمنٹ کی عمر سمیت اہم ترین امور پر قومی اسمبلی اور سینیٹ نے منظوری دی۔ اس طرح 26 ویں آئینی ترمیم کے نفاذ کے بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے تقرر سمیت دیگر اہم ترین امور پر بالکل واضح قانون بن چکا ہے۔ چیف جسٹس کا انتخاب 3 سینئر ججز میں سے12رکنی پارلیمانی کمیٹی دوتہائی اکثریت کے ساتھ کرے گی جس کی حتمی منظوری وزیراعظم دیں گے اور پھر توثیق کے لیے صدر پاکستان کو بھیجیں گے۔ چیف جسٹس کا تقرر آٹومیٹک چوائس پر نہیں ہوگا۔ 26 ویں آئینی ترمیم کے مطابق 3 سینئر ججز میں سے کسی جج کے انکار کی صورت میں اگلے سینئر ترین جج کا نام زیر غور لایا جائے گا جبکہ چیف جسٹس پاکستان کے عہدے کی مدت 3 سال یا ریٹائرمنٹ کی عمر کی حد 65 سال ہوگی۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں آئینی بنچ بنائے جائیں گے۔ چیف جسٹس سے ازخود نوٹس کے اختیارات لے لئے گئے ہیں۔ 26 ویں آئینی ترمیم کا معاملہ گزشتہ ایک ماہ سے چل رہا تھا اور حکومتی اتحادی جماعتوں‘ مولانا فضل الرحمان اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان مشاورت اور بات چیت کا عمل جاری تھا۔ اس سلسلے میں سب سے اہم کردار مولانا فضل الرحمان نے ادا کیا اور 26ویں آئینی ترمیم کے مسودے کو اس سطح تک اتفاق رائے سے منظور کرایا کہ اپوزیشن کے اراکین نے بھی 26 ویں آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دیا۔
مولانا فضل الرحمان کی جانب سے پی ٹی آئی کی قیادت سے بات چیت اور مشاورت کا جو طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے یہ مولانا فضل الرحمان کی فراخدلی ہے کہ انہوں نے ماضی کے تمام غلط ترین رویئے فراموش کردیئے اور بانی پی ٹی آئی سمیت لیڈرشپ کی جانب سے ان کے خلاف نازیبا بیان بازی اور نعرے بازی کو فراموش کردینا ایک بہت بڑے دل کی بات ہے۔ مولانا فضل الرحمان کی یہی فراخدلی ہے کہ جس نے انہیں ایک زیرک سیاست دان کے طور پر منوایا ہوا ہے۔ مولانا فضل الرحمان کی جانب سے فراخدلی کے مظاہرے کے بعد پی ٹی آئی قیادت کو اپنے ماضی کے رویئے پر معافی مانگنے کے ساتھ واضح اعلان کرنا چاہئے کہ مستقبل میں ان کی جماعت مولانا فضل الرحمان کے خلاف اپنا امیدوار کھڑا نہیں کرے گی۔
26ویں آئینی ترمیم کا معاملہ اس وقت شروع ہوا جب مخصوص نشستوں کے معاملے پر سپریم کورٹ کی جانب سے فیصلہ آیا جسے آئین سے ہٹ کر قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل نے مانگی تھیں اور بغیر مانگے یہ مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دے دی گئیں۔ اس فیصلے کے بعد صدارتی آرڈیننس آیا لیکن سپریم کورٹ کی جانب سے مخصوص نشستوں پر تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا اور کہا گیا کہ بعد میں آنے والے آرڈیننس سے مخصوص نشستوں کے فیصلے پر کوئی اثر نہیں پڑ سکتا۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے حالیہ دنوں میں مخصوص نشستوں کے بارے میں قانونی مشاورتی اجلاس ہوا اور ایک بار پھر اسی دن سپریم کورٹ کی جانب سے دوبارہ اس سلسلے میں وضاحتی فیصلہ جاری کیا گیا کہ مخصوص نشستوں کے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد ضروری ہے۔میں ذاتی طور پر جسٹس منصور علی شاہ کی بہت قدر کرتا ہوں۔اب چونکہ سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ ہیں اسی لئے 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد ان کی بطور چیف جسٹس تقرری ہونی چاہئے اور انکی حق تلفی کسی بھی طرح مناسب نہیں۔
ماضی میں ججوں نے غلط فیصلے کئے جس سے ملک کو بہت نقصان ہوا۔ بھٹو صاحب کا عدالتی قتل کیا گیا جس کا اعتراف جسٹس نسیم حسن شاہ نے خود کیا۔ پانامہ لیکس کا ٹرائل کرکے اقامہ پر نکالا گیا جس کے بعد سے اب تک ملک معاشی بدحالی کا شکار چلاآرہا ہے۔ اسی طرح جنرل مشرف کو وردی میں مزید 3 سال حکومت کرکے قانون سازی کی اجازت دی گئی۔ منتخب وزیراعظم پر ہمیشہ تلوار لٹکتی رہی اور کسی کو بھی آزادی سے کام نہیں کرنے دیا گیا۔ 26ویں آئینی ترمیم پارلیمنٹ کی بالادستی کی عمدہ مثال ہے اور تمام اراکین پارلیمنٹ داد و تحسین کے مستحق ہیں۔
26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے لئے وزیراعظم شہبازشریف کی کاوشیں قابل ستائش ہیں اور انہوں نے جس طرح اتفاق رائے کے حصول کے لئے بار بار مولانا فضل الرحمان سے ملاقاتیں کیں اور مشترکہ مسودے کی منظوری کی تمام کوششیں کیں اس پر وہ داد و تحسین کے مستحق ہیں۔
1973ء کا متفقہ آئین بھٹو صاحب کی حکومت میں بنا تھا جسے ملک کے پہلے متفقہ آئین کی حیثیت حاصل تھی۔ نوائے وقت کے ایڈیٹر مرحوم مجید نظامی ہمیشہ بھٹو صاحب کی تعریف کیا کرتے تھے اور ان کی متفقہ آئین کی فراہمی‘ ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھنے اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے اقدامات پر ہمیشہ بھٹو صاحب کو خراج تحسین پیش کیا کرتے تھے۔ صدر زرداری کو مجید نظامی صاحب سیاست کا ’’مرد حر‘‘ قرار دیتے تھے۔ مجید نظامی صاحب اگر حیات ہوتے اور اب جس طریقے سے بلاول بھٹو سیاست کر رہا ہے تو یقیناً وہ بی بی شہید کی نشانی کی تعریف کرتے۔ 26 ویں آئینی ترمیم پر مولانا فضل الرحمان کو مطمئن کرکے ایک مناسب مسودے کی منظوری تک معاملات کو لے جانے میں اہم ترین کردار بلاول بھٹو زرداری کا ہے جنہوں نے بار بار مولانا فضل الرحمان کی رہائش گاہ پر جاکر 26 ویں آئینی ترمیم پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے انتھک محنت کی اور اپنی کاوشوں سے ثابت کیا کہ وہ ایک نوجوان زیرک سیاستدان ہیں اورصدر زرداری کی جانب سے بلاول بھٹو کی جس طرح کی سیاسی تربیت کی گئی ہے اس سے موجودہ اتفاق رائے کا حصول ممکن ہوسکا ہے۔ بلاول بھٹو اگر اسی طرح سیاست کرتے رہے تو وہ مستقبل کے وزیراعظم ہوں گے۔26 ویں آئینی ترمیم کے موقع پر ایمل ولی خان کا پارلیمنٹ میں خطاب بھی متاثر کن تھا جس میں انہوں نے اہم تاریخی حوالے دیئے۔پارلیمنٹ کی بالادستی پر اراکین اسمبلی کے خطاب قابل تحسین ہیں۔
عدالتی معاملات پر 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بیانات کے ساتھ ساتھ یہ خبر بھی آرہی تھی کہ اوورسیز پاکستانیوں کو انصاف کی فراہمی کے لئے خصوصی عدالتیں قائم کی جارہی ہیں جو اوورسیز پاکستانیوں کے معاملات مختصر مدت میں فیصلوں کے ذریعے حل کریگی۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اوورسیز پاکستانی اپنی جائیدادوں پر قبضے اور انصاف نہ ملنے کے باعث مایوسی کا شکار ہیں اور وہ اپنے ملک میں سرمایہ کاری سے اجتناب کرتے ہیں۔ اگر اوورسیز کے متعلق تمام چھوٹے بڑے شہروں میں خصوصی عدالتیں بناکر حقیقی طور پر جلد فیصلے کرکے انہیں نافذ کرایا جائے تو اوورسیز پاکستانی ملک میں کثیر سرمایہ کاری کریں گے۔ جلد فیصلے اوورسیز پاکستانیوں کے علاوہ ساری قوم کی ضرورت ہیں۔ جلد فیصلوں کے لئے حکومت قانون سازی کرے تاکہ لوگوں کو فوری سستا انصاف مل سکے۔
26ویں آئینی ترمیم میں یہ بات بھی ہونی چاہئے تھی کہ تمام عدالتیں دیوانی مقدمہ زیادہ سے زیادہ ایک سال اور فوجداری مقدمہ کا فیصلہ 6ماہ میں کرنے کی پابند ہیں۔ اس قانون سازی اور اس پر مکمل عملدرآمد کی اس وقت ملک کے عوام کو اشد ضرورت ہے کیونکہ پاکستان میں دیوانی مقدمات کے فیصلے تین نسلوں تک نہیں ہوتے اور اسی طرح سے فوجداری کیسز بھی طویل عرصے تک چلتے رہتے ہیں اور طویل مدت گزرنے کی وجہ سے مقدمے کے گواہ سمیت اہم شواہد ختم ہوجاتے ہیں جس سے انصاف کی فراہمی ممکن نہیں رہتی۔ عام آدمی کو انصاف کی فراہمی سے ہی معاشرہ ترقی کرسکتا ہے اور اس سلسلے میں فوری طور پر فیصلے ہونے چاہئیں۔ تمام عدالتوں میں ججوں کی تعداد دوگنی کی جائے تاکہ کیسز تیزی سے چل سکیں۔