منصف مزاج جج جسٹس یحییٰ آفریدی چیف جسٹس آف پاکستان

پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا انتخاب کیا گیا ہے اس سے قبل الجہاد ٹرسٹ کیس کے فیصلے کی روشنی میں سپریم کورٹ کا سب سے سینیئر جج ہی ملک کا چیف جسٹس ہوتا تھا۔موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بعد سپریم کورٹ کے چوتھے سینئر ترین جج جسٹس یحییٰ آفریدی کو خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی سفارش پر 30 ویں چیف جسٹس کے طور پر نامزد کیا گیا ہے۔۔نامزد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی وکلاء برادری میں ایک پیشہ ور، منصف مزاج جج کے طور پر احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔
وزارت قانون وانصاف نے صدر مملکت کی منظوری سے جسٹس یحیٰی آفریدی کا بطور چیف جسٹس تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔
 نوٹیفکیشن کے مطابق جسٹس یحییٰ آفریدی کی بطور چیف جسٹس تعیناتی 26 اکتوبر 2024 سے3 سال کیلئے ہوگی۔ صدر مملکت آصف علی زرداری نے نئے چیف جسٹس کی تعیناتی کی سمری پر دستخط کر دیئے ۔ایوان صدر کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق صدر پاکستان نے جسٹس یحییٰ آفریدی کو 26 اکتوبر سے 3 سال کیلئے چیف جسٹس آف پاکستان  تعینات کیا ہے۔صدر پاکستان نے چیف جسٹس سپریم کورٹ کی تعیناتی آئین کے آرٹیکل 175 اے (3)، 177 اور 179 کے تحت کی۔صدر نے جسٹس یحییٰ آفریدی سے 26 اکتوبر کو چیف جسٹس کے عہدے کا حلف لینے کی بھی منظوری دی ہے۔جسٹس یحییٰ آفریدی کو خصوصی پارلیمانی کمیٹی نے دو تہائی اکثریت سے نامزد کیا تھا۔ نئے چیف جسٹس کی مدت زیادہ سے زیادہ تین سال اور عمر کی حد 65 برس ہوگی۔ پچیس اکتوبر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا عہدے پر آخری روز ہیچیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور نامزد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی ملاقات بھی ہوئی ہے دونوں میں یہ ملاقات چیف جسٹس چیمبر میں ہوئی۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے نامزد چیف جسٹس یحیی آفریدی کو مبارک باد بھی پیش کی ۔چیف جسٹس اور نامزد چیف جسٹس کی ملاقات نا صرف تقسیم اور اختلافات کے تاثر کو ختم کریگی بلکہ ججز میں کشیدگی کے ابھرتے ہوئے تاثر کو بھی زائل کرنے میں اہم ہے۔سپریم کورٹ آف پاکستان کے نامزد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی 23جنوری 1965کو خیبرپختونخوا کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان میں پیدا ہوئے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کی طرح اپنی ابتدائی تعلیم ایچی سن کالج لاہور سے حاصل کی۔جسٹس یحییٰ آفریدی نے گورنمٹ کالج لاہور سے گریجویشن اور پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم اے معاشایات کرنے کے بعد کامن ویلتھ اسکالرشپ پر جیسس کالج کیمبرج یونیورسٹی سے ایل ایل ایم کی ڈگری بھی حاصل کی۔انہوں نے پاکستان واپس آنے سے پہلے لندن میں فوکس اینڈ گبنز، سالیسیٹرز میں بطور انٹرن کام کیا اور پھر وطن واپسی پر کراچی میں او آر آر، Dignam & Co سے بطور ایسوسی ایٹ منسلک ہو گئے، انہوں نے اپنی پرائیویٹ پریکٹس پشاور میں شروع کی اور خیبر لا کالج میں لیکچرر بھی رہے جہاں انہوں نے بین الاقوامی قانون، مزدور قانون اور انتظامی قانون پڑھایاجسٹس یحیٰ آفریدی نے1990 میں ہائی کورٹ کے وکیل کی حیثیت سے پریکٹس شروع کی اور 2004 میں سپریم کورٹ کے وکیل کے طورپر وکالت کا آغاز کیا۔ انہوں نے خیبر پختونخواہ کے لیے بطور اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل کی خدمات بھی سرانجام دیں۔جج کی حیثیت سے 2010 میں پشاور ہائی کورٹ میں تعینات ہوئے اور پشاور ہائی کورٹ میں ایڈیشنل جج مقرر ہوئے، 15مارچ 2012 کو پشاور ہائی کورٹ کے مستقل جج مقرر کر دیا گیا.بعد ازاں 30 دسمبر 2016 کو جسٹس یحییٰ آفریدی نے پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدہ کا حلف اٹھایا اور 28 جون 2018 کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج مقرر ہوئے۔جسٹس یحییٰ آفریدی نے اعلیٰ عدلیہ میں مختلف اور اہم مقدمات کی سماعت کی، سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس میں حالیہ لارجر بینچ کا حصہ رہے اور 8 رکنی اکثریتی ججوں کے فیصلے سے اختلاف کیا اور نوٹ بھی تحریر کیا تھا۔جسٹس یحییٰ آفریدی سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کے 9 رکنی لارجر بینچ کا حصہ بھی رہے جبکہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس 2024 کی تین رکنی ججز کمیٹی میں شامل ہونے سے معذرت کر لی تھی۔
منگل کوپاکستان کے نئے چیف جسٹس کی تعیناتی کے لئے نام فائنل کرنے کے حوالے سے خصوصی پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں کمیٹی نے دو تہائی اکثریت سے  جسٹس یحییٰ آفریدی کو چیف جسٹس پاکستان نامزد کیا ہے۔کمیٹی کا اجلاس تقریباً ڈیرھ گھنٹے تک جاری رہا۔30 ویں چیف جسٹس آف پاکستان کی تعیناتی کے لئے نام فائنل کرنے کے حوالے سے خصوصی پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس کمیٹی روم نمبر 5 میں ہوا۔اجلاس میں راجہ پرویزاشرف، فاروق ایچ نائیک،سید نوید قمر،کامران مرتضیٰ، رعناانصار، احسن اقبال، شائشتہ پرویز ملک، اعظم نذیر تارڑ  اور خواجہ آصف شریک ہوئے۔ 12 رکنی خصوصی پارلیمانی کمیٹی   اجلاس میں سنی اتحاد کونسل کے ارکان  علی ظفر، بیرسٹر گوہر  اور حامد رضا نے بائیکاٹ کیا ہے۔رجسٹرار سپریم کورٹ کی جانب سے نئے چیف جسٹس کی تعیناتی کے لئے 3 ججز کے نام پارلیمانی کمیٹی کو بھیج دیئے گئے تھے جن میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس یحیٰ آفریدی کے نام شامل تھے سپریم کورٹ کی جانب سے ججز کے نام کے ساتھ مختصر رپورٹ بھی بجھوائی گئی تھی۔جس میں ججز کا مختصر پروفائل، تاریخ پیدائش، تعلیم، وکالت کی تفصیلات، کب جج بنے؟ کب ہائی کورٹس کے چیف جسٹس بنے، سپریم کورٹ میں تعیناتی کی تاریخ بھی شامل ہے خصوصی پارلیمانی کمیٹی میں مسلم لیگ ن کے 4، پاکستان پیپلز پارٹی کے 3، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) اور سنی اتحاد کونسل کے مشترکہ طور پر 3، جمعیت علماء  اسلام ( جے یو آئی ) اور متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیوایم ) کا ایک ایک رکن شامل ہے اور کمیٹی کو دو تہائی اکثریت سے نئے چیف جسٹس کی نامزدگی کرنی تھی۔دن چار بجے کے بعد پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں سیکرٹری قانون و انصاف نے تین سینئر ججز کے نام اور پروفائل پیش کیے۔ تاہم پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کونسل کے ارکان اجلاس میں شریک نہ ہوئے جس پر اجلاس متفقہ طور پررات ساڑھے 8 بجے تک مؤخر کردیا گیا۔کمیٹی نے پی ٹی آئی کو منانے کا فیصلہ کیا ہے اور چار ارکان پی ٹی آئی کے پاس جائیں گے۔ خواجہ آصف ،احسن اقبال، راجہ پرویز اشرف اور رعنا انصار پی ٹی آئی کو منانے کے لیے گئے۔
مگر پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس کے بعد حکومت کی جانب سے انہیں منانے کی کوشش کی گئی جو کہ ناکام رہی۔اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کے چیمبر میں کمیٹی ارکان کی پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر کے ساتھ ملاقات بے نتیجہ رہی جبکہ سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمان نے بھی اسد قیصر سے ٹیلی فونک رابطہ کرکے اجلاس میں شرکت کی درخواست کی۔رابطوں اور ملاقاتوں کے باوجود پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کونسل کے ارکان نے کمیٹی اجلاس کا حصہ نہ بنے کا فیصلہ کیا۔ زیر التواء مقدمات کے ساتھ ساتھ عدلیہ کی تقسیم کے بڑھتے ہوئے تاثر کوختم کرنا نامزد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہوگا۔

ای پیپر دی نیشن