عوام سے حقائق پوشیدہ رکھنے کی ناروا پالیسی

 26 ویں آئینی ترامیم کا ہنگامہ خیز مرحلہ تو اب طے ہو چکا۔ یقینا حکومت نے مطلوبہ اہداف بھی پورے کر لیئے اور اب ا نہیں اپنی تمام تر توجہ قومی اور عوامی مسائل کے حل کی طرف مبذول کرنا ہونگی ۔حکومت نے آئینی ترامیم کو منظور کروانے کیلئے جس قدر تیزی دکھائی، جتن کئیے اور دِن رات محنت کی ،اس کا عشرعشیر بھی اگر معاشی بحران کے حل کے لیے صرف کرتی تو آج پہاڑ جیسے مسائل میں کسی حد تک کمی ضرور ہو جاتی۔ یہ حقیقت ہے کہ عوام کو شنگھائی تعاون تنظیم کے اسلام آباد میں ہونے والے تاریخی اجلاس سے بہت سی توقعات تھیں لیکن آئینی ترامیم کی گھٹا میں سب کچھ دب کر رہ گیا۔ یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے عوام دوست وزیرِاعظم ’’اس تنظیم کے اجلاس کے روز ہی شام کو ایک سیاسی بیٹھک میں شرکت کے لیے لاہور پہنچ گئے تھے۔ بہرحال شنگھائی تعاون تنظیم کی’’ اسلام آباد سربراہ کانفرنس ‘‘ہر لحاظ سے کامیاب رہی اور اسکے مثبت اثرات ہماری معیشت پر یقینا پڑیں گے ۔ اس وقت حکومت اپنے معاشی اہداف کو حاصل کرنے کے لیے FBRکو مکمل طور پر فعال کیئے ہوئے ہے جس کی وجہ سے گزشتہ سال کے مقابلے میں ٹیکس و ہندگان کی تعداد دوگنا سے بھی زیادہ ہو چکی ہے ۔یہ بات قابلِ غور ہے کہ اس وقت عوام باز ار سے جو بھی اشیائے ضرورت خریدتے ہیں اس پر وہ ڈبے یا پیک پر درج شدہ سیلز ٹیکس ـ‘‘ اداکرتے ہیں اس کے باوجود بھی حکومت کہتی ہے کہ عوام ٹیکس نہیںدیتے ۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ بجلی ، گیس، پانی کے بلوں ، پٹرول اور ڈیزل کی خریداری اور پراپرٹی کی خرید و فروخت میں عوام وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو باقاعدہ واجب الادا ٹیکس دیتے ہیں۔ ہم ہمیشہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ زراعت ہماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے لیکن ہم نے زراعت اور کسان کے مسائل کو حل کرنے کے لیے’’رتی بھر کام‘‘بھی نہیں کیا جس کی وجہ سے کسان کے پیداواری اخراجات بڑھ رہے ہیں جس کے بے پنا ہ منفی اثرات ہماری مجموعی زرعی پیداوار پر ہو رہے ہیں۔ ہماری ملکی برآمدات کا 60فیصد سے زائد حصہ کاٹن اور اس سے بنی ہوئی مصنوعات پر تھا لیکن کپاس کی ملکی پیداوار میں ’’تباہ کن کمی‘‘کی وجہ سے اسکی پیداوار 2کروڑ گانٹھ سے کم ہو کر صرف 60لاکھ رہ گئی ہے اور ہمیں اس سال بھی اپنی ملکی ضروریات پورا کرنے کے لیے تقریباً 30سے 35لاکھ گانٹھیں در آمد کرنا پڑیں گی جس پر اندازاً 2ارب ڈالر سے زائد کا قیمتی زرمبادلہ خرچ ہوگا۔ کیا حکومت نے کپاس کی پیداوار کو بڑھانے کے لیے کوئی حکمت عملی تیار کی تھی ؟ کیا کپاس کے بحران کی وجہ سے متاثر ہونے والی سینکڑ وں ٹیکسٹائل اور جیننگ فیکٹریوں کی بحالی کا کوئی منصوبہ بنایا تھا؟ حکومت یاد رکھے کہ زرعی شعبے کا بحران ہمیں غذائی قلت کا شکار بھی کر سکتا ہے ۔ بانی پاکستان حضرت قائدِ اعظم نے قیامِ پاکستان کے بعد مختلف تقاریب سے خطاب کرتے ہوئے کہاتھا کہ اس وطن کی ترقی ، خوشحالی اور مضبوطی کے لیے ہر ایک کو اتحاد اور اتفاق کے ساتھ اپنے اپنے حصہ کا کام پوری محنت خلوص اور دیانتداری کے ساتھ انجام دینا ہوگا۔ ہمیں اللہ تعالیٰ کے عطاء کر دہ انسانی اور قدرتی وسائل سے بھر پور استفادہ کرنا ہوگا۔ اگر ہم قائدِ اعظم ؒ کے ان اصولوں پر عمل کرتے تو ہم نہ کسی کے آگے کشکول پھیلاتے اور نہ ہی آج ہم 74ہزار ارب روپے کے بیرونی قرضوں تلے دبے ہوتے۔ کس قدر دکھ کی بات ہے کہ ہمارے حکمران آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط کو من وعن تسلیم کرتے ہوئے جو قرضے لیتے ہیں اس پر بھی ’’خوشی کے شادیانے ـ‘‘بجاتے ہیں اور اسے اپنی ’’کامیاب معاشی حکمت عملی‘‘بھی قرار دیتے ہیں ۔ کیا ہمارے حکمرانوں نے کبھی عوام کو یہ بتایا ہے کہ آخر ان بھاری قرضوں کو کب اور کس طرح ادا کرنا ہے ؟ ہماری معیشت میں یہ بھی سکت نہیں ہے کہ ہم ان قرضوں پر واجب الادا سالانہ سود ساڑھے نو ارب روپے ہی ادا کر سکیں ۔ہم تو سود در سود کے چکروں میںجکڑے ہوئے ہیں ۔ 1958ء سے اب تک کے 66ویں سالوں میں ہمارے ہر حکمران نے آئی ایم ایف ،عا لمی بنک اور دوست ممالک سے قرضے حاصل کرنے میںکبھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی بلکہ یہ اب ہماری عادت بن چکی ہے کہ اپنے و سائل کو صیح معنوں میں استعمال نہ کرو اور مانگے تانگے کے قرضوں سے ملکی معیشت چلاؤ۔ ایک  جائز ے کے مطابق ہم آئی پی پیز سے سخت ترین شرائط پر بجلی تو خرید لیتے ہیں لیکن پانی سے سستی بجلی پیدا کرنے کی بجائے تقریبا 75ارب روپے کا پانی ضائع کر دیتے ہیں دکھ کی بات یہ بھی ہے کہ ان آئی پی پیز میں ہمارے موجودہ سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ ہمارے اپنے سرمایہ کار بھی شامل ہیں ۔ کیا ہماری حکومت نے ان’’پیارے راج دلاریـ‘‘آئی پی پیز کو قائل کرنے کی بھی کوشیشیں کی ہیں کہ وہ بجلی کی قیمتیں مناسب حد تک کم کریں ۔ کوئی مانے یا نہ مانے اس وقت پاکستان میں جو جمہوری ، سیاسی، معاشی ، مالیاتی ، عدالتی اور انتظامی بحران پر پھیلا ہوا ہے اس کی اصل وجہ ہمارے حکمرانوں کا قیام پاکستان کے بنیادی مقاصد سے صریحاًانحراف ہی ہے کیونکہ 77سال گزرنے کے باوجود بھی ہم ملک میں نہ ہی اسلامی نظام کا نفاذ کر سکے ہیں اور نہ ہی اپنے جمہوری اداروں اور روایات کو پروان چڑھا سکے ہیں ۔ سستے اور فوری عدل و انصاف کی فراہمی ، مساوات اور بنیادی حقوق کا مسئلہ ہو یا لوگوں کے لیے ترقی کے یکساں مواقع ، اس کا تصور کرنا بھی محال ہے ہمارے سیاست دانوں کے درمیان اقتدار کے لیے شروع ہونے والی جنگ نے ملک بھر میں انتشار اور بگاڑ پیدا کر دیا ہے ہمارے معاشرے میں باہمی احترام ، صبر، برداشت ، احساس ، رواداری ، باہمی اتفاق و اتحاد ، بھائی چارہ، اخوت اور محبت کا فقدان پروان چڑھ رہا ہے امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورتحال ، جرائم کی رفتارمیں روز بروز اضافے اور باہمی منافرت کی وجہ سے ’’طاقت ور مافیا‘‘کو کُھل کھیلنے ‘‘کا موقع ملا ہے ۔ صوبائی تعصب ، لسانی تعصب اور سیاسی تعصب نے ملک دشمن طاقتوں اور دہشت گردوں کی مذموم سرگرمیوں کو بڑھاوا دیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہماری مسلح افواج نے ایسے عناصر کا سر کچل کر رکھ دیا ہے ۔ لیکن ہمارے باہمی اختلافات نے جہاں ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے وہاں جمہوریت بھی صحیح معنوں میں پروان نہیں چڑھ سکی۔

ای پیپر دی نیشن