پی ٹی آئی میں فارورڈ بلاک کی افواہیں ، بیرسٹر گوہر نے تردید کر دی ۔
آئین میں 26 ویں ترمیم کے حوالے سے تحریک انصاف نے جو پیالی میں طوفان اٹھایا ہوا تھا۔ وہ ابھی تھما ہی تھا کہ اب نیا طوفان اٹھتا نظر آ رہا ہے۔ یہ طوفان آئینی کمیٹیوں میں پارٹی کے ارکان اسمبلی کے نام دینے پر اٹھایا جا رہا ہے۔ شبلی فراز کہتے ہیں جیل میں بند بانی پی ٹی آئی نے ان کمیٹیوں میں شامل ہونے سے منع کر دیا ہے۔ ہم کسی ایسی کمیٹی کا حصہ نہیں بنیں گے۔ دوسری طرف تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ میں نے نام دے دئیے ہیں تاکہ ہمیں اس عمل سے باہر نہ رکھا جا سکے۔ بعد میں انکار کا پتہ چلا۔ اب معلوم نہیں بات بانی کی درست مانی جائے یا چیئرمین کی۔ تاہم یہ ضرور معلوم ہوتا ہے اب پارٹی میں کھل کر دو گروپ سامنے آ رہے ہیں۔ ایک جو بانی کی حکم عدولی کا تصور بھی گناہ جانتا ہے۔ دوسرا وہ جو حالات کے مطابق فیصلے کرنے کے حق میں ہے۔ بانی کو گلہ ہے کہ انہیں بتایا کچھ جاتا ہے اور کیا کچھ جاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اب ایک گروپ اندر والے کی اور دوسرا باہر والوں کی پالیسی پر چل رہا ہے۔ شاہ محمود قریشی کے حوالے سے بھی پریشان کن اطلاعات پھیلائی جا رہی ہیں۔ ان کو زین قریشی کی آڑ میں رگیدا جا رہا ہے۔ وہ پارٹی میں کپتان کے بعد نمبر 2 کی پوزیشن پر ہیں۔ انہیں 2 نمبر قرار دینے کے برے اثرات پڑ سکتے ہیں۔ مگر شاید خیبر پی کے والوں کی طرف سے کون سے بانی کا محب ہے اور کون مخالف۔ یہ ثابت کرنے کی کوشش نقصان دہ ہو سکتی ہے۔ اس پر تو یہی کہنے کو جی چاہتا ہے کہ؎
دوست دوست نہ رہا پیار پیار نہ رہا
زندگی ہمیں تیرا اعتبار نہ رہا
اس طوفانی دور میں دوست اور دشمن کی پہچان مشکل ہو گئی ہے۔ اب کہیں کھوٹوں کے ساتھ کھرے بھی مفت میں رگڑے نہ جائیں۔ پہلے ہی کپتان کہہ چکے ہیں کہ مجھے باہر نکالنا ہے تو میرے پلان پر چلنا ہو گا۔ مگر شاید باہر والے اس طرف توجہ نہیں دے رہے اور یوں قیدی کی رہائی کے امکان میں مزید تاخیر ہوتی نظر آ رہی ہے۔ اس سے ظاہر ہے قیدی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جا رہا ہے۔ اور اپنی گردن بچانے کے لئے اسکی ذمہ داری ایک دوسرے پہ ڈالی جا رہی ہے۔
راولپنڈی میچ میں انگلینڈ کا بھی اسپنرز کو استعمال کرنے کا فیصلہ۔ فیصلہ کن میچ آج ہو گا۔
راولپنڈی میں پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان تیسرا اور فیصلہ کن ٹیسٹ میچ آج ہو رہا ہے۔ جس کے لیے دونوں ٹیموں نے نیٹ پریکٹس شروع کر دی ہے۔ خوب تیاری کی جا رہی ہے تاکہ اس میچ میں کامیابی ان کے قدم چومے۔ انتظامیہ پوری کوشش کر رہی ہے کہ پچ ویسی ہی تیار کی جائے جس طرح ملتان کی تھی۔ گزشتہ روز سے پچ کو خشک رکھنے کے لیے دو بڑے بڑے پنکھے لگا دئیے ہیں۔ پوری کوشش ہے کہ گرائونڈ خشک رہے۔ اسی لیے دونوں ٹیموں نے گرائونڈ کی حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی اپنی ٹیم میں کچھ تبدیلیاں کی ہیں۔ اس بار انگلینڈ کی ٹیم نے پچھلے میچ میں پاکستانی اسپنرز کے کمالات دیکھ کر اس آخری میچ کے لئے اپنی ٹیم میں جو تبدیلیاں کی ہیں اس میں سپنرز کو زیادہ موقع دیا ہے تاکہ وہ بھی اس میچ میں اپنی بائولنگ کا جادو جگا سکیں۔ دوسری طرف پاکستانی ٹیم میں بھی جو تبدیلیاں کی ہیں ان میں ایک بار پھر ساجد خان اور نعمان علی پر ہی توجہ رہے گی جنہوں نے دوسرا میچ جتوانے میں اہم کردار ادا کیا اور سیریز فی الحال ایک ایک سے برابر ہے۔ فاسٹ بائولر حمزہ انجری کے باعث کھیل نہیں رہے۔ اب راولپنڈی میں ہونے والے میچ میں دیکھنا ہے انگلش جادوگروں کا جادوں چلتا ہے یا پاکستانی جادوگر کامیاب رہتے ہیں۔ پچ تو اسپنرز کے لیے کارآمد ہے۔ کھیل ان کے ہاتھ میں ہی رہے گا۔ امید ہے گرائونڈ میں شائقین کی بڑی تعداد میچ دیکھنے آئے گی۔ کیونکہ ٹیسٹ سیریز کا فاتح کون ہو گا کا فیصلہ اس میچ سے ہو گا۔ اس لیے کھلاڑیوں کو ہار جیت کے خوف کے بغیر کھلے دل و دماغ کے ساتھ کھیلنا ہو گا۔ پاکستانی ٹیم کو اپنی فیلڈنگ پر خاص توجہ دینا ہو گی۔ دونوں ٹیموں کی کوشش ہو گی کے کامیابی اسی کے حصے میں آئے۔ اس لیے وہ جان لڑا دیں گی۔
پاکستان کے بڑے شہر اب رہائش کے لیے موزوں نہیں رہے۔ ایشیائی ترقیاتی بنک۔
ملک میں بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے سب سے برا اثر ہمارے شہروں پر پڑ رہا ہے۔ جو بے ڈھنگے طریقے سے پھیل رہے ہیں۔ آبادی کا بہاؤ ان کیطرف ہے جس کی وجہ سے وہاں رہائش رکھنے والوں کی پریشانیوں اور مشکلات میں اضافہ ہو گیا ہے۔ وہ اب رہائش کے لیے موزوں نہیں رہے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے یہ تلخ حقیقت ایشیائی ترقیاتی بنک کی رپورٹ میں سامنے آئی ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ جب کام منصوبہ بندی کے بغیر ہوں تو ایسے ہی تلخ نتائج سامنے آتے ہیں۔ ملک کے بڑے بڑے شہروں میں کچی آبادیاں اور جھونپڑ پٹیاں تیزی سے قائم ہو رہی ہیں۔ لینڈ مافیا بھی پوری طرح سرگرم عمل ہے اور ہائوسنگ سوسائٹیاں کسی پلاننگ کے بغیر ہی دھڑا دھڑ .بن کر پلاٹ فروخت کرنے کے لالچ میں قیمتی زرعی اراضی تک ہڑپ کر چکی ہیں۔ اب پھیلتے ہوئے شہروں کے ان حصوں میں نہ سڑکیں موجود ہیں نہ بجلی و گیس کی سہولت مہیا کی جا سکتی ہے۔ آب رسانی اور نکاسی آب کے منصوبے شروع کرنا تو جوئے شیر لانے والی بات ہے۔ نہ حکومتوں کے پاس اتنے فنڈز ہیں کہ 10 لاکھ والے شہر میں 50 لاکھ آبادی کو وہ تمام سہولتیں فراہم کر سکے۔ یوں جا بجا ہر طرح کے مسائل سر اٹھائے نظر آتے ہیں۔ پانی ، بجلی ، گیس ، تعلیم و صحت کی سہولتیں کہاں سے میسر ہوں گی۔ عرصہ دراز سے عوام کو آبادی کنٹرول کرنے کا کہا جا رہا ہے مگر کیا مجال ہے جو کوئی بچوں کی تعداد کے مسئلے پر کمپرومائز کے لیے تیار ہو۔ ان جہلا کے نزدیک اچھی تعلیم و تربیت اعلیٰ خوراک، لباس نہیں بس بچوں کی تعداد میں اضافہ ہی مردانگی کا ثبوت ہے۔ وہ اس مردانگی کو ثابت کرنے کے شوق میں دھڑا دھڑ بچے پیدا کرتے ہیں جنہیں نہ تعلیم دی جا سکتی ہے نہ اچھی خوراک اور لباس، شہری سہولتوں کی تو بات چھوڑیں ایک ایک مرلے کے گھر میں دو تین فیملیاں آباد ہوتی ہیں۔ کیونکہ شہروں میں جگہ ہی کہاں رہی ہے گھر بنانے کی۔ چنانچہ شہروں کے اردگرد خالی اراضی پر قبضہ جما کر بیٹھ جاتے ہیں ناجائز تعمیرات ہوتی ہیں۔ وہ شہری پلان کا حصہ نہیں ہوتیں تو وہاں کوئی سہولت کہاں سے آئے اور کون دے۔ دیہی اور پسماندہ علاقوں سے رپورٹ کے مطابق لاہور کی آبادی میں 1998ء سے 2017 ء تک 119 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
والد کے ختم کے اخراجات پر تنازعہ ، بھائی کو قتل کردیا۔
اب معلوم نہیں خون سفید تو ہوتا تھا ہی یہ نیلا پیلا کالا کب سے ہونے لگا ہے۔جائیداد کے تنازع پر، گھریلو تنازع پر بھائی کے ہاتھوں بھائی کا قتل ہوتے دیکھا گیا ہے۔ خون سفید ہو گیا ہو تو بھائی بھائی کا دشمن ہو جاتا ہے۔ آنکھوں پر حرص کی پٹی بندھ جائے تو رشتے ناطے نظر نہیں آتے۔ مگر یہ جو گزشتہ روز گگو منڈی میں ہوا وہ عجب وحشت کا شاخسانہ ہے۔ بجلی بل کے حصے پر بحث ہو یا کرائے میں حصہ برابر کرنے پر لڑائی جھگڑا دنگا ہو ہی جاتا ہے۔ بات قتل تک بھی چلی جاتی ہے۔ مگر آج تک والد مرحوم کے ختم پر اٹھنے والے اخراجات کے تنازع پر بھائی کے ہاتھوں بھائی کا قتل نہ کبھی سْنا نہ کبھی دیکھا تھا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جب حالات اجازت نہ دیتے ہوں تو ساتویں یا دسویں کا ختم کرانا کون سا ضروری ہے۔ قرآن خوانی کے ساتھ کہاں لکھا ہے کہ کھانے پینے کا بھی بندوبست ہو۔ لوگ ثواب کمانے کی بجائے زیادہ تر پیٹ بھرنے جاتے ہیں۔ اب دیکھ لیں ایک رسم کی خاطر اس پر اٹھنے والے خرچے کے تنازع پر ایک اور گھر اجڑ گیا۔ پہلے کیا باپ کا مرنا کم تکلیف دہ تھا کہ اب بھائی نے بھائی کا گھر اجاڑ دیا۔ یوں پہلے ہی چند روز قبل ماتم کدہ بنا گھر ایک بار پھر ماتم کدہ بن گیا۔ سب جانتے ہیں کہ یہ صرف رسم و رواج ہے کہ ہم قل ساتویں یا دسویں ہو پر قرآن خوانی کرتے ہیں۔ اس پر اٹھنے والے اخراجات آج کل تو دکھاوے کی وجہ سے بہت بڑھ گئے ہیں۔ مرنے والے کے ایصال ثواب کے لیے کھانا یوں بنایا جاتا ہے گویا وہ مرنے والے کے غم سے زیادہ کسی شادی بیاہ کی تقریب محسوس ہوتی ہے اور بلایا بھی صاحب حیثیت لوگوں کو جاتا ہے۔ غریب رشتہ داروں کو دودھ سے مکھی کی طرح نکال پھینکا جاتا ہے۔ انہیں بلایا ہی نہیں جاتا۔ اس سے بہتر یہ ہے کہ یہ کھانا غریبوں ، مسکینوں میں بانٹا جائے اور کھاتے پیتے لوگوں کو دیا ہی نہ جائے۔ ان کے کھانے سے کسی کو کیا ثواب پہنچے گا۔ وہ کھا کر پیٹ پر ہاتھ پھیر کر ڈکار ماریں گے اور چلتے بنیں گے۔ غریب غربا کھا کر شکر ادا کریں گے اور مرنے والوں کو دعائیں دیں گے۔
جمعرات،20ربیع الثانی 1446ھ24اکتوبر 2024
Oct 24, 2024