آج کے جدید دور کے تقاضے بھی بدل چکے ہیں۔ زندگی کی بنیادی ضرورتیں بھی تبدیل ہو چکی ہیں حتیٰ کہ انسان کا کھانا پینا رہن سہن سب کچھ بدل گیا ہے۔ انسانی زندگی ٹیکنالوجی کے بغیر ادھوری لگتی ہے لیکن پاکستانی معاشرہ آج بھی جدت کے راستے میں روڑے اٹکا رہا ہے۔ ماضی گواہ ہے کہ جن قوموں نے دور حاضر کے تقاضوں سے روگردانی کی وہ پیچھے رہ گئیں ہمارے ہاں سرکاری ادارے کارکردگی میں اس لیے پیچھے رہ گئے کہ بڑے عرصے تک وہ لکیر کے فقیر بنے رہے۔ وہ روایتی طریقہ کار سے ہی باہر نہیں نکل پائے۔ ویسے بھی ہمارے ہاں رواج ہے کہ سرکاری اہلکار اپنے ورکنگ سٹائل سے باہر نہیں آنا چاہتے اور جو کوئی ہمت کرکے تبدیلی لانا چاہے اس کی اتنی مخالفت کی جاتی ہے، اس کے راستے میں اتنی رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں کہ وہ دل برداشتہ ہو کر توبہ کر لیتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پرائیویٹ سیکٹر نے نت نئے رحجانات کو فالو کیا اور وہ بہت ترقی کر گیا۔ گورنمنٹ سیکٹر میں فیصلہ کرنے کا اختیار ایک آدمی کے پاس نہیں ہوتا لہٰذا کوئی بھی فیصلہ بروقت نہیں ہو پاتا جبکہ پرائیویٹ سیکٹر میں حالاتِ وواقعات کے مطابق فوری فوری فیصلے لیے جاتے ہیں۔ آج کل کے ڈیجیٹل دور میں منٹوں سیکنڈوں کی گیم ہے۔ اگر کوئی تجویز مہینوں منظوری کے لیے فائلوں میں گھومتی رہنی ہے تو اتنی دیر میں تو دنیا بدل چکی ہوتی ہے۔ اگر ہم سرکاری شعبوں میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو ہمیں روایتی انداز بدلنا ہوں گے۔ ہمیں دور حاضر کے تقاضوں کے مطابق اپنے آپ کو ہم آہنگ کرنا ہوگا۔ ہمیں محکموں کے ذمہ داران کو ذمہ دار ٹھرا کر انھیں اختیارات دینے ہوں گے۔ ہمیں احتساب کے روایتی طریقے بھی بدلنا ہوں گے۔ آدم کی اولاد جانتے بوجھتے ہوئے کہ جھوٹ بولنا سخت گناہ ہے لیکن معاشرے میں فیشن کے طور پر جھوٹ بولا جاتا ہے اور ہم ہر بات کو اپنے پیرائے میں ڈھال کر بڑھا چڑھا کر کرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ سرکاری اداروں کی روایتی سستی دور کرنے کا واحد حل ٹیکنالوجی کا استعمال ہے کیونکہ ٹیکنالوجی جھوٹ نہیں بولتی۔ نہ کمپیوٹر کسی کا لحاظ کرتا ہے نہ کیمرہ کسی کے عیبوں پر پردہ ڈالتا ہے۔ سرکاری ملازمین کی کارکردگی کو ٹیکنالوجی کے ذریعے مانیٹر کیا جائے سرکاری ملازمین کی حاضری فنگر پرنٹس کے ذریعے ہونی چاہیے ڈیجیٹل فائلنگ سسٹم ہونا چاہیے تاکہ نہ تو فائل غائب ہونے کا اندیشہ رہے اور نہ ہی چیزیں چھپائی جا سکیں۔ ہم نے حقیقی معنوں میں اگر آگے بڑھنا ہے تو ہمیں حقیقت پسند بننا پڑے گا۔ یہاں ہر بندہ دوسرے کو مشکوک سمجھتا ہے بلکہ پورا معاشرہ ہی مشکوک معاشرہ ہے۔ کوئی کسی کی سچی بات پر بھی اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ ہم اپنا بہت سارا وقت باتوں کی حقیقت جاننے اور اس کی گہرائی تک پہنچنے میں ضائع کر دیتے ہیں۔ اوپر سے ہمارے ہاں ہر بندہ دوسرے کی کمزوریاں ڈھونڈ کر اسے بلیک میل کرنے کے چکروں میں رہتا ہے۔ ہم تخلیقی کام کرنے کی بجائے اپنی تمام تر توانائیاں دوسروں کے معاملات کا کھوج لگانے میں صرف کر دیتے ہیں اور یہ کمزوریاں کسی ایک شعبہ کی نہیں پورا معاشرہ ہی اس رو میں بہہ چکا ہے۔ بہرحال جن لوگوں نے کام کرنا ہوتا ہے ایک تو وہ اپنا وقت ضائع کیے بغیر اپنا کام جاری رکھتے ہیں دوسرا وہ کسی کی تنقید کی پروا کیے بغیر آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں میڈیا مینجمنٹ پنجاب حکومت کا مسئلہ رہا ہے بالآخر پنجاب حکومت متعدد تجربات کرنے کے بعد ایک متحرک اور فعال ٹیم میدان میں اتارنے میں کامیاب ہو چکی ہے سیکرٹری انفارمیشن طاہر رضا ہمدانی کی قیادت میں بنائی جانیوالی ٹیم نے انقلابی تبدیلیوں کا آغاز کر دیا ہے ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز پنجاب غلام صغیر شاہد نے تو ڈائریکٹوریٹ میں جارحانہ اقدامات کرتے ہوئے دہائیوں سے براجمان ملازمین کو بھی خوب جھٹکے دے کر انھیں متحرک کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کی مناپلی توڑ دی ہے۔ سیکرٹری انفارمیشن طاہر رضا ہمدانی نے میڈیا فرینڈلی پالیسی اپنائی ہے۔ قبل ازیں ایسا ماحول بن چکا تھاکہ صحافیوں کو کوئی اور ہی مخلوق سمجھا جاتا تھا۔ میرا گزشتہ روز سول سیکرٹریٹ جانا ہوا۔ میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ سیکرٹری انفارمیشن طاہر رضا ہمدانی صبح 9بجے اپنے آفس میں موجود تھے انھوں نے بتایا کہ ان کی روٹین ہے کہ وہ صبح سویرے ہی آفس پہنچ جاتے ہیں اگر کہیں میٹنگ نہ ہو تو وہ اپنے آفس میں دستیاب ہوتے ہیں انھوں نے ملاقات میں بتایا کہ پنجاب حکومت نے آج کے تقاضوں کے مطابق پرنٹ الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل میڈیا کو بھی فوکس کیا ہے ڈیجیٹل میڈیا کو بھی اشتہار دیے جا رہے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے اربوں روپے کے بقایاجات کی ادائیگیاں بھی شروع کردی گئی ہیں تاکہ میڈیا ہاؤسز اور میڈیا ورکرز کے مسائلِ حل ہو سکیں۔ پنجاب حکومت نے صحافیوں کے مسائلِ کے حل کے لیے عملی اقدامات شروع کر دیے ہیں۔ ورکنگ جرنلسٹوں کی ہاؤسنگ سکیم کے راستے میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا جا رہا ہے، کالونی پر حکم امتناعی ختم کروا دیا گیا ہے۔ صحافیوں کی فلاح و بہبود اور دیگر مسائل کے حل پر بھی توجہ دی جا رہی ہے۔ سیکرٹری انفارمیشن نے بتایا کہ وہ صحافیوں کے لیے ہروقت دستیاب ہیں۔ وہ جلد میڈیا ہاؤسز کا وزٹ بھی کریں گے تاکہ دوریاں ختم کی جائیں۔ پنجاب حکومت کی نئی میڈیا ٹیم کی کاوشوں سے مثبت تبدیلیاں نظر آنا شروع ہو گئی ہیں۔